ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی دور دراز کے ملک میں ایک بادشاہ ہوتا تھا
بادشاہ کے اولاد نہیں تھی
بڑی منتوں مرادوں سے اللہ نے ملکہ کی گود ہری کی
لیکن جب بیٹا پیدا ہوا تو بیٹے کے سر پر ایک چھوٹا سا سینگ تھا
بادشاہ بہت پریشان ہوا
یہ بات کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا
محل کی کنیزوں کو سختی سے+
منع کردیا گیا کہ یہ بات کسی کو پتا نہیں لگنی چاہئیے کہ بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہے
کچھ مہینے ایسے ہی گزر گئے
شہزادے کے سر کے بال بڑے ہوگئے تھے
ایک دن ملکہ نے فرمائش کی کہ شہزادے کے بال کٹوا دئیے جائیں
لیکن مسئلہ یہی تھا کہ اگر نائی نے کسی کو بتادیا کہ بادشاہ کے بیٹے کے سر +
پر سینگ ہیں تو بہت شرمندگی ہوگی
خیر ایک راز دار نائی ڈھونڈا گیا
نائی نے جب شہزادے کے بال کاٹنے شروع کئے تو اسے اندازہ ہوا کہ بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہے۔
قبل اسکے کہ نائی کچھ کہتا
بادشاہ نے اسے کہا کہ اگر یہ بات کسی کو پتا چلی تو تمھارا سر قلم کردیا جائے گا
+
نائی خوفزدہ ہوکر شہزادے کے بال کاٹ کر چلا گیا لیکن نائی پیٹ کا کچا تھا
کوئی بات راز رکھنا اسکے لئے ناممکن تھا
کچھ ہی دن میں اسکا پیٹ پھولنا شروع ہوگیا
کسی کو بات بتاتا تو جان جاتی
نائی نے ایک حل سوچا
اپنا پھولا ہوا پیٹ لیکر جنگل چلا گیا
دائیں بائیں دیکھ کر
یقین دہانی کی کہ +
دیکھ تو نہیں رہا
پھر بانس کے ایک درخت کے پاس جاکر
دھیرے سے کہہ دیا
“بادشاہ کے بیٹے کے سر سینگ ہے”
یہ کہتے ہی نائی کا پیٹ ہلکا ہوگیا اور وہ واپس گھر چلا گیا
کچھ دن بعد اسی جنگل سے ایک لکڑہارے کا گزر ہوا
اسکی نظر بانس کے پیڑ پر پڑی تو اس درخت کی ڈھیر ساری شاخیں کاٹ لیں
لکڑہارا شہر آیا
اور بانس کی شاخیں ایک بانسری بنانے والے کو دے دیں
بانسری بنانے والے نے ان شاخوں کی سینکڑوں بانسریاں بنائیں
اور شہر میں بانسریاں بیچنے نکل گیا
یہ بانسریاں اسی بانس کے درخت کی بنی تھیں جس کے پاس جاکر نائی نے کہا تھا کہ
“بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہے”
اب بانسری+
والا جہاں بھی بانسری بیچتا اور لوگ بانسری بجاتے
ہر بانسری سے آواز آتی
“بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہے”
شام تک بانسری والے نے سینکڑوں بانسریاں بیچیں
گلی گلی میں بچے بانسریاں بجاتے پھر رہے تھے
اور ہر گلی سے آوازیں آرہی تھیں
“بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہیں”
بادشاہ کو جب اس بات کی اطلاع ملی
تو سب سے پہلے
نائی کو شمالی علاقہ جات کی سیر کو بھیج دیا
اور ملک میں قانون نافذ کردیا کہ
باندری بجانے کی سزا پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال کی سزا
میرے زرائع نے بتایا کہ خان اور ملک کی تقدیر اب بدلنے والی ہے
کل رات اٹک جیل کے اسمبلی گراؤنڈ میں ایک امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر اترا جس میں سے کچھ نامعلوم افراد دو صندوق لے کر اترے اور عمران خان سے ملاقات کی
انھیں بتایا کہ ہمارا ملک معذرت خواہ ہے جو کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد
+
پر آپ سے متعلق غلط اندازے لگا بیٹھا اور آپ کی حکومت کے خاتمے کی سازش میں شامل ہوگیا پورا امریکہ آپ سے شرمسار ہے اور آپ کو واپس لانا چاہتا ہے
یہ دو صندوق ہیں
ایک ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے جو ہم جیل انتظامیہ، حکومت پاکستان کو دیں گے اور اس سے پاکستان کا پورا قرضہ بھی اتر جائے گا+
اب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اقتدار واپس حاصل کرکے آپ کس طرح کا طرز حکومت اختیار کرینگے
عمران خان نے بتایا کہ میں قوم کو انڈے دونگا، مرغی دونگا، کٹے بیچوں گا، بیری کے درخت لگا کر شہد بیچو نگا لیکن یہ بتائیں کہ دوسرے صندوق میں کیا لائے ہیں
امریکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
+
مرحوم سابقہ چیف مردِ مومن مردِ حق کا موجودہ چیف کو خط
برادرم حافظ صاحب
امید ہے آپ وہاں خیریت سے ہونگے اور اداراے کے تمام جملہ ادارے خوب پھل پھول رہے ہونگے، جو سینکڑوں کاروبار ہم چھوڑ کر گئے تھے وہ بھی خوب ترقی کررہے ہونگے، ہمارے بنائے گئے ڈی ایچ اوں کی زمین کشادہ ہورہی ہوگی
++
ہمارے پیدا کردہ مجاہدین زمین پر خون بہا رہے ہونگے۔ (سنا ہے اب وہ اپنوں کا ہی خون بہانے لگ گئے ہیں)
میں بھی فی الحال ٹھیک ہوں، جو فرشتے یہاں مجھ پر چھتر مارنے پر مامور ہیں وہ بہت ہی نرم دل ہیں، بارہ گھنٹے بعد انکی ڈیوٹی بدلتی ہے تو خود ہی چلے جاتے ہیں
یہاں فرشتے بہت اچھے ہیں
++
ہمیشہ انصاف کرتے ہیں، بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی میں جتنے چھتر مارنے ہوتے ہیں اتنے ہی مارتے ہیں، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
یہاں کھانا بھی مزیدار ملتا ہے، کاکول اکیڈمی کی کینٹین جیسا تو نہیں لیکن بہت ہی ذائقہ دار پتھر ملتے ہیں جن پر ہم آگ کی وجہ سے نکلنے والے پسینے کے خشک ہونے کے
++
کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا؛ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہمسائے نے کہا؛ اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں ++
ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیئے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔
کسان نے گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویسا کھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔
+++
کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی افتاد آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سے جا کر کہا؛ بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام تو جاتا رہا ہے، اب کیا کروں؟
++
جانتے ہیں علی زیدی کو جیل میں کیوں ڈالا گیا؟
آئیے آپکو بتاتے ہیں
یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ قصص الدنیا نامی تاریخی کتاب کے حوالے سے یہ بات آپ تک پہنچانا میرا فرض بنتا ہیکہ ایک بار دو نشئی زمین پر بیٹھے باتیں کررہے تھے
ایک نے لکڑی کا چھوٹا سا ٹکڑا اٹھایا
اور زمین پر آڑھی ترچھی +
لکیریں کھینچ دیں
اور دوسرے نشئی سے کہا کہ دیکھ یہ میرا گھر ہے
یہ اسکا کمرہ ہے
یہ اسکا صحن ہے
اور یہ رہا اسکا دروازہ
دوسرے نشئی نے بھی لکڑی کی مدد سے زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں اور کہا
اس میں کیا بڑی بات ہے یہ دیکھ یہ میرا گھر ہے
یہ اسکا کمرہ
یہ اسکا صحن
یہ اسکا برآمدہ
++
یہ اسکا لیٹرین
پہلے نشئی نے کہا نہیں یار تو اپنے گھر کا نقشہ تبدیل کر
اس طرح تو تیرے گھر کے لیٹرین کا نکاس میرے دروازے کے سامنے آرہا ہے
دوسرے نشئی نے انکار کردیا
اب دونوں میں پہلے ضد بحث ہوئی
پھر تو تڑاک ہوئی
اور دیکھتے ہی دیکھتے نوبت ہاتھا پائی پر آگئی
جس جگہ زمین پر گھر کے ++
میرا وہ کالم جو کبھی کسی اخبار میں نہیں چھپ سکے گا
عفریت
میری شیلی ان دنوں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی تھی، مقروض ہونے اور قرض ادا نہ کرنے کے باعث لوگوں نے اسکا بائیکاٹ کر رکھا تھا، وہ اور اسکا بوائے فرینڈ پرسی بہت مشکل سے گزر بسر کر رہے تھے کہ انھی دنوں میری کو عجیب و +
غریب خواب آنے شروع ہوگئے
=========
زمانہ ہے ۱۸۱۸ کا اور یہ وہ وقت ہے جب دنیا میں سائینسی انقلاب کروٹ لے رہا تھا، یورپ میں درسگاہیں خانقاہوں کی جگہ لیتی جا رہی تھیں، سائِنسی تجربہ گاہیں کھل رہی تھیں اور دنیا پہلی بار اپنے آپ کو سائنسی نظر سے دیکھ رہی تھی، کچھ سائنسدان انسانی جسم+
پر بھی تجربات کر رہے تھے اسکی ساخت اسکی بناوٹ حتیٰ کہ روح۔ اس وقت کا متفقہ خیال یہی تھا کہ انسانی جسم میں روح کسی بجلی کے جھٹکے کے ذریعے ہی داخل کی جاتی ہے
====
میری شیلی نے اپنے خوابوں کا ذکر پرسی سے کیا جو کہ کچھ اس طرح تھا کہ اسے ایک شخص لوگوں کی قبریں کھود رہا ہے اور انکے ++
ایک چور چوری کرنے کے لئے شیخ کے گھر پہنچا
شیخ صاحب گھر کے صحن ميں لیٹا تھا
چور نے اپنی چادر زمين پر بچھائی اور خود کمرے سے سامان لینے چلاگیا
شیخ صاحب نے اس کی چادر اٹھ کر چھپالی اور پھر سے سوگیا
چور آیا اس نے دیکھا چادر ھی غائب ہے...
اس نے اپنی قمیض اتار کر بچھائی اور ++
پھر اندر سے سامان لینے گیا
شیخ صاحب نے قمیض بهی اٹھاکر چھپالی
چور واپس آیاتو قمیض بهی غائب..
اب کی بار اسنے بیش بہا حوصلہ کرتے ھوئی اپنی آخری ملکیت دھوتی بهی اتار کر بچھادی اور ایک بار پھر اندر سامان لینے چلاگیا
شیخ صاحب نے دھوتی بهی اٹھالی.
اب جب وہ باہر آیاتو دھوتی بهی++
غائب تھی.
چور بنیان پہننے انتہائی بیچارگی کی حالت ميں پریشان کھڑاتھا کہ شیخ صاحب نے اٹھ کر چور چور کا شور مچادیا
چور نے انتہائی بے چارگی سے ایک تاریخی جملہ ادا کیا..
+++