Kashif Chaudhary Profile picture
Sep 12, 2020 7 tweets 2 min read Read on X
لاہور کا لال کھوہ اور اسکی برفی !

لاہور میں شاید ہی کوئی ہو جس نے اندرون موچی گیٹ کی لال کھوہ کی برفی نہ کھائی ہو یا سنی نہ ہو۔ مگر گنتی کے لوگ ہو گے جو یہ جانتے ہو نگے کہ لال کھوہ برفی کی وجہ سے مشہور ہوا کہ برفی لال کھوہ کی وجہ سے۔ اور ان دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے
1/7
یہ رشتہ کم و بیش ۵۰۰ سو سال پرانا ہے ۔ جی جناب! اس کنویں سے منسوب دوستی کی ایک لازوال داستان ہے۔ ایک مسلمان درویش حضرت میاں میر اور ایک سکھ گورو ارجن دیو کی دوستی کی داستان۔ گورو ارجن کے والد صاحب گورو رام داس نے ’’میٹھے تالاب‘‘ یعنی امرتسر کی بنیاد رکھی اور ارجن دیو نے
2/7
دربار صاحب امرتسر کی تعمیر اور بنیاد رکھنے کے لئے اپنے دوست میاں میر صاحب کو بلایا۔سکھ برادری جہاں بابا فرید کو اوتار مانتی ہے کہ ان کی شاعری گرنتھ صاحب میں شامل ہے وہاں میاں میر صاحب کو بھی اپنے بزرگوں میں شمار کرتی ہے کہ انہوں نے ان کے سب سے مقدس مقام کی پہلی اینٹ رکھی
3/7
شہنشہاہ جہانگیر کے حکم گورو ارجن کو گرفتار کر کے لال کھوہ کے قریب ایک ہندو چندو لال کے گھر کی ایک کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا کہ وہ ایک باغی تھا اور حکم دیا گیا کہ بھوکا پیاسا رکھا جائے۔ حضرت میاں میر تقریباً روزانہ لال کھوہ آتے۔ گورو کو کنواں سے پانی کا پیالہ دیتے اور
4/7
لال کھوہ کے سامنے ایک چھابڑی والے سے برفی خرید کر گورو کی کوٹھڑی میں پھینک دیتے۔ باوجود ہزار منت سماجت کے گورو کو رہائی نہ ملی۔ جب بھوک پیاس سے گورو نہ مرے تو انکو حویلی کی کوٹھڑی سے نکال کر ایک پابہ زنجیر قیدی کے طور پر وہاں سے پیدل قلعہ لاہور کے عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔
5/7
جہاں ان سے وہی سلوک کیا گیا جو سلطنت کے باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
یہ ہے اس برفی اور لال کھو ہ کی کہانی۔ کہا جاتا ہے اس کو لال رنگ بہت بعد میں دیا گیا جب عوام نے کنواں کے پانی کو باعثِ شفا مان لیا اور لوگ منت کے لال دھاگے کنواں کے ساتھ بیری کے درخت پر باندھنے لگے۔
6/7
بیری کا درخت بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ کنواں۔ کہ اس بیری کے درخت کو حضرت میاں میر نے دعا دی تھی کے سارے موسموں میں پھل دینا۔ گورو ارجن اسی بیری کے پھل پر کوٹھری میں زندہ رہے۔ 1975 میں حکومت نے اس کنواں کو بند کر دیا گیا۔ مگر برفی آج بھی بکتی ہے اور منوں کے حساب سے بکتی ہے
7/7

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

Jul 30
لاہور نامہ!

اندرون موچی دروازے کا لال کھوہ اور اسکی برفی !

موچی گیٹ جو اصلی میں موتی رام جو مغلوں کا سپاہی اور ساری زندگی دروازے کی حفاظت پر معمور رہا ۔۔۔کے نام پر ہے اور وقت کی شکست و ریخت کے ساتھ موتی گیٹ تو نا رہا اور نام موتی سے موچی بن گیا۔

موچی گیٹ کی بہت سی پہچانیں ہیں ۔ ہمارے بچپن میں پتنگ بازی کی اور آتش بازی کی جنت یہی تھی۔ اچار مربہ یہیں ملتے ہیں خلیفہ کی خطائی یہیں ہے محرم میں عاشورہ کا سب سے بڑا جلوس نثار حویلی یہیں سے نکلتا ہے ۔ اور لال کھو ( کنواں) بھی یہیں ہے۔
1/7Image
لاہور میں شاید ہی کوئی ہو جس نے اندرون موچی گیٹ کی لال کھوہ کی برفی نہ کھائی ہو یا سنی نہ ہو۔ لال کھو اور اسکی برفی دونوں الگ سننے میں نہیں آتے۔

مگر گنتی کے لوگ ہو گے جو یہ جانتے ہو نگے کہ کیا لال کھوہ برفی کی وجہ سے مشہور ہوا یا برفی لال کھوہ کی وجہ سے۔ اور ان دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ آج کا لاہور نامہ یہی ہے ۔
2/7Image
Image
یہ رشتہ کم و بیش ۵۰۰ سو سال پرانا ہے ۔ اور اس کی وجہ شہرت ایک ایسی لازوال دوستی کی داستان ہے جو آج کے دور میں سنائی جائے تو یقین میں نہ آئے۔ دوسری طرف یہ دوستی اصل لاہور کی تہذیب اور روائتوں کی آمین بھی گواہی بھی ہے ۔

یہ دوستی کی داستان سکھوں کے پانچویں گرو (کل دس گرو ہیں ) گرو ارجن دیو اور مشہور مسلم صوفی دریوش بزرگ حضرت میاں میر رح کی ہے ۔

گرو ارجن وہی ہیں جنہوں نے پہلی گرنت لکھی اور اسی کی بنیاد پر گرو گرنتھ صاحب ترتیب پائی اور مشہور امرتسر کا گولڈن ٹیمپل مکمل کروایا ۔

3/7Image
Image
Read 7 tweets
Apr 12, 2022
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

غالب
مولانا حالی نے اس شعر کا ذکر "یادگارِ غالب" اور "مقدمہ شعر و شاعری" دونوں میں کیا ہے۔ اردو ادب میں" مقدمہ شعرو شاعری" کا مقام یہ ہے کہ ماسٹرز کی کلاس میں باقاعدہ ایک مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱
مولانا حالی فرماتے ہیں کہ اردو ادب میں اتنے بلیغ شعر شاید دو چار ہی مل سکیں گے۔ مولانا آزاد جو غالب کی طلب کو ایک نام رکھتے تھے وہ بھی اس شعر کے انداز پر پروانہ تھے۔ مولانا طباطبائی کو بھی مجبوراً اعتراف کرنا پڑا کہ جو بندش اس شعر نے پائی ہے اس کا جواب ڈھونڈنے سے نہ مل سکے۔
۲
شعر میں جو داستان پوشیدہ ہے وہ یوں ہے:

مرزا محبوب کے دروازے پر اس کا دیدار کرنے کو پہنچے ۔ وضح قطع سے بالکل فقیر اور درویش لگتے تھے۔ پاسبان نے دیکھ کہ سمجھا کہ فقیر آیا ہے اور فقیر آتے ہی رہتے ہیں سو کچھ دیر بیٹھے گا چلے جائے گا سو وہ چپ رہا اور خاص توجہ نہ کی۔
۳
Read 6 tweets
Apr 11, 2022
خان نے آج تک جتنے نعرے لگائے وہ سب کے سب سحری کے ڈھول والے جیسے تھے جس نے خود شاید ہی روزہ رکھا ہو بس دیہاڑی کے چکر میں ڈھول پیٹ رہا ہوتا ہے۔ انہیں کھوکھلے نعروں میں ایک نعرہ وراثتی سیاست کا بھی تھا۔ اب چونکہ ہمارے ہاں سوچنے کا رواج کم کیا سرے سے ہی نہیں اور جو خان نے کہہ دیا
۱
وہی حدیث مان لی گئی۔

انشااللہ اگلا الیکشن غالباً آخری الیکشن ہوگا جس میں دونوں نسلیں حصہ لیں گے۔ اور یہ چورن ایک بار پھر چٹایا جائے گا اور سب رج کے چاٹیں گے۔ تو سوچا اس پر بات کی جائے

خان صاحب چونکہ امت مسلمہ کے لیڈر ہیں اور ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں اسلام
۲
اس بارے میں کیا کہتا ہے۔

اسلامی فقہ کی بنیاد اللہ کی سنت، اللہ کی کتاب، نبی اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث اور آخر میں صحابہ کا طرزِ عمل ہے۔

یاد رکھئے نبی وقت صرف مذہبی تبلیغ کے لئے نہیں آتا تھا وہ حاکم وقت بھی ہوتا تھا سیاستدان بھی سپہ سالار بھی وہی دین کا داعی بھی قاضی بھی وہی
۳
Read 6 tweets
Sep 13, 2021
پاکیزہ۔۔ وقت کی ایک کترن۔۔ منجو اور چندن کے عشق کا تاج محل

قدرت وقت کی قطع و برید کرکے دنیا کے حالات و حوادث تراشتی ہے۔ وقت کی کتر بیونت کے بعد بچی ہو کترنیں ہمارے ذہنوں میں کسی منت کے دھاگوں کی طرح بندھی رہتی ہیں۔

Images: IMDB, Hindustan Times, Google
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے انہیں کترنوں سے ایک شاہکار بھی تخلیق ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی بدقسمتیاں تراشنے کے بعد انکے بچی کترنوں سے ایک شاہکار فلم پاکیزہ بنی تھی

ہر فلم کی دو کہانیاں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جس کو فلمایا جا رہا ہوتا ہے اور دوسری وہ جو فلم کے بنانے میں تشکیل پاتی ہے۔
آج ہم اس کہانی کی بات کریں گے جو فلم بنانے میں تشکیل پائی اور اتنی دل سوز ہے کہ اس پر بھی ایک فلم بنائی جانی چاہئے۔

انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ "پاکیزہ "کے بغیر لکھی ہی نہیں جا سکتی۔حیرت کی بات یہ ہے اس فلم کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا تھا بلکہ پران صاحب کو اسی سال
Read 26 tweets
Aug 17, 2021
نصرت فتح علی خان : "سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار " سے "سنگنگ بدھا" سے تک کا سفر
_________________________________________
استاد نصرت فتح علی خان کی وفات ۱۶ اگست کے حوالے سے ایک کوشش:

Image and interview reference credits: BBC & Express Tribune Image
قدرت کے اس نظام ِ تخلیق میں ہر شے زماں و مکاں کی ایک قید میں ہے۔ لیکن یہ بھی اُس رب کی قدرت کا ایجاز ہی کہے کہ کچھ کو اس زماں و مکاں کی قید سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
نصرت کی گائیکی انہیں میں سے ایک ہے۔ نصرت فتح علی خان کی آواز کا جادو ہر دور میں وجد طاری کرے گا۔ + Image
چاہے آپ الفاظ و زبان سے شناسائی نہ بھی رکھتے ہوں اور موسیقی کے رموز کی ابجد بھی نہ جانتے ہوں۔

موسیقی کی دنیا میں یہ معجزہ نصرت نے اپنی زندگی میں کر کے دیکھایا ہے۔ ایشیا، یورپ، جاپان اور امریکہ ہر جگہ انھیں موسیقی کا بے تاج بادشاہ اور شہناہ قوال کا کہا جاتا ہے۔+
Read 23 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us!

:(