ایک سینئر آرمی ڈاکٹر کی
درد بھری 'وارننگ'
1986 کی پہلی سہہ ماھی تھی۔
میں چترال اسکاوٹس میں دروش کے چھوٹے سے ہاسپیٹل میں پوسٹنگ پر تھا.
جس میں بہت محدود طبی سہولیات تھیں۔
میرے ساتھ صرف ایک سرجن اور ایک انیستھیسیا کا ڈاکٹر تھا۔
ان دنوں رشین ائیر فورس نے افغانستان میں
اور
اب وہ چترال ویلی میں ان کیمپس کا رخ کر رہے تھے،
جہاں سے مجاہدین کو کمک پہنچتی تھی۔
ھمارے "دروش قلعہ" سے
15 کلومیٹر دور،
میر کھنی کے پاس
'کلکٹک نامی افغان کیمپ' میں
تقریبا تیس ہزار مہاجرین مقیم تھے۔
ھم روزانہ وہاں جاتے اور
کیمپ پر بمباری کا بہت خطرہ ھے
اس لئے آپ رات کو بلیک آوٹ پر عمل کیا کریں ۔
انکے مجاہدین لیڈر بھی مجبوری ظاہر کر دیتے کہ
"لوگ نہیں مانتے۔"
ہر دفعہ ہمیں وہاں سے صرف ایک ہی جواب ملتا تھا کہ
"زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ نہیں ہوتا ۔"
اگلی رات پھر
اور کیمپ میں ایک جشن کا سماں بنا رھتا۔
گزرتے وقت کے ساتھ علاقے میں دور دور رشین بمبار طیارے چکر لگانے لگے تھے اور ہم بہت پریشان تھے۔
لوگوں کی لاپرواہی سے تنگ آکر
کمانڈنٹ چترال اسکاوٹس نے فیصلہ کیا کہ
ان مہاجرین کو انکی مرضی پر چھوڑ دیا جائے
یہ خود فیصلہ کریں کہ رات کو بلیک آوٹ کرینگے یا نہیں۔
17 مارچ کی رات تھی۔
'کلکٹک کیمپ'، جگمگ جگمگ کر رہا تھا
جبکہ دروش قلعہ کے ارد گرد کی سول آبادیوں میں بھی مکمل بلیک آوٹ تھا۔
فجر سے ذرا پہلے،
5 سے 6 رشین بمبار طیاروں نے کیمپ پر بم برسانے شروع کیے
اور تباہی مچادی۔
15 کلو میٹر دور سے بھی ہمیں لوگوں کی چیخ و پکار صاف سنائی دے رہی تھی۔
ہر طرف آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔
صبح ہونے تک
1500 سے زیادہ لوگ جاں بحق ھو چکے تھے
اور ہزاروں زخمی تھے۔
ھم صرف 3 فوجی اور 4 سویلین ڈاکٹرز
اپنے اسٹاف کے ساتھ ان زخمیوں کی دیکھ بھال میں مشغول
قبریں کھود کھود کر لوگ ہلکان ہو چکے تھے۔
لاشیں دھوپ میں بے یار و مددگار پڑی تھیں
اور کوئی دفنانے والا نہ تھا۔
نقصان کے حجم کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ
تیسرے دن،
اس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل ضیاالحق کو دروش کا دورہ کرنا پڑا اور پوری دنیا میں شور مچ گیا۔
اس رات جو
اس کے بعد میں نے جنوری 1987 تک
اس کیمپ میں پھر رات کو کبھی روشنی ھوتے نہیں دیکھی...!
پھر اسکے بعد تو میں پنوں عاقل پوسٹنگ آ گیا تھا۔
میرے خیال میں اب___
لاک ڈاون،
ماسک پہنو،
گھر میں رھو،
سماجی فاصلے رکھو،
جیسے لیکچر بند کرنے ھونگے.
'قصائی' ڈاکٹرز کو،
کورونا سے مرنے والوں کی لاشیں ورثا کے حوالے کردینی چاھیئیں.
تاکہ وہ مروجہ رسم و رواج کے مطابق دفنانے کے بعد
ولیمے جیسے کھانوں کا بندوبست کر سکیں
اور اپنی ناک بچا سکیں۔
اب وقت آ گیا ھے کہ ڈاکٹرز اپنی ماھرانہ رائے اور قابلیت
اور صرف اپنی فکر کریں۔
انکو چاھیے کہ لوگوں کو انکی مرضی پر چھوڑ دیں.
چند دنوں میں جو نتائج سامنے آنے ھیں وہ آ جائیں
اور
قوم اپنے تجربے کی روشنی میں خود فیصلے کرے کہ اسے کیا کرنا چاھیے۔
لاک ڈاون میں قوم کا ایک شخص بھی بھوکا مرتا نہیں دیکھا
مگر یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ
اگر انکو عید کی شاپنگ سے روکا گیا
تو اس صدمے سے یہ لوگ ضرور مر جائیں گے...!
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہر وبا سے محفوظ رکھے، آمین
#پیرکامل