ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺩﺭﺟﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﺗﮭﮯ۔
ایک بار ان کے گاؤں کے قریب سے شاھی فوج کا گزر ہوا جس کا سپہ سالار بیمار تھا۔
حکیم صاحب نے اس کا علاج کیا
جس سے وہ ٹھیک ہو گیا
وہ حکیم صاحب کو بیوی بچوں سمیت
ان دنوں ملکہ نور جہاں علیل تھیں۔
انہوں نے ملکہ کا علاج کیا تو ملکہ صحت یاب ہو گئیں اس کے صلے میں انہیں
وزیر خان کے خطاب سے نوازا گیا شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان کو ’’امراء
وزیر خان 1632ء سے 1639ء تک لاہور کے حاکم کے عہدے پر فائز رہے۔
شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے 1635ء میں اس مسجد کی بنیاد رکھی‘
مزار سید محمد اسحقٰ المعروف میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاہ عام تھا اس کو مسجد میں شامل کر لیا۔
وزیر خان نے شاہی انعامات کی رقم کو مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا اور
یوں اپنا نام رہتی دنیا تک چھوڑ گئے۔
مسجد کی تکمیل کے بعد وزیر خان نے ایک وصیت نامہ تحریرکروایا جو
ان کے بعد ان کی اولاد کو منتقل ہوتا رہا۔
وصیت نامہ کی تحریر کو نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ’’تحقیقات چشتی‘‘
اور سید محمد لطیف نے اپنی کتاب ’تاریخ
اس وصیت کے مطابق مسجد کا انتظام طویل عرصہ تک متولیوں کے ہاتھ رہالیکن
اب اس کا انتظام محکمہ اوقاف حکومت پنجاب کے پاس ہے۔
مہاراجا رنجیت سنگھ
جوکہ ایک ظالم وجابر انسان تھے اس نے جو مسلمانوں کیساتھ جو ظلم کی داستانیں رقم کی ہیں
اس ظالم وحشی درندےنے
اپنے دور حکومت 1801ء سے 1839ء تک لاہور کی تقریباً تمام تاریخی عمارات کو بلکہ خاص طور پرمساجدکونقصان پہنچایا۔
تاریخی عمارات سے سنگ سرخ اور سنگ مرمر اتروا لیا۔ بعض مقامات کو منہدم کروا دیا
لکھتے ہوئے بھی شرم آتاہے
مسلمان عورتوں کی عزتیں نیلام کی ،
اسکی اجتماعی ابرو ریزی کی گئی
وہ ایک سیاہ داستان ہے
اب آتے ہیں دوسرے واقعے کی طرف
مسجد وزیر خان جو کہ اللہ کا گھر ہے
مسجد میں ناچ گانا گھا کر شوٹنگ کی
جوکہ عذابی الہی کو دعوت دینے کی مترادف ہے
کہاں مر گئے مسلمان؟
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ،
اسطرح کی کئی کیسیز مختلف انداز میں
انتظامیہ اور حکومت نے چھپ سادھ لی ہیوئی ہے
کبھی مو قع ملے
تو
اسلام آباد کے فیصل مسجدہو،
یا لاہور کی شاہی مسجد
یا کسی بھی تاریخی مسجد میں جائیں
اور
اپنی انکھوں سے دیکھیں
وہاں پر کوئی بھی مسجد کی حرمت کا خیال نہیں رکھتا
اپکو
اور
باریک کپڑےپہن کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے نظرآئینگے
کوئی تو مسجد ہی میں ٹک ٹاک ویڈیوں میں ناچ رہے ہونگے
اور
اب تو فلم انڈسٹری نے بھی مساجد کا رخ کیا ہے
جو کہ انتہائی شرمناک ہے
جواللہ کےگھرہیں
مساجد کاتقدس پامال ہوا
اس مساجد میں تو وہ مسلمان عورتیں بھی اندر نہیں جاسکتی
جو حالت حیض وغیرہ بیماریوں میں مبتلا ہو
تو کیا اب
ایک اسلامی ملک میں اللہ کے گھر ، اور شعائراللہ کا اتنا بھی احترام باقعی نا بچا؟
کیا مسلمانوں میں شعائراللہ کی محبت ،و،تعظیم،اسکے دلوں سے نکل گیا؟
اگر ایسا ہے تو انتظار کرو قوم صالح کے عذاب کا
کیونکہ
اللہ تعالی سب کچھ معاف کرتا ہے پر شعائراللہ کے توھین کبھی معاف نہیں کرتا