محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے اسباب و مقاصد کے عنوان سے لکھی گئی تحریر پر کچھ افراد نے ایسے تبصرے کئے ہیں جو تاریخی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔ ان میں سے کچھ کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
چند لوگ راجہ داھر پر بہن سے شادی کرنے یا حجاج کو صدا لگاتی کسی معصوم مسلمان لڑکی کو ہراساں کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں،
بغضِ داھر میں مبتلا لوگ راجہ داھر کو غاصب ثابت کرنے کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اسکا تعلق کشمیر یا شمالی پنجاب کے خاندان سے تھا اور وہ بھی سندھ پر غاصب تھا۔ اس منطقی مغالطے کے مطابق تو لاھوری خاندان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم کو اسلام آباد میں
کچھ متعصب افراد یہ پھبتی کس رہے ہیں کہ داھر کیسا ہیرو تھا جو ایک سترہ سالہ لڑکے سے ہار گیا۔ بات یہ ہے کہ سندھ پر حملہ ایک لڑکے نے نہیں، بلکہ ایک فوج نے کیا تھا جس میں ماہر جنگجو شامل تھے اور
نیز اس طرح تو ہمارے ٹیپو سلطان، سراج الدولہ اور سکھ بھی طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں ہارے۔ لیکن اگر آپ اس شکست کی وجہ سے اپنے آباواجداد کے مدافع کو مطعون کرنا چاہیں تو یہی منطق آپکے ہیرو اسامہ بن لادن
آپ کہتے ہیں کہ اسامہ بڑا مجاھد تھا۔ یہ کیسا ہیرو تھا کہ چند بیس سالہ امریکی فوجی ایک ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر آئے اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے چلے گئے۔ اب دو مئی پر اسکا نام بھی کوئی نہیں لیتا، نہ اسکی قبر کا کسی کو پتا ہے؟
اگر کوئی مسلمان ظالم لٹیروں سے لڑنے والے کسی مقامی ہیرو کی حریت پسندی کو اچھا جانے تو اس سے وہ دائرہء اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا۔ حجاج اور محمد بن قاسم وغیرہ کو ہیرو ماننا ضروری نہیں ہے۔
*ذرا سوچئے!*