ابا مجھے سے پیار نہیں کرتے نا؟
ماں کے آگے بیٹھی سر میں تیل لگواتے ہوے اس نے کافی سوچ بچار کے بعد پوچھا
نعی جھلی ایسی بات نعی ہے ۔۔۔۔۔۔پیار کرتے ہیں آخر تو بھی انکی اولاد ہے
جیسا کپڑا کھیلونا وہ تیرے بھائیوں کے لیے لاتے ہیں ویسا ہی تیرے لیے لاتے ہیں
جیسے وہ بھیا کو اٹھا کے پیار کرتے ہیں مجھے کبھی نہیں کیا دیکھا نہیں بھیا کا گال چومتے ہیں اور اٹھا کے گلے لگاتے ہیں
ہہہہ پاگل کڑی۔جب تو نکی تھی تب تجھے بھی ایسے پیار کرتے تھے بلکل ایسے ہی اٹھاتے تھے گال چومتے تھے
اب تو تھوڑی وڈی ہوگئی ہےاس لیے وہ ایسا نہیں کرتے.
بایس سال کی تھی
اس نے سرخ جوڑا پہنا ہوا تھا اور اس کے بھای اسے قرآن کی چھاوں میں رخصت کر رہے تھے۔
اس کا اباآج بھی کچھ پیچھے کھڑا اسے جاتے دیکھ رہا تھا..
لیکن پھر بھی اسے تشنگی بار بار محسوس ہوی تھی ۔
اوے جھلیے! تجھے پتہ ہے سب بڑا خوف کیا ہے؟
آج اس نے اماں سے پوچھی گئی بات ابا سے کہ دی تھی
اور اب ابا ہنس کے جواب دے رہا تھا
کسی کو بہت پیار کرنے کے بعد اسے کھو دینے کا خوف سب بڑا خوف ہوتا ہے ۔
کل کو تو جب پرای ہوجاے گی تو تیری ہر یاد ساتھ رہے گی پھر سوچ کے پریشان ہونگا
ابا نے ماتھ چوما تھا اور وہ گومگوں سی کمرے میں آگئی تھی
ہاں البتہ جو ابا سے محبت تھی وہ آج اور بڑھی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔
شیخ تنویر احمد وفات پا چکے ہیں
سر درد میں بھی اسے ابا کا ماتھے پہ لیا ہوا بوسہ بار بار یاد آرہا تھا۔
جن سے پیار کرتے ہیں انہیں کھو دینے کا خوف باقی سب خوفوں پر بھاری ہے
یہ سوچتے ہوے وہ پھر میت سے لپٹ کے رونے لگ گئی ۔