رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں "سیف من سیوف اللہ" یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک
مسلم تاریخ میں اگر فوجی جرنیلوں کی رینکنگ کی جائے تو بلاشبہ حضرت خالد اس میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ تاریخ کے
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رض نے حضرت خالد رض کو معزول ہرگز نہیں کیا بلکہ انہیں سپہ سالار اعظم کی بجائے سیکنڈ ان کمانڈ بنا دیا۔ اس
حضرت ابوبکر رضی
"میں آپ کو اللہ سے ڈرنے
حضرت خالد رض کافی عرصہ
چار سال بعد 17ھ / 638ء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تمام جنگی
طبری نے اس سلسلے میں سیف بن عمر کی روایت نقل کی ہے جو کہ نہایت ہی ضعیف ہے۔ اس روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے خلافت سنبھالتے ہی حضرت خالد رض کو معزول کر کے مدینہ واپس بلا لیا، ان کا خیال تھا کہ حضرت خالد رض نے معاذ اللہ مال
ہاں ایسا ضرور ممکن ہے کہ حضرت خالد رض سے مال غنیمت کے حصوں کی تقسیم میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ حضرت عمر رض نے حساب کیا تو ان کی طرف کچھ رقم زائد نکلی جو حضرت عمر نے ان سے لے کر بیت المال میں داخل کر
جب حضرت خالد، حضرت عمر رض کے پاس پہنچے تو ان سے شکایت کی اور کہا: "میں نے آپ کی یہ شکایت مسلمانوں کے سامنے بھی بیان کی تھی۔ واللہ! آپ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔"
"یہ بتائیے کہ آپ کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟"
انہوں نے جواب دیا:
"مال غنیمت اور میرے مقرر حصوں سے۔ ساٹھ ہزار سے زائد جو رقم ہو ، وہ آپ (بیت المال) کی ہے۔"
اس پر حضرت عمر رض نے ان کے ساز و سامان کی قیمت لگائی تو ان کی طرف بیس ہزار نکلے۔ اس رقم کو
"خالد! واللہ! آپ میرے نزدیک نہایت ہی معزز شخصیت ہیں۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اور آج کے بعد آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔"
عدی بن سہیل کی روایت ہے کہ حضرت عمر رض نے تمام شہر والوں کو لکھ کر بھیجا:
"میں
اصل واقعہ کچھ اس طرح مختلف تاریخی کتب میں روایت ہے کہ جب آخری قلعہ بیت المقدس کو مسلمانوں نے فتح کرنا تھا، تمام مسلمان دستے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رض اور حضرت خالد بن ولید رض کی قیادت میں
انہوں نے یہ شرط عائد کی کہ حضرت عمر رض خود مدینہ سے آکر بیت المقدس کا قبضہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ مسلمانوں نے یہ شرائط
حضرت عمر رض ایک غلام اور اپنے اونٹ کو ساتھ لے کرمدینہ سے بیت المقدس کی جانب روانہ ہوئے۔ اسی موقع پر وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ آدھے راستے حضرت عمر رض خود اونٹ پر سواری کرتے اور آدھے راستے ان کا غلام اونٹ پر سوار ہوتا اور وہ پیدل چلتے۔
جب آپ بیت المقدس میں داخل
عیسائیوں کی کتابوں میں بھی یہ درج تھا کہ جو شخص بیت المقدس فتح کرے گا، وہ اسی شان سے شہر میں
حضرت عمر رض ایک گرجے میں داخل ہوئے تو نماز کا وقت ہوگیا۔ پادری نے آپ سے کہا کہ آپ ادھر ہی نماز ادا کرلیں۔ آپ نے انکار فرماتے ہوئے کہا کہ آج اگر میں نے
پھرحضرت عمر رض نے گرجا گھر سے باہر آکر نماز ادا کی اور وہ جگہ کہ جہاں آپ نے نماز پڑھی، وہاں بعد میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی کہ جو آج بھی مسجد عمر رض کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
بیت المقدس کی فتح کے بعد صرف
رومیوں نے دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ مصر
مسلمانوں میں گھبراہٹ اور پریشانی پیدا ہوگئی۔ حضرت ابو عبیدہ رض نے جنگی شوریٰ طلب کی اور وہاں یہ فیصلہ
حضرت خالد بن ولید رض کے سامنے جب یہ فیصلہ رکھا گیا تو وہ جلال میں آگئے۔ آپ نے قسم کھائی کہ ہم کبھی بھی قلعہ بند ہو کر لڑائی نہیں کریں گے اور حضرت ابو
تمام شہ سواروں نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا۔ حضرت ابو عبیدہ رض نے ان کو کھلے میدان میں جانے کی اجازت دے دی، لہذا مسلمانوں نے حمص سے
حضرت خالد بن ولید رض اپنے چھوٹے سے ہراوّل دستے کے ساتھ صرف صورتحال کا جائزہ لینے گئے تھے، مگر پھر اس
حضرت ابو عبیدہ رض اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے اور اللہ کا شکر ادا
حضرت خالد بن ولید رض نے اس کے بعد حمص میں ہی قیام فرمایا مگر نائب کمانڈر کی حیثیت سے ان کا عہدہ ابھی بھی برقرار تھا۔ آپ چونکہ اعلیٰ ظرف تھے، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی مدد کرنے والے تھے، لہذا آپ مال غنیمت میں سے اپنا
اس سے پہلے بھی جب حضرت خالد بن ولید رض کی شکایتیں حضرت عمر رض تک پہنچی تھیں تو آپ نے ان کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔ اس معزولی کی وجہ
حضرت عمر رض نے یہ سوچ کر ان کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا کہ کہیں اللہ پر بھروسے اور توکل میں کمی نہ آجائے۔اس مرتبہ بھی شکایت کے بعد حضرت عمر رض نے ان کو جنگی خدمات ادا کرنے سے منع فرمایا اور
اس روایت سے حضرت خالد رض کی معزولی کی ایک اور وجہ سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں کے اندر یہ تصور
مسلمان تو مسلمان، دشمن افواج کو بھی جب علم ہوتا کہ کسی فوج میں حضرت خالد رض موجود ہیں، تو وہ جم
بہرحال حضرت خالد رض میں ایسی کوئی اخلاقی خرابی نہ تھی جس کی وجہ سے انہیں معزول کرنا پڑا۔ یہ محض ان کی خطرات مول لینے کی عادت اور مسلمانوں میں پیدا ہونے والی
حضرت خالد اور عمر رضی اللہ عنہما کے باہمی تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 21ھ / 643ء میں اپنی وفات کے وقت حضرت خالد رض نے حضرت عمر رض کو اپنی مال و دولت کا نگران