My Authors
Read all threads
1/ آیا صوفیہ، رومی شہنشاہ جسٹینین اول کے عہد میں سنہ 537ء میں تعمیر ہوئی، اس وقت یہ دنیا کی سب سے زیادہ جگہ رکھنے والی اور پہلی مکمل محراب دار چھت رکھنے والی جائے عبادت تھی۔ اسے بازنطینی فن تعمیر کا نچوڑ سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر سے "فن تعمیر کی تاریخ بدل
2/ گئی"

قسطنطین نے اس جگہ 360ء میں ایک لکڑی کا بنا ہوا کلیسا تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی میں یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی۔ دس ہزار معمار اس کی تعمیر میں مصروف رہے اور اس پر دس
3/ لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا۔

اس کی تعمیر میں قیصر نے دنیا کے متنوع سنگ مرمر استعمال کیے، تعمیر میں دنیا کے خاص مسالے استعمال کیے گئے۔ دنیا بھر کے کلیساؤں نے اس کی تعمیر میں بہت سے نوادر نذرانے کے طور پر پیش کیے۔ اور روایت ہے کہ جب جسٹینین اول اس کی تکمیل کے بعد پہلی بار اس میں
4/ داخل ہوا تو اس نے کہا: "سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا" (نعوذ باللہ، یہ نبی سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ بیت المقدس کی تعمیر پر تکبرانہ اور گستاخانہ جملہ تھا)۔

جب 1453ء نے عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، اور بازنطینیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں
5/ اور راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔
مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:

"گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں، پادریوں، راہبوں اور
6/ کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔

یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملأ اعلیٰ کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ
7/ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔“

لیکن ترک عثمانی
8/ فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔

کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے، اور سب کے جان مال اور
9/ مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔

فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ "ان شاءاللہ ہم ظہر کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کریں گے"۔
چنانچہ اسی دن فتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا گیا۔

قسطنطنیہ چونکہ
10/ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔

سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ آیا صوفیہ چرچ صرف مذہبی رسومات کی
11/ عبادتگاہ نہیں بلکہ وہ ایک سیاسی اور عسکری مرکز بھی تھا، مسیحی جنگوں کے منصوبہ جات وہیں تشکیل پاتے تھے اور وہاں سے پوپوں کے ذریعہ مسیحی حکمرانوں اور بادشاہوں کو متحد کیا جاتا تھا۔

علاوہ ازیں فتح قسطنطنیہ کے بعد وہاں مسلمانوں کی نماز اور اجتماع کے لیے فوری کوئی جمع گاہ اور
12/ عبادتگاہ نہ تھی، اس لیے سلطان نے آرتھوڈوکس کلیسیا کے اس تاریخی مذہبی مرکز کو مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔

چنانچہ سلطان نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو دی، علاوہ ازیں سلطان نے اس مصرف کے لیے مسلمانوں کے بیت
13/ المال سے بھی قیمت نہیں لی بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی، اور اس عمارت اور زمین کو مسلمانوں کے مصالح کے لیے وقف کر دیا۔ خرید وفروخت کے دستاویزات آج بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود ہیں۔

کلیسا کو خریدنے کے بعد اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا
14/ یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد "جامع آیا صوفیہ" کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔

آیا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے
15/ 481 سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مصطفٰی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ بنا، تو اس نے مسجد میں نماز بند کر کے اسے عجائب گھر (نمائش گاہ) بنا دیا۔

31 مئی 2014ء کو ترکی میں "نوجوانان اناطولیہ" نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں
16/ فجر کی نماز کی مہم چلائی جو آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے تائیدی دستخطوں کو جمع کر لیا ہے۔ لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی آیا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
17/ 10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قرارداد کو منظوری دی اور عجائب گھر کی حیثیت منسوخ کر کے سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کیا۔ بعد ازاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے فیصلے پر دستخط کر دیے، اور
18/ اسے دوبارہ 1935ء سے قبل والی حیثیت دے دی گئی۔

اب طیب اردوغان کا اگلا ہدف آزاد "مسجد اقصی" میں نماز جمعہ کی ادائیگی ہے، ان شاءاللہ
#پیرکامل
#قلمکار
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!