غزوہِ بدر ( 17 رمضان، 2ھ بروز جمعہ اور ایک روایت کے مطابق 17 یا 19 رمضان، بروز سوموار) رونما ہوا۔
ہجرت سے قبل کفار قریش مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے آزار و اذیت دیتے یہاں تک کہ وہ گھر بار چھوڑنے پر مجبور کئے گئے اور مناسک حج 1/40
مسلمان ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تو اللہ نے ان پر روا رکھے گئے مظالم کی یادآوری کرائی اور انہیں اذن جہاد عطا کیا۔
غزوہ بدر سے تقریبا ڈیڑھ مہینے 2/40
قریش اس شکست کو عربوں کے درمیان اپنے لئے خجلت اور شرمندگی کا سبب گردانتے تھے اور سریئے میں ہلاک ہونے والے 3/40
اللہ نے پیغمبر(ص) کو قریش کے کاروان یا لشکر پر فتح پانے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلنے کا فرمان دیا۔ رسول خدا(ص) نے اس حکم الہی کا اعلان کیا اور یوں مدینہ سے نکل 4/40
پیغمبراکرم(ص) بقول مشہور 12 یا 13 رمضان 313 اصحاب کا لشکر لے کر مدینہ سے نکلے، پہلی منزل میں اپنے لشکر کی تیاریوں کا معائنہ کیا اور چند افراد کو کم سنّی کی وجہ سے مدینہ واپس بھجوایا
ادھر، ابو سفیان جو ابھی عالم کفر میں تھے، کو شام میں اطلاع ملی تھی کہ مسلمان کاروان 5/40
سارے یا اکثر مکی جو کاروان تجارت میں حصص رکھتے تھے ، خبر سنتے ہی 950 افراد پر مشتمل لشکر میں منظم ہوکر ابو جہل (عمرو بن ہشام مخزومی) کی 6/40
اس لشکر میں قبیلہ بنو عدی بن کعب کے سوا تمام قبائل شامل ہوئے؛ نیز قریش کے تمام اشراف، سوائے ابو لہب کے، جس نے عاص بن ہاشم کو اپنی جگہ بدر روانہ کیا تھا، لشکر کفار میں شامل ہوئے۔
پیغمبر(ص) متعدد منازل طے کرکے 15 رمضان کو "روحا" کے مقام پر 7/40
قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ نے انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ انصار 9/40
رسول خدا(ص) حضرت مقداد اور حضرت سعد کے اظہار خیال سے خوش ہوئے اور فرمایا: "اللہ نے مجھے دو گروہوں (تجارتی کاروان یا مکہ کے بھجوائے ہوئے لشکر) پر فتح و نصرت کا وعدہ دیا ہے۔"
مسلمانوں نے رسول اللہ(ص) کا خطاب سننے کے بعد 10/40
فریق مقابل کی طرف سے ابو سفیان نے احتیاط کے ساتھ بدر کے ایک قریبی علاقے میں پڑاؤ ڈالا اور تحقیقات کے بعد جان گئے کہ مسلمان بدر کی حدود میں ہیں؛ چنانچہ انہوں نے فوری طور پر اپنے کاروان کا راستہ بدل دیا اور ساحل کے راستے سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔
تاہم ابو جہل 12/40
قریش کا لشکر سپاہ اسلام کی تعیناتی کے بعد بدر میں داخل ہوا اور "عَقَنْقَل" نامی ٹیلے کی پشت پر پڑاؤ 13/40
عُمَیر بن وہْب جُمَحی اور ابو اُسامه جُشَمی نے ابوجہل کو خبر دی کہ مسلمانوں کی افرادی قوت مختصر اور ان کے وسائل بہت کم ہیں؛ لیکن یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ جنگ لڑنے اور مارے جانے کے لئے تیار ہیں۔
واقدی نے نقل کیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکیوں کے 14/40
قرآن نے مسلمانوں اور مشرکین کے ٹھکانوں کی واضح تصویر کشی کی ہے:
" جب کہ تم ادھر کی جانب [مدینہ سے قریب تر درے میں] تھے اور وہ ادھر کی جانب 15/40
( سوره توبه، 42)
مسلمانوں نے رسول خدا(ص) کے حکم پر، مسلمانوں کے زیر استعمال کنویں کے سوا، تمام کنؤوں کو مٹی ڈال کر بند کردیا اور لشکر قریش کی خبریں لانے کے لئے اپنے سراغرساں روانہ کئے۔
رسول اللہ(ص) نے حضرت علی (ع) سمیت چند افراد کو اس کنویں 17/40
رسول خدا(ص) نے اس موقع پر فرمایا: "مکہ نے اپنے جگر گوشوں کو تمہاری جانب روانہ کیا ہے"۔
صبح کے وقت پیغمبر(ص) نے اپنے لشکر کی صف آرائی کا اہتمام کیا اور اسی اثناء میں قریش کی سپاہ عَقَنْقَل نامی ٹیلے سے ظاہر ہوئی۔
رسول خدا(ص) نے دیکھا تو بارگاہ احدیت میں 19/40
رسول خدا(ص) کی سپاہ کی پشت آفتاب کی جانب تھی جب کہ قریشیوں کا 20/40
ابتداء میں پیغمبر(ص) نے پیغام بھجوا کر قریش کے ساتھ جنگ اور تقابل کی نسبت ناپسندیدگی ظاہر کی۔ حکیم بن حزام جیسے بعض افراد نے اس پیغام کو منصفانہ قرار 21/40
مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے لئے ایک سائبان بنایا اور سعد بن مُعاذ سمیت انصار کے چند افراد نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالی۔
تاہم مسند ابن حنبل میں حضرت علی(ع) سے منقولہ روایت کے مطابق ، جو زیادہ 22/40
دو بدو لڑائی شروع ہونے سے قبل، ابو جہل نے اپنے لشکریوں کے جذبات ابھارنے اور انہیں مشتعل کرنے کی غرض 23/40
رسول خدا(ص) نے اپنے چچا حضرت حمزہ، حضرت علی (ع) اور حضرت عبیدہ بن حارث کو میدان میں بھیجا؛ جناب حمزہ نے عتبہ کو ہلاک کیا اور جناب علی(ع) نے ولید کو اور جناب عبیدہ نے حضرت حمزہ اور حضرت علی(ع) کی مدد 25/40
عتبہ، شیبہ اور ولید کے ہلاک ہوجانے کے بعد جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے لیکن اللہ کی غیبی امداد اور مسلمانوں کی شجاعت اور پامردی کے نتیجے میں مشرکین بہت جلد مغلوب ہوئے۔
تواریخ کے مطابق گھمسان کی لڑائی کے دوران، رسول خدا(ص) نے مٹھی بھر ریت اٹھا کر قریشیوں 26/40
قریش کا لشکر اپنا مال و اسباب چھوڑ کر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا اور بعض افراد شکست کی خبر مکیوں کے لئے لے گئے۔
جنگ بدر میں 14 مسلمان شہید ہوئے (جن میں سے 6 کا تعلق 27/40
ابن قتیبہ دینوری نے مشرکین کے مقتولین کی تعداد 50 اور قیدیوں کی تعداد 44 بتائی ہے جن میں سے 35 افراد حضرت علی (ع) کے ہاتھوں مارے گئے۔ دریں اثناء سینکڑوں قریشی 28/40
رسول خدا(ص) کو ابو جہل کی ہلاکت کی خبر سننے کا انتظار تھا اور آپ(ص) نے اس کو پیشوایان کفر کا سرکردہ اور فرعون امت جیسے خطابات سے نوازا تھا،
چنانچہ آپ(ص) نے اس کی ہلاکت کی خبر سنتے ہی فرمایا: "اے میرے رب! تو نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا 29/40
ابو جہل دو نو عمر نوجوانوں "معاذ بن عمرو" اور "معاذ بن عفراء" کے ہاتھوں مارا گیا اور ابھی اس کی جان میں جان تھی جب حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کا سر تن جدا کیا۔
دوسرا شخص، جس پر رسول خدا(ص) نے نفرین کی تھی اور اس کی ہلاکت کے خواہاں تھے، نوفل بن خویلد تھا جو 30/40
جنگ بدر جو نصف روز سے زیادہ جاری نہ رہی، صدر اول کا ایک اہم ترین واقعہ ثابت ہوئی؛ یہاں تک کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: "کبھی بھی شیطان اتنا 31/40
مشرکین قریش کے باقیماندہ مال و متاع کو رسول خدا(ص) کے حکم پر اکٹھا کیا گیا اور شہداء کی تدفین اور مشرکین کی لاشین "قَلیب" نامی کنویں میں پھینکنے کے بعد مسلمان مال غنیمت اور قیدیوں کو لے 32/40
دو قیدیوں کو، جو مکہ میں مسلمانوں پر تشدد کے اصل ذمہ دار تھے، راستے میں ہی قتل کی سزا سنائی گئی اور حضرت علی علیہ السلام نے حکم پر فوری طور پر عملدرآمد کیا۔ امیہ بن خلف بھی قید ہونے کے 33/40
رسول اللہ(ص) کے حکم پر، ابو البختری (عاص بن ہشام) کو شعب ابی طالب میں مسلمانوں کی قلعہ بندی کے دوران قابل قدر خدمات 34/40
باقی قیدی مدینہ میں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کئے گئے اور رسول خدا(ص) نے ان کے ساتھ نیک رویہ روا رکھنے کی ہدایت کی۔
بعدازاں عباس بن عبد المطلب سمیت 35/40
اگر اس غزوہِ کا قرآن کی روشنی میں جائزہ لیں تو قرآن کریم کی سورت آل 36/40
ان آیات کریمہ میں مشرکین کے لاحاصل اقدامات کو 37/40
ارشاد قرآنی کے مطابق بعض مسلمانوں نے جہاد میں شرکت کرنے سے انکار کیا، جبکہ اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر تھا اور اس نے کافروں کے دل 38/40