لیکن جب تھوڑا باشعور ہوئے اور اپنے حلقہ احباب 1/37
اسی دوران یہ بھی پتہ چلا کہ صرف اہل تشیع ہی اسکا استعمال کرتے ہیں لیکن پھر ایک بار مولانا 2/37
بس پھر میں نے زور شور سے خود تحقیق شروع کردی، احادیث کی کتب کا بھی مطالعہ کیا، مختلف مکاتب فکر کے فتاویٰ بھی جمع کئیے، جن میں کچھ علماء کرام نے لکھا ہے کہ لفظ 3/37
یعنی انہوں نے بھی اس پر کوئی سختی نہیں کی۔ کہ اگر کوئی غیر نبی کے لئے علیہ السلام بولے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ ایسا کسی عالم 4/37
ویسے بھی علیہ السلام کے مطلب ہے۔ "ان پر سلامتی ہو" یا "ان پر اللہ کا سلام ہو"۔ تقریبا یہ ہی معنی السلام علیکم کےبھی ہیں۔ جو ہم آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے کو بولتے 5/37
احتیاط کے پیش نظر ایک یہ بھی فتویٰ ہے صاحبِ بہارشریعت کا
سُوال:غیر نبی کے ساتھ''علیہِ السّلام''لکھنا اور بولناکیساہے؟
جواب:مَنع ہے
چُنانچِہ حضرتِ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمت میں سُوال ہوا:
یاحُسین 6/37
جواب:
یہ سلام جو نام کے ساتھ ذِکر کیا جاتا ہے یہ (یعنی یہ علیہ السلام کہنا لکھنا)سلامِ تَحِیَّت (یعنی ملاقات کا سلام)نہیں جو باہم ملاقات کے وَقت کہا جاتا ہے یا کسی ذَرِیعہ سے کہلایا جاتا ہے 7/37
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ :
یہ اہل سنت کے مشاہیر علماء میں ہیں، انہوں نے اپنے فتوی میں 9/37
سوال :
تحفہ اثنا عشریہ میں صلاۃ سلام یعنی درودوسلام با لا 10/37
جواب :
تحفہ اثنا عشریہ میں کسی جگہ صلاۃ بالا ستقلال غیر انبیاء کے حق میں نہیں لکھا گیا 11/37
(فتاویٰ عزیزی مترجم اردو، مطبع کراچی،صفحہ 234,235 15/37
میں بھی اس نتیجے پہ پہنچا کہ یہ مسلہ کچھ سال پہلے ہی شروع ہوا ہے شائد 100 یا 200 سال پہلے لیکن زیادہ تر احادیث کی کتابوں میں محدثین نے عربی متن میں اہل بیت کے اسماء کے ساتھ "علیہ السلام" ہی لکھا ہے البتہ 16/37
کئی جگہ پر بخاری شریف میں ہے ۔ امام بخاری اہل بیت اطہار کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ جیسے آپ یہ ایک حدیث کے الفاظ ملاحظہ کریں۔
أتي عبيد الله بن زياد برأس الحسين بن علي عليه السلام ، فجعل في 17/37
صحيح البخاري - الرقم: 3748
اس حدیث میں امام بخاری نے امام حسین بن علی کے لئے لفظ "علیہ السلام" استعمال کیا ہے۔
اسی طرح امام ابو داود نے اس روایت میں حضرت علی 18/37
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِىٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُصَلِّى قَبْلَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ.
سنن أبي داود ج۲ ص ۳۸ 19/37
اسی طرح عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ہفتم (7) صفحہ 237 مطبوعہ قسطنطنیہ میں ’’فاطمۃ علیہاالسلام ‘‘ہے.("ارشاد الباری شرح صحیح البخاری")
قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری جلد ہفتم صفحہ 412 پر لکھا
رواہ احمد عن 20/37
اسی طرح امام شافعی علیہ رحمہ تو اہل بیت کے نام کے ساتھ لفظ علیہ السلام ہی استعمال کرتے تھے۔
اسی طرح مسلم شریف میں بھی کئی جگہوں پر امام مسلم نے اہل بیت کے ساتھ لفظ علیہ السلام 21/37
اکثر اسلامی کتب میں حضرت مریم علیہ السلام کے ساتھ لفظ سلام اللہ علیہا اور علیہ السلام پڑھا ہے۔
تو مختصر یہ کہ غیر نبی کے لئے بھی لفظ علیہ السلام استعمال کرنے میں حرج نہیں۔اس پر زیادہ سخت موقف اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ ائمہ حدیث اور 22/37
لیکن ان ہی کتب کے بعض مطبوعہ جدید نسخے بددیانت ناشرین کی تحریف کا نشانہ بن گئے اور علیہ السلام کی بجائے "رضی اللہ عنہ" لکھا گیا ہے شاید اسی بنا پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی پڑا ہے چنانچہ 24/37
"متقدمین میں اہل بیت رسول(ع) اور ازواج پر سلام کہنا متعارف تھا اور مشائخ اہل سنت کی پرانی کتابوں میں اہل بیت(ع) پر سلام لکھا ہوا پایا جاتا ہے اور متاخرین میں اس کا چھوڑ دینا مروج ہو گیا ہے"۔
(اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ 234 نول کشور لکھنو)
چنانچہ خود محدث دہلوی نے 25/37
ذکر مقتل سیدنا الامام الشیھد السعید سبط رسول اللہ الامام ابی عبد اللہ الحسین سلام اللہ علیہ 26/37
اپنی ایک دوسری تصنیف میں لکھتے ہیں :
درموضع قبور امام حسن وزین العابدین ومحمد باقر وجعفرصادق سلام اللہ علیھم اجمعین
مدارج النبوۃ جلد 2صفحہ 545 طبع نول کشور
(الف) صحیح بخاری مع فتح الباری المطبعۃ الخیر یہ مصر جلد ششم کے صفحات 24،122,131,132 اور 177 پر 27/37
ب) جلد ششم صفحہ 119 میں "الحسین بن علی علیہا السلام" تحریر ہے ۔
(ج) جلد ششم صفحہ 364 پر "الحسن بن علی علیہا السلام" ہے ۔
(د) جلد ہفتم کے صفحات 53, 56, 114, 236, 345 اور 355 میں "فاطمۃ علیہا السلام" موجود ہے۔
(ھ) جلد نہم صفحہ 109 پر "علی بن 28/37
(د) جلد سیزدہم ،صفحہ 347 پر"حسین بن علی علیہاالسلام " لکھا ہے ۔
اس کے علاوہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ہفتم صفحہ 237 مطبوعہ قسطنطنیہ میں "فاطمۃ علیہاالسلام" ہے
ارشاد الباری شرح صحیح البخاری جلداول صفحہ 29/37
(۱)علامہ فخر الدین الرازی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر جلد 2،صفحہ 700 مطبوعہ دارالطباعۃ العامرہ قسطنطنیہ میں لکھا
ھذہ الا ےۃ دالۃ علیٰ ان الحسن والحسین علیھما السلام کانا ابنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(۲)ایضاً جلد ہشتم صفحہ 322 پر 30/37
ھذہ ال آیات نزلت فی حق علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔۔۔فی کتاب البیسط انھا نزلت فی حق علیہ السلام ۔۔۔ان الحسن والحسین علیھما السلام مرضا ۔۔۔اخذ علی علیہ السلام بید الحسن والحسین ۔۔ ۔ولا ینکر دخول علی ابن ابی طالب علیہ السلام فیہ ۔۔۔الذین یقولون ھذہ الا ےۃ مختصۃ 31/37
اب خلاصہ کلام
جب کہ صلواۃ وسلام ائمہ اہلبیت پر پڑھنا ناقابل رد دلائل سے ثابت ہے تو اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر میں آل رسول پر صلاۃ وسلام پڑھنے کی ممانعت کیوں اور کس بنا پر کی گئی اور کس نے اسے ممنوع قرار دیا؟
اس سلسلے میں ملا علی قاری حنفی ،امام 32/37
"انبیاء اور ملائکہ کے علاوہ کسی پر صلاۃ نہ پڑھی جائے جو شخص ان کے علاوہ کسی پر بطور تابع صلاۃ پڑھے توخیر اور اگر مستقل طور پر پڑھے تو وہ غالی شیعہ 33/37
(شرح فقہ اکبر ص202 مطبع ہندو پریس پیاری لعل دہلی)
علاوہ ازیں شیخ اسماعیل البروسوی بھی اپنی تفسیر "روح البیان" جلد 7 ص227 طبع استنبول میں اہل تشیع کے ساتھ مشابہہ کی وجہ سے اہل بیت پر صلاۃ و سلام ممنوع قرار دیتے 35/37
اسی طرح نسیم الریاض شرح الشفا قاضی عیاض جلد 3 ص555میں بھی۔۔۔
لیکن میں فرقہ واریت کے سخت خلاف ہوں۔ اہل سنت ہونے کے باوجود، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مجھے شیعہ سمجھیں یا رافضی یا کچھ اور۔۔۔، اس تھریڈ میں مکمل حوالہ جات کے ساتھ میں نے واضح کردیا ہے کہ میں ائمہ 36/37
والسلام
#پیرکامل
😭😭اللّهُمّ الْعَنْ قَتَلَةَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ﻋَﻠَﻴﻪْ ﺍَﻟﺴَﻠَﺎﻡ
#شہادت_امیرالمومنین_علیؑ
#قلمکار
۔ 37/37