My Authors
Read all threads
جنگ نہروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم مرادی، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات ایک جگہ جمع ہوئےاور نہروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخر وہ اس 1/17
نتیجہ پر پہونچے کہ اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع)، حضرت معاویہ اور گورنر عمرو عاص ھیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ لھذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ھم میں سے ھر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا۔
تینوں اپنا 2/17
اپنا مقصد لے کر نکلے، دو تو اپنے مقصد میں ناکام رہے لیکن ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عھد کیا اور سن 40ھ میں 19 رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا۔
اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مہمان تھے اور صبح کو واقع ھونے والے حادثہ سے با 3/17
خبر تھے۔ لہذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ جناب جعدہ کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔
حضرت علی (ع) نے فرمایا
"قضائے الٰھی سے فرار نہیں کیا جا سکتا"
پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ 4/17
ھوگئے ۔
"اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔
اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو"

حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے سر مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ھوا۔ آپ کی داڑھی اور 5/17
محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :
"ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے"

حضرت 6/17
عمار بن یاسر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت علی (ع) سے فرمایا۔ "دو شخص شکی ترین ہیں ایک احمد جس نے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں اور دوسرا وہ شخص جو تیرے سرپر تلوار ما رکر تیری داڑھی کو سرخ کر دے گا۔"

بارہویں صدی ہجری کے محدث سید نعمت اللہ جزایری نے 7/17
کتاب قصص الانبیاء میں پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:
''جس روز تمہارے سرمبارک کو شگافتہ کیا جائے گا اس روز تمہارا صبر کیسا ہوگا اور تمہارے محاسن تمہارے خون سے 8/17
رنگین ہوجائیںگے اوراس وقت تم محراب عبادت میں سجدہ کی حالت میں ہوں گے؟
حضرت علی (ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ ! وہاں پر مقام شکر ہوگا مقام صبر نہیں"

"ابن قتیبہ دینوری" اہل سنت کے مشہور مورخ نے کتاب "معروف الامام و السیاس" میں حضرت علی (ع) کی شہادت کے حادثہ کو اس طرح لکھا ہے 9/17
:
جمعہ کی صبح کو جس وقت چالیسویں ہجری کے رمضان کے دس دن باقی تھے، حضرت علی (ع) اپنے گھر سے نماز جماعت قائم کرنے کے لئے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے اور جب آپ نے محراب عبادت میں نماز شروع کی تو ابن ملجم نے یہ کہتے ہوئے آپ پر حملہ کیا ''الحکم للہ لا لک یا علی! '' ۔ شمشیر کی 10/17
ضربت سے آپ کا سراقدس دوپارہ ہوگیا اور علی (ع) نے کہا : ''فزت و رب الکعبہ'' یعنی "رب کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہو گیا"

19 رمضان 40ہجری کو صبح کے وقت
خدا کے گھر یعنی "مسجد" میں
سال کے سب سے بہترین مہینہ "رمضان"
رمضان کہ بہترین دن "جمعہ"
جمعہ کابہترین وقت "فجر"
فجرکا بہترین 11/17
عمل "نماز"
نماز کی بہترین حالت "سجدہ"
یوں حضرت علی علیہ سلام کو سجدہ کی حالت میں ایک معلون نے زہر آلودہ تلوار سے انکے سر اقدس پر پشت سے وار کیا ۔

آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ 12/17
زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ
"یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا. اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں 13/17
چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ ، پاوں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں,اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے"

دو 14/17
روز تک حضرت علی ع بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی. امام حسن ع وامام حسین ع نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے عظیم تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک 15/17
کردیا۔
میں نے ہمیشہ اہل تشیع کو 19 رمضان سے غمزدہ حالت میں دیکھا، 21 رمضان تک یہی حالت رہتی ہے، کچھ عرصہ پہلے تک جب تک میں مکمل تاریخ سے لاعلم تھا، مجھے حیرت بھی ہوتی تھی کہ 21 رمضان تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کی تاریخ ہے جو پورے عالم اسلام کیلئے غمناک دن ہے لیکن 16/17
دو دن پہلے سے کیوں غمزدہ ہوجاتے ہیں؟
جب تحقیق کی تو سمجھ آیا کہ حضرت علی ع کی مصیبت یا شہادت تو 19 رمضان کو ہی شروع ہوگئی تھی، جب انکے سر مبارک پہ ضرب لگی، یہ تین دن تو ہر شیعہ سنی کو حالت غم میں ہونا چاہئیے اور جو جانتے ہیں وہ ہوتے بھی ہیں۔
#پیرکامل
۔ 17/17
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!