القادر ٹرسٹ کیس کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے 190 ملین پاؤنڈز کے اثاثے ضبط کئے اور رقم پاکستان کو واپس کی جو عمران خان نے ملک ریاض کےاکاؤنٹ میں جمع کرا کر اس کےعوض القادر ٹرسٹ کے نام زمین حاصل کرلی۔
اب تحریک انصاف یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ NCA نے جو رقم ضبط کی وہ حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں تھی بلکہ NCA اور ملک ریاض کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ رقم پاکستان میں ملک ریاض پر عائد جرمانے کی مد میں سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جائے گی۔
اس بیانئے کو رد کرنے کے لئے ہم تین سال قبل برطانوی اخبار The Guardian میں شائع ہونے والی کہانی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:
"کالے دھن سے متعلق تفتیش کے بعد پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے سیٹلمنٹ میں 190 ملین پاؤنڈز کے اثاثے ضبط کر لئے گئے ہیں"
سورج کی کرنیں میرے چہرے پر پڑیں تو میری آنکھ کھل گئی۔ تکئے سے سر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا تو پردہ صبح کی ٹھنڈی ہوا میں جھوم رہا تھا۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت یہ گھر مجھے چند ماہ قبل ہی ملا تھا۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو ماحول زعفران کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
میں دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی باہر بندھی بھینسوں نے سر ہلا کر میرا استقبال کیا۔ یہ بھینسیں ہمیں وزیراعظم کے پروگرام کے تحت ملی تھیں۔ ان کے کٹوں کو پالنے کے لئے بھی خوراک حکومت فراہم کر رہی تھی۔
میں چلتا ہوا سامنے لگے زیتون کے درختوں کی چھاؤں میں جا بیٹھا۔ درخت پھل سے لدے ہوئے تھے۔ زیتون کی فصل تیار تھی اور ان سے ہزاروں کی آمدن بس چند ہی روز دور تھی۔ میں درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ 1971
"اس کمیشن کے سامنے پیش کئے جانے والے شواہد کی بنیاد پر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت میں اخلاقی انحطاط کا آغاز 1958 کے مارشل لاء کے دوران انہیں دی گئی ذمہ داریوں سے ہوا"
"اس کے کمیشن کے سامنے پیش کئے جانے والے شواہد سے اس نظریے کو مزید تقویت ملی ہے کہ پاکستان آرمی کو مارشل لاء زمہ داریوں اور سول ایڈمنسٹریشن میں شامل کرنا کرپشن کو فروغ دیتا ہے اور ان کی توجہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹاتا ہے"
"۔ ۔ ۔ جس سے اس تربیت کے معیار پر منفی اثر پڑتا ہے جو وہ آفیسرز اپنے یونٹس اور فارمیشنز کو دے سکتے ہیں۔ اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس اس کام کے لئے اتنا وقت نہیں رہتا اور ان کا اس جانب رجحان بھی ختم ہو جاتا ہے۔"
"2018 میں سینیٹ کے انتخابات سے پہلے، ایک مزموم سازش کی گءی جس کے ذریعے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرا دی گئی جس کا اصل مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا۔ اس سازش کے کرداروں میں لیفٹینینٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ جو اس وقت وہاں کمانڈرسدرن کمانڈ تھے کا نام بھی آتا ہے" #StateAboveState
"یہ وہی جنرل عاصم سلیم باجوہ ہیں جن کے خاندان کی بے پناہ دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیلات پوری قوم کے سامنے آ چکی ہیں۔ ان حقائق کو نہ صعف چھپایا گیا بلکہ مبینہ طور پر SECP کے سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل بھی کیا گیا۔" #StateAboveState
"15-20 سال کے عرصے میں اربوں روپے کے یہ اثاثے کہاں سے بن گئے؟ یہ پوچھنے کی کسی کی مجال نہیں ہے۔ میڈیا پر خاموشی چھا گئی، نہ نیب حرکت میں آئی، نہ کسی عدالت نے نوٹس لیا، نہ کوئی جے آئی ٹی بنی اور نہ کوئی ریفرنس دائر ہوا۔ نہ کوئی مانیٹرنگ جج بیٹھا، نہ کوئی پیشی ہوئی، نہ کوئی سزا۔"
"ندیم باجوہ، جنہوں نےکاروباری سفر کا آغاز پاپا جونز پیزاریسٹورنٹ میں بطور ڈیلیوری ڈرائیور کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم باجوہ کی اہلیہ اور بچوں کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں اور 133 فعال فرینچائز ریسٹورنٹس، جن کی موجودہ مالیت تقریبا 40 ملین ڈالر (670 کروڑ روپے) ہے" #BajwaLeaks
"عاصم باجوہ نے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم میں باقائدہ "نہیں ہے” لکھا-"
صرف اس بات پر عاصم باجوہ کی مشیر اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے سے فوری برطرفی بنتی ہے.
"باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل ایل سی کی رجسٹریشن دستاویزات، جو کہ امریکی ریاست اوہایو کے سیکریٹری آف سٹیٹ کےریکارڈ کا حصہ ہیں، سے یہ بات سامنے آتی ہی کہ جنرل باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا باجکو گروپ کے تمام کاروباروں میں اپنے شوہر کے پانچ بھائیوں کے ساتھ برابر کی حصہ دار اور مالک ہیں"