My Authors
Read all threads
1/ حضرت عمر نے منصب خلافت سنبھالتے ہی پہلا اہم کام یہ کیا کہ  حضرت خالد بن ولید کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر کے ان کی جگہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں "سیف من سیوف اللہ" یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک
2/ تلوار قرار دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں انہوں نے عراق کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا اور اب شام میں اپنی غیر معمولی جنگی حکمت عملی کے جوہر دکھا رہے تھے۔

مسلم تاریخ میں اگر فوجی جرنیلوں کی رینکنگ کی جائے تو بلاشبہ حضرت خالد اس میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ تاریخ کے
3/ ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رض نے انہیں معزول کیوں کیا جبکہ حضرت خالد کی کارکردگی غیر معمولی تھی؟

یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رض نے حضرت خالد رض کو معزول ہرگز نہیں کیا بلکہ انہیں سپہ سالار اعظم کی بجائے سیکنڈ ان کمانڈ بنا دیا۔ اس
4/ کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سب سے نمایاں یہ تھی کہ حضرت خالد جنگو ں میں اپنی غیر معمولی شجاعت کی وجہ سے بہت زیادہ خطرات مول لے لیا کرتے تھے۔ آپ فی الحقیقت ایک بہت بڑے risk-taker تھے اور بسا اوقات تھوڑی سی فوج کے ساتھ دشمن پر جھپٹ پڑتے اور اسے شکست دے ڈالتے۔
حضرت ابوبکر رضی
5/ اللہ عنہ اپنی احتیاط کے باوجود اس معاملے میں حضرت خالد کو ڈھیل دیتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت محتاط تھی اور آپ مسلمانوں کو خطرے میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت خالد  کو امین الامت  ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کے تحت کر دیا تاکہ وہ
6/ اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے سبب، حضرت خالد کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے  سے روکیں اور ان کی جنگی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔ یہ بات طبری کی روایت سے واضح ہو جاتی ہے جس میں حضرت ابو عبیدہ رض کے نام حضرت عمر ث کا خط نقل کیا گیا ہے۔

"میں آپ کو اللہ سے ڈرنے
7/ کی نصیحت کرتا ہوں جو کہ باقی رہنے والا ہے اور جس کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی نے ہمیں گمراہی سے نکال کر راہ راست پر لگایا اور اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل فرمایا۔ میں آپ کو خالد کے لشکر کا امیر مقرر کرتا ہوں۔ آپ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیے۔
8/ مال غنیمت کے لیے مسلمانوں کی جان خطرے میں نہ ڈالیے اور نہ ہی کسی اجنبی مقام  کے حالات اور نتائج کو معلوم کیے بغیر انہیں وہاں ٹھہرائیے۔ جب آپ کسی لشکر کو جنگ  کے لیے بھیجیں تو معقول تعداد کے بغیر نہ بھیجیے۔ مسلمانوں کو ہلاکت (کے خطرے) میں ہرگز مبتلا نہ کیجیے۔ اللہ نے آپ کا
9/ معاملہ میرے ہاتھ میں اور میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں دیا ہے۔ دنیا کی محبت سے اپنی آنکھیں بند کر لیجیے اور اپنے دل کو اس سے بے نیاز کر لیجیے۔ خبردار! گزرے ہوئے لوگوں کی طرح انہیں ہلاکت میں نہ ڈالیے۔ ان کے بچھڑنے  کے میدان آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔"

حضرت خالد رض کافی عرصہ
10/ تک حضرت ابوعبیدہ رض کی کمان میں لڑتے رہے۔ حضرت ابو عبیدہ رض تمام پلاننگ انہی کے مشورے سے کرتے تھے اور یہ دونوں کمانڈر مل کر جنگی تیاری کرتے تھے۔ تاہم اس پلان پر عمل درآمد حضرت خالد رض کروایا کرتے تھے۔

چار سال بعد 17ھ / 638ء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تمام جنگی
11/ خدمات کو چھوڑ کر مدینہ آنے کا حکم دیا۔

طبری نے اس سلسلے میں سیف بن عمر کی روایت نقل کی ہے جو کہ نہایت ہی ضعیف ہے۔ اس روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے خلافت سنبھالتے ہی حضرت خالد رض کو معزول کر کے مدینہ واپس بلا لیا، ان کا خیال تھا کہ حضرت خالد رض نے معاذ اللہ مال
12/ غنیمت میں کرپشن کی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی ناقابل  اعتماد اور ضعیف روایت ہے۔

ہاں ایسا ضرور ممکن ہے کہ  حضرت خالد رض سے مال غنیمت کے حصوں کی تقسیم میں کوئی غلطی  ہو گئی ہو۔ حضرت عمر رض نے حساب کیا تو ان کی طرف کچھ رقم زائد نکلی جو حضرت عمر نے ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر
13/ دی اور شام کے لوگوں کو تحریر لکھ کر بھیجی جس میں حضرت خالد رض کی معزولی کی وجوہات بیان کیں۔  روایت یہ ہے:

جب حضرت خالد، حضرت عمر رض کے پاس پہنچے تو ان سے شکایت کی اور کہا: "میں نے آپ کی یہ شکایت مسلمانوں کے سامنے بھی بیان کی تھی۔ واللہ! آپ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔"
14/ حضرت عمر رض نے فرمایا:
"یہ بتائیے کہ آپ کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟"
انہوں نے جواب دیا:
"مال غنیمت اور میرے مقرر حصوں سے۔ ساٹھ ہزار سے زائد جو رقم ہو ، وہ آپ (بیت المال) کی ہے۔"
اس پر حضرت عمر رض نے ان کے ساز و سامان کی قیمت لگائی تو ان کی طرف بیس ہزار نکلے۔ اس رقم کو
15/ انہوں نے بیت المال میں داخل کر دیا تو حضرت عمر رض نے فرمایا:
"خالد! واللہ! آپ میرے نزدیک نہایت ہی معزز شخصیت ہیں۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اور آج کے بعد آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔"

عدی بن سہیل کی روایت ہے کہ حضرت عمر رض نے تمام شہر والوں کو لکھ کر بھیجا:
"میں
16/ نے خالد کو ناراضگی یا بددیانتی کی وجہ سے معزول نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ان سے محبت کرنے لگے ہیں۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ ان پر بے حد بھروسہ اور اعتماد نہ کریں اور کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس  لیے میں نے چاہا کہ انہیں حقیقت معلوم ہو جائے کہ
17/ درحقیقت اللہ تعالی ہی کارساز ہے ، اس لیے انہیں کسی فتنے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔"

اصل واقعہ کچھ اس طرح مختلف تاریخی کتب میں روایت ہے کہ جب آخری قلعہ بیت المقدس کو مسلمانوں نے فتح کرنا تھا، تمام مسلمان دستے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رض اور حضرت خالد بن ولید رض کی قیادت میں
18/ بیت المقدس پہنچے۔ مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کرلیا، مگر وہاں کے لوگوں نے جان لیا تھا کہ اب جنگ محال ہے، لہذا انہوں نے امن کی شرائط طے کرنا شروع کردیں۔

انہوں نے یہ شرط عائد کی کہ حضرت عمر رض خود مدینہ سے آکر بیت المقدس کا قبضہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ مسلمانوں نے یہ شرائط
19/ تسلیم کرلیں

حضرت عمر رض ایک غلام اور اپنے اونٹ کو ساتھ لے کرمدینہ سے بیت المقدس کی جانب روانہ ہوئے۔ اسی موقع پر وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ آدھے راستے حضرت عمر رض خود اونٹ پر سواری کرتے اور آدھے راستے ان کا غلام اونٹ پر سوار ہوتا اور وہ پیدل چلتے۔

جب آپ بیت المقدس میں داخل
20/ ہوئے تو حالت یہ تھی کہ آپ کی پیدل چلنے کی باری تھی اور آپ کا غلام اونٹ پر سوار تھا۔ اس شان سے مسلمانوں کے خلیفہ اور سپہ سالار اعظم، شام اور عراق کے فاتح، بیت المقدس میں داخل ہوئے۔

عیسائیوں کی کتابوں میں بھی یہ درج تھا کہ جو شخص بیت المقدس فتح کرے گا، وہ اسی شان سے شہر میں
21/ داخل ہوگا کہ وہ پیدل اور اسکا غلام اونٹ پر سوار ہوگا۔ پھر انتہائی امن و امان سے پورا شہر حضرت عمر رض کے حوالے کردیا گیا۔

حضرت عمر رض ایک گرجے میں داخل ہوئے تو نماز کا وقت ہوگیا۔ پادری نے آپ سے کہا کہ آپ ادھر ہی نماز ادا کرلیں۔ آپ نے انکار فرماتے ہوئے کہا کہ آج اگر میں نے
22/ یہاں نماز ادا کرلی تو مسلمان اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کردیں گے۔

پھرحضرت عمر رض نے گرجا گھر سے باہر آکر نماز ادا کی اور وہ جگہ کہ جہاں آپ نے نماز پڑھی، وہاں بعد میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی کہ جو آج بھی مسجد عمر رض کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔

بیت المقدس کی فتح کے بعد صرف
23/ حمص کا شہر ہی باقی بچا تھا، جوبہت جلد ہی مسلمانوں نے دوبارہ فتح کرلیا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رق نے حمص کو ہی اپنا مرکز بنایا۔ حضرت عمر رض بیت المقدس کی فتح کے بعد واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک اور فتنہ کھڑا ہوگیا۔

رومیوں نے دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ مصر
24/ کی طرف سے شام پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ ان کا ہدف حمص کا شہر تھا کہ جہاں حضرت خالد بن ولید رض اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح رض اپنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ قیام پذیر تھے۔

مسلمانوں میں گھبراہٹ اور پریشانی پیدا ہوگئی۔ حضرت ابو عبیدہ رض نے جنگی شوریٰ طلب کی اور وہاں یہ فیصلہ
25/ کیا گیا کہ پوری سلطنت سے مدد طلب کی جائے۔ خلیفہ کو بھی خط لکھے گئے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ قلعہ بند ہو کر لڑا جائے گا۔

حضرت خالد بن ولید رض کے سامنے جب یہ فیصلہ رکھا گیا تو وہ جلال میں آگئے۔ آپ نے قسم کھائی کہ ہم کبھی بھی قلعہ بند ہو کر لڑائی نہیں کریں گے اور حضرت ابو
26/ عبیدہ سے اجازت مانگی کہ ہم میدان میں جا کر دشمن کا مقابلہ کریں ۔ ہم اس سے پہلے بھی بڑے بڑے لشکروں کو شکست دے چکے ہیں، یہ تو معمولی بات ہے۔

تمام شہ سواروں نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا۔ حضرت ابو عبیدہ رض نے ان کو کھلے میدان میں جانے کی اجازت دے دی، لہذا مسلمانوں نے حمص سے
27/ باہر نکل کر اپنی صفیں ترتیب دینا شروع کیں۔ حضرت خالد بن ولید رض کو "مقدمتہ الجیش" یعنی ہر اول دستے کے ساتھ آگے بھیجا گیا تاکہ آگے جا کر دشمن کی نقل و حرکت کا پتہ لگائیں۔

حضرت خالد بن ولید رض اپنے چھوٹے سے ہراوّل دستے کے ساتھ صرف صورتحال کا جائزہ لینے گئے تھے، مگر پھر اس
28/ طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے کہ دو لاکھ کے لشکر کو مٹا کر رکھ دیا۔ جب حضرت ابو عبیدہ رض دشمن سے مقابلے کے لیے صفیں ہی ترتیب دے رہے تو حضرت خالدبن ولید رض نے انہیں واپس آکر اطلاع دی کہ دشمن کا صفایا کیا جاچکا ہے۔

حضرت ابو عبیدہ رض اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے اور اللہ کا شکر ادا
29/ کیا کہ "سیف اللہ نے ایک بار پھر دین کی آبرو بچالی"

حضرت خالد بن ولید رض نے اس کے بعد حمص میں ہی قیام فرمایا مگر نائب کمانڈر کی حیثیت سے ان کا عہدہ ابھی بھی برقرار تھا۔ آپ چونکہ اعلیٰ ظرف تھے، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی مدد کرنے والے تھے، لہذا آپ مال غنیمت میں سے اپنا
30/ حصہ بھی تقسیم کردیا کرتے، لیکن کچھ لوگوں نے حضرت عمر رض سے آپ کی شکایت کردی کہ حضرت خالد رض مال خرچ کرنے میں اسراف کرتے ہیں۔

اس سے پہلے بھی جب حضرت خالد بن ولید رض کی شکایتیں حضرت عمر رض تک پہنچی تھیں تو آپ نے ان کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔ اس معزولی کی وجہ
31/ یہ بھی تھی کہ لوگ حضرت خالد بن ولید رض پر بہت زیادہ یقین کرنے لگے تھے۔

حضرت عمر رض نے یہ سوچ کر ان کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا کہ کہیں اللہ پر بھروسے اور توکل میں کمی نہ آجائے۔اس مرتبہ بھی شکایت کے بعد حضرت عمر رض نے ان کو جنگی خدمات ادا کرنے سے منع فرمایا اور
32/ مدینہ طلب کیا، تاکہ ان سے اس معاملے پر باز پرس کی جاسکے۔ اس سے مسلمانوں میں کافی اختلاف پیدا ہوگیا، لیکن حضرت خالد بن ولید نے ہر موقع پر خلیفہ کے حکم کی اطاعت کی۔

اس روایت سے حضرت خالد رض کی معزولی کی ایک اور وجہ سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں کے اندر یہ تصور
33/ پیدا ہو گیا تھا ک جو فتوحات ہو رہی ہیں، وہ حضرت خالد رض کی موجودگی کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح سے ان میں شخصیت پرستی پیدا ہو رہی تھی جسے ختم کرنے کے لیے حضرت عمر رض نے یہ اقدام کیا۔

مسلمان تو مسلمان، دشمن افواج کو بھی جب علم ہوتا کہ کسی فوج میں حضرت خالد رض موجود ہیں، تو وہ جم
34/ کر مقابلہ نہ کرتے اور میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ ایسے میں یہ خدشہ تھا کہ لوگ کہیں شخصیت پرستی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

بہرحال حضرت خالد رض میں ایسی کوئی اخلاقی خرابی نہ تھی جس کی وجہ سے انہیں معزول کرنا پڑا۔ یہ محض ان کی خطرات مول لینے کی عادت اور مسلمانوں میں پیدا ہونے والی
35/ شخصیت پرستی تھی، جس کے باعث  انہیں فوجی ذمہ داریوں سے الگ کر کے دیگر ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

حضرت خالد اور عمر رضی اللہ عنہما کے باہمی تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 21ھ / 643ء میں اپنی وفات کے وقت حضرت خالد رض نے حضرت عمر رض کو اپنی مال و دولت کا نگران
36/ مقرر کیا کہ وہ اسے مناسب انداز میں تقسیم کریں۔
واللہ اعلم
#پیرکامل
#قلمکار
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!