#یادداشت2017
برصغیر پاک و ہند کےلوگ ”شاہ پرست“ ہیں۔ ایک طرف امام حسین کا نام لیتے ہیں،کہ اُنھوں نےملوکیت کےخلاف کلمہ حق کہتے جان نذر کی،دوسری طرف اس پر ایمان رکھتے ہیں،کہ بادشاہ کےبعد،اُس کی اولاد ہی کا حق ہےہم پر حکومت کرے۔ماتم حسین کا اور تقلیدیزیدکی۔علی کی اولاد کو نبی کی+++
اولاد سمجھتےہیں،گرچہ نبی ص کی اولاد بھی اس لیےمعزز نہیں کہ وہ نبی کی اولاد ہے، ورنہ پسرِ نوح کی تکریم کی جانی چاہیے، جس نے باپ کی نافرمانی کی۔ بھٹو کی بیٹی، بے نظیر کا بیٹا، نواز شریف کا بھائی، بیٹی اور اسی طرح ہر مرحوم سیاست دان کےورثا ہی کو ووٹ دیتےہیں۔بہت کم ایسا ہوتا کہ++
اپنےجیسےمحکوم طبقےسےکسی کو منتخب کریں۔اپنےتئیں دوسروں کا تمسخر اڑاتےہر بار اپنی ہی تضحیک کرتےہیں جیسےیہ کہنا کہ ہائےایک دہی بھلےبیچنےوالا ہمارا صدر بن گیا ہے۔
جمہوری نظام آپ کو موقع دیتا ہے،کہ ایسے حکم رانوں کا انتخاب کریں،جو سچ بولتے ہوں، اور اُن کے ہاتھ میں نسخہ کیمیا ہو،کہ++
کیسےعوام کی داد رسی کرنی ہے؛ یہاں ہم گلی پختہ کروانے،گیس فراہم کرنے،گھر میں نلکا لگوانےکےعوض ووٹ دےدیتے ہیں، پھر یہ توقع کیوں کرتےہیں،کہ وہ ہماری عزت نفس کےلیے جدوجہد کرے گا؟
رہی سہی کسر متوازی حکومت پوری کر دیتی ہے،جب اپنی نرسریوں میں بدعنوان سیاست دانوں کی پنیری لگا کے اُس کو+
اُس کو پروان چڑھاتی ہے، پھر اسی کھیپ کا میڈیا ٹرایل کرتی ہے، تا کہ عوام سیاسی عمل سے بے زار آ جائیں۔ آخر میں انھی کا راج رہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کراچی والوں کوآج کل "غیرمقامی"کا ٹرینڈ بڑےزورکاآیاہے؛ذہن نشین رہےکہ کراچی کے "غیرمقامی" میں سب ہیں مگربےچارہ مہاجر شامل نہیں،جس نے48ء سے57ء تک بڑی قربانیاں دےکر پاکستان بنایا۔یہ کراچی کاجدی پشتی وارث ہے۔
کراچی کے"مقامیوں"کےنمایاں بڑےمسئلوں میں سب سےبڑامسئلہ یہ ہےکہ ایک تو انھوں👇
نےکراچی سےباہر کا سفر نہیں کیاہوتا کہ ان کا زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت مشاہدہ ہو،دوسرا کوئی کسی مجبوری سے نکلےبھی تو اس کی عینک اسے کراچی سےباہر کا کچھ دکھاتی نہیں، ورنہ میں اسے محض راول پنڈی/اسلام آباد کا منظر نامہ دکھاتا، جہاں افغانیوں، سرائیکیوں، پختونوں، ہزاریوں، مہاجروں، 👇
سندھیوں،بلوچوں الغرض سب کاچہرہ خوب دکھتا ہے،مقامیوں کا خال خال۔مقامی یہاں دب کےرہ گیے ہیں اور کسی ابھرےہوئےپر بھولے بھٹکےسےمقامی ہونے کا شبہہ ہو تو وہ بھی کشمیری یا مری کا پہاڑیا نکلے گا، لیکن کیا کبھی کسی نے سنا کہ پوٹھوہاریوں کو "غیر مقامیوں" کا ایسے زور کا ٹرینڈ آیا ہو؟ 👇
#تھریڈ
"مجھےکیوں نکالا"،سے"آخر وہ مجھےکیوں نکالناچاہتےہیں" تک،کہانی ایک ہی ہے۔جو اقتدارمیں شریک کرتےہیں،ان کےمفاد کو کسی طرح خطرہ ہو،وہ خطرےکو کسی طرح بھی نکال باہرکرتےہیں۔سمجھنےکی بات یہ ہےکہ ایسےمیں عوام کےاختیارمیں کیاہے۔ایک طریقہ تو یہ ہےکہ اپنےاپنےپسندیدہ قائد کی 👇
جائز نا جائز کو سونا ثابت کرنےکی کوشش کریں اور دوسرا طریقہ یہ ہےکہ آئین و قانون سےمتصادم کچھ ہوتا دیکھیں،کم سےکم ایمان کےنچلےدرجےمیں رہتےاسےبرا کہیں۔"آپ اس وقت کہاں تھےجب فلاں ظلم ہو رہا تھا"یہ طرز تکلم ہارےہوؤں کا ہے۔بات یہاں پروپگینڈا کی نہیں ہو رہی کہ کون کتنا چور ہے کون 👇
کتنا بڑا ڈاکو یا کوئی صادق و امین ہےبھی یا نہیں۔مسئلہ یہ ہےکہ ہم دوسروں کےگریبانوں میں جھانکتے ہیں، اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمیں اپنی حقیقت پتا چل جائے۔ اگر ہم اپنےپسندیدہ رہ نما کی شان میں قلابے ملاتے رہیں گے تو سب سے بڑی اور منظم با وردی جماعت، ہر ہر عوامی نمایندے کو👇
#تھریڈ
کسی زمانےمیں #PTV سے سیریز ”ایک مَحبَت سو اَفسانے“ میں اَشفاق احمد کا لکھا ایک کھیل پیش ہوا۔اس کھیل کا عُنوان تو یاد نہیں،کیوں کِہ میری عمر،عزیز دوست Faseeh Bari Khan جتنی نہیں،جو شمیم آرا سےلےکر کےشبنم تک کی جوانی کا رازداں ہے۔کچھ کچھ یاد پڑتاہےکِہ اس ڈرامےکے مرکزی
+++++
کردار میں اداکارہ طاہرہ نقوی تھیں۔وہ محض پچیس سال کی عمر میں کینسر کا شکار ہو کےاِس دارِ فانی سےکُوچ کر گئیں۔
یہاں ذکرطاہرہ نقوی کا نہیں،اشفاق احمدکے اُس کھیل کاہے،جس میں طاہرہ نقوی ایک ایسی لڑکی کا کردار نباہتی ہیں،جو کسی نفسیاتی کجی میں مُبتلا ہے۔
ڈاکٹرکی ہدایت کےمطابق
++++
مریض کےعلاج کی خاطر،اُس کےکمرےمیں کپڑےسےبنا ایک پُتلا لٹکادیاجاتاہے۔اِس ڈمی پر طاہرہ کوڑا برساتی ہے،تاکِہ اُس کےمزاج میں رچابسا غُصہ کم ہو سکے،جو بچپن میں جبر کےزیر اثر پلنےکےسبب اس میں دبا ہوا ہے۔
تھوڑےدن تو اچھےگُزرتےہیں،لیکن وہ پھر ویسی کی ویسی ہو جاتی ہے۔اب کےماہرِ نفسیات+++
کل دپہر میں آٹھ سالہ بیٹی نےبتایا کہ پاکٹ منی ختم ہو گئی ہے۔میں نےاستفسار کیاکہ ابھی تو دس دن باقی ہیں،تو کیوں؟اس نے خرچ کاحساب دیتےبتایاکہ آٹھ سو کی کتاب منگوائی ہے۔میرےپوچھنےپر کہ یہ کتاب تم نے کیسےمنگوائی،اس نےبتایابھیاآن لائن بک اسٹور سےمنگواتےرہتےہیں تو انھی سےکہ کر خریدی++
دل پہ ہاتھ پڑا کہ مجھ غریب کی آٹھ سالہ بیٹی آٹھ آٹھ سو کی کتاب خرید رہی ہے۔اتنے میں تو میں لنڈےسےاپنےلیےچار شرٹیں خرید لیتا ہوں۔پھر اس کی اس معصوم حرکت پہ پیار آیا۔ دو بار جیب کی طرف ہاتھ بڑھا کہ اسےکتاب کی قیمت ادا کر دوں،لیکن رک گیا کہ ایسےایک راستہ مل جائےگا کہ کتاب آرڈر کرو،+
ابو حساب چکتا کر دیں گے۔ باپتا بھرا دل رہ نہ سکا، ناچار ہو کے اسے دو سو روپے انعام دیا کہ تم نے پاکٹ منی کا عمدہ استعمال کیا ہے۔
ساتھ ہی اس سے بڑی بیٹھی تھی۔ اسے نے دھیرے سے اپنی ماں کے کان میں کچھ کہا، تو اس کی ماں ہنسنے لگی۔ پوچھا کیا ہوا؟ تو بتایا: "پوچھ رہی ہے،
#تھریڈ
ایک خاتون نےکئی بار یہ اظہار کیا،کہ وہ فکشن لکھناچاہتی ہیں۔میرا کہنا تھا،کہ کوئی بھی لکھ سکتاہے؛بنیادی وصف تو جنون ہے، جو راہ دکھلاتا ہے۔پھر یوں ہوا کہ ایک روز میں اس نتیجے پر پہنچا،وہ خاتون کبھی فسانہ نویس نہیں بن سکتیں۔ان سے یہ کَہ بھی دیا۔ اُن کے استفسار پہ جواب دیا+++
آپ ہر بات میں مذہب کو لےآتی ہیں؛ہر واقعے کو مذہب کی عینک سےدیکھتی ہیں،اور جج بن کےفیصلہ سُنانےبیٹھ جاتی ہیں،کہ فلاں کردار بہت برا ہے;یوں ہوا تو غلط ہوا،یوں ہوتا تو صحیح ہوتا۔لکھنےکےلیےآپ کو ’دہریہ‘ ہونا ہو گا،لکھتے ہوئے،آپ کو اپنےاندر چھپے ’جج‘ کو سلانا ہو گا،’مامتاجگاناہو گی۔++
بُرےکرداروں سےبھی ماں کی طرح محبت کرنا ہو گی۔چاہےسوچنےکی حد تک،چاہے لکھنےکی حد تک۔آپ نےکبھی دیکھا کہ کوئی مبلغ،اچھا فکشن لکھتا ہو‘؟
پوچھا، ’تو کیا لکھنے والے کا مذہب نہیں ہوتا‘‘؟
میں نے جو سمجھا، وہ ان سے کَہ دیا۔ ’’ایسا تو نہیں ہے کہ لکھنے والے کا کوئی مذہب نہ ہو؛ لیکن جب وہ+
جن دنوں انسٹی ٹیوٹ آف سرامکس گجرات میں تربیت حاصل کر رہا تھا،جیب خرچ کے لیےشام میں ایک سرامکس فیکٹری میں مولڈ بنایاکرتاتھا۔ فیکٹری میں ان پڑھ مزدوروں سےوہ وہ فحش لطیفےسنےجو کسی کتاب میں نہیں لکھے۔
ہوسٹل شریک بھائیوں میں ایک حکمت خان (فرضی نام) تھا، جس کا تعلق صوابی سے تھا-++
حکمت خان انتہائی منکسرالمزاج اور نیک دل لڑکاتھا۔پانچ وقت کا نمازی اور تبلیغ جماعت کاپھیرالگاتاتھا۔ہوسٹل میں ہر شب محفل لگتی،جس میں لڑکےبالےمجھ سےوہ لطیفے سنا کرتےجو میں دن بھر میں اکٹھےکرکےلایا ہوتا۔پنچ لائن سنتےسبھی کھکھلاکےہنستے۔ان میں حکمت خان بھی ہوتا،لیکن ایسےکہ ساتھ ساتھ+
ہنستا اور ساتھ پشاوری کھیڑی اٹھا کے مارنے کی کرتا کہ تم نرے جہنمی ہو۔ جونھی ہنسی کے دورے کم پڑتے، تو سب سے پہلے حکمت خان کی آواز سنائی دیتی: "چلو اب کوئی اور لطیفہ سناو۔"
حکمت خان کی اس فرمایش پہ ہم لطیفہ سننے سنانے سے بھی زیادہ محظوظ ہوتے کہ دیکھو ایک طرف پارسائی کی ہوس اور+