۹۰ کی دہائی میں ہماری طرح کسی بھی لاہوری لڑکے کی یہی کوشش رہی ہوگی کہ کچھ ہوجائے گھر کے بڑوں کے آگے ایک جگہ کا نام منہ سے نہ نکل جائے پایا جانا تو دور کی بات تھی اسکا نام "ہیرا منڈی " تھا۔
Image Courtesy:
Chughtai Museum, Iqbal Hussain
لاہور کا بدنامِ زمانہ طوائف خانہ جو آج اُن طوائفوں سے بے آباد ہوچکا مگرا ٓج بھی کسی بزرگ کے آگے نام لیتے زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
لاہور کی ہیرا منڈی ایک سکھ سردار، سردار ہیرا سنگھ سے منسوب ہے۔ 1700 صدی میں یہ ایک مشہور غلّہ منڈی ہوا کرتی تھی.
اگر یہ غلہ منڈی تھی تو یہاں طوائفیں کیسے آباد ہوئیں۔ آئیےتاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اس کی کیا کہانی ہے۔
عہدِ سکھّی میں لاہور میں ایک اہم کردار کا نام ملتا ہے جس کا نام سلطان ٹھیکیدار تھا۔ دلی دروازے میں رہا کرتا تھا۔ سکھّی عہد جاتا رہا اور دولتِ سرکار انگریز کی آمد ہوئی
تو یہ انکا ٹھیکیدار بن گیا۔ لاہور کی چھاونئیوں سے لے کر لاہور کا ریلوے سٹیشن بھی اسی کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے۔ بد بخت آدمی تھا انگریز کو خوش کرنے کے لئے مغلیہ دور کی مساجد اور محلوں کوگرا کر انکی "نانک شاہی"(چھوٹی اینٹیں) اینٹوں سےانگریزوں کے لئے عمارتیں تعمیر کیں۔
سلطان نے ایک سرائے" سلطان کی سرائے" موجودہ لنڈا بازار میں تعمیر کی جس کے کچھ آثار آج بھی مل جاتے ہیں۔ عام مسافروں کے لئے کوٹھریاں اور انگریزوں اور شرفا٫ کے لئے مکلف مکان بنوائے۔ یہی پر سہولت کے لئے کسبیوں نے ڈیرے ڈالے۔ سلطان ٹھیکدار کی موت انتہائی عسرت میں ہوئی۔
بعد ازاں یہی طوائفیں وہاں سے کوچ کر کے اندرون لوہاری گیٹ میں جا کر آباد ہو گئیں۔ اسی مناسبت سے اس چوک کا نام"چوک چکلا " پڑا۔ آج اس کا ایک شرعی نام ہے مگر پرانے بابے اس کو چوک چکلا ہی کہتے ہیں۔ یہیں کہیں مائی نوراں بھی تھی، اور کیا تھی وہ اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔
جب1849 انگریز نے لاہور پر قبضہ کر لیا تو شہر بھر سے طوائفوں کو اکھٹا کر کے ان کو ہیرا منڈی میں آباد کیا گیا اور اس پر باقاعدہ لائسنس فیس رکھ دی۔ بعد ازاں 90 ء کی دہائی میں مفتیانِ دین نے لاہور کو متشرع کرنے کے مقدس عمل کے تحت انکو وہاں سے بھی اٹھا دیا
تو وہ پورے شہر میں پھیل گئیں اور پھر انکے ہزاروں فرنچائز شہر بھر میں کھل گئے۔
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
غالب
مولانا حالی نے اس شعر کا ذکر "یادگارِ غالب" اور "مقدمہ شعر و شاعری" دونوں میں کیا ہے۔ اردو ادب میں" مقدمہ شعرو شاعری" کا مقام یہ ہے کہ ماسٹرز کی کلاس میں باقاعدہ ایک مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱
مولانا حالی فرماتے ہیں کہ اردو ادب میں اتنے بلیغ شعر شاید دو چار ہی مل سکیں گے۔ مولانا آزاد جو غالب کی طلب کو ایک نام رکھتے تھے وہ بھی اس شعر کے انداز پر پروانہ تھے۔ مولانا طباطبائی کو بھی مجبوراً اعتراف کرنا پڑا کہ جو بندش اس شعر نے پائی ہے اس کا جواب ڈھونڈنے سے نہ مل سکے۔
۲
شعر میں جو داستان پوشیدہ ہے وہ یوں ہے:
مرزا محبوب کے دروازے پر اس کا دیدار کرنے کو پہنچے ۔ وضح قطع سے بالکل فقیر اور درویش لگتے تھے۔ پاسبان نے دیکھ کہ سمجھا کہ فقیر آیا ہے اور فقیر آتے ہی رہتے ہیں سو کچھ دیر بیٹھے گا چلے جائے گا سو وہ چپ رہا اور خاص توجہ نہ کی۔
۳
خان نے آج تک جتنے نعرے لگائے وہ سب کے سب سحری کے ڈھول والے جیسے تھے جس نے خود شاید ہی روزہ رکھا ہو بس دیہاڑی کے چکر میں ڈھول پیٹ رہا ہوتا ہے۔ انہیں کھوکھلے نعروں میں ایک نعرہ وراثتی سیاست کا بھی تھا۔ اب چونکہ ہمارے ہاں سوچنے کا رواج کم کیا سرے سے ہی نہیں اور جو خان نے کہہ دیا
۱
وہی حدیث مان لی گئی۔
انشااللہ اگلا الیکشن غالباً آخری الیکشن ہوگا جس میں دونوں نسلیں حصہ لیں گے۔ اور یہ چورن ایک بار پھر چٹایا جائے گا اور سب رج کے چاٹیں گے۔ تو سوچا اس پر بات کی جائے
خان صاحب چونکہ امت مسلمہ کے لیڈر ہیں اور ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں اسلام
۲
اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
اسلامی فقہ کی بنیاد اللہ کی سنت، اللہ کی کتاب، نبی اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث اور آخر میں صحابہ کا طرزِ عمل ہے۔
یاد رکھئے نبی وقت صرف مذہبی تبلیغ کے لئے نہیں آتا تھا وہ حاکم وقت بھی ہوتا تھا سیاستدان بھی سپہ سالار بھی وہی دین کا داعی بھی قاضی بھی وہی
۳
پاکیزہ۔۔ وقت کی ایک کترن۔۔ منجو اور چندن کے عشق کا تاج محل
قدرت وقت کی قطع و برید کرکے دنیا کے حالات و حوادث تراشتی ہے۔ وقت کی کتر بیونت کے بعد بچی ہو کترنیں ہمارے ذہنوں میں کسی منت کے دھاگوں کی طرح بندھی رہتی ہیں۔
Images: IMDB, Hindustan Times, Google
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے انہیں کترنوں سے ایک شاہکار بھی تخلیق ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی بدقسمتیاں تراشنے کے بعد انکے بچی کترنوں سے ایک شاہکار فلم پاکیزہ بنی تھی
ہر فلم کی دو کہانیاں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جس کو فلمایا جا رہا ہوتا ہے اور دوسری وہ جو فلم کے بنانے میں تشکیل پاتی ہے۔
آج ہم اس کہانی کی بات کریں گے جو فلم بنانے میں تشکیل پائی اور اتنی دل سوز ہے کہ اس پر بھی ایک فلم بنائی جانی چاہئے۔
انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ "پاکیزہ "کے بغیر لکھی ہی نہیں جا سکتی۔حیرت کی بات یہ ہے اس فلم کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا تھا بلکہ پران صاحب کو اسی سال
نصرت فتح علی خان : "سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار " سے "سنگنگ بدھا" سے تک کا سفر
_________________________________________
استاد نصرت فتح علی خان کی وفات ۱۶ اگست کے حوالے سے ایک کوشش:
Image and interview reference credits: BBC & Express Tribune
قدرت کے اس نظام ِ تخلیق میں ہر شے زماں و مکاں کی ایک قید میں ہے۔ لیکن یہ بھی اُس رب کی قدرت کا ایجاز ہی کہے کہ کچھ کو اس زماں و مکاں کی قید سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
نصرت کی گائیکی انہیں میں سے ایک ہے۔ نصرت فتح علی خان کی آواز کا جادو ہر دور میں وجد طاری کرے گا۔ +
چاہے آپ الفاظ و زبان سے شناسائی نہ بھی رکھتے ہوں اور موسیقی کے رموز کی ابجد بھی نہ جانتے ہوں۔
موسیقی کی دنیا میں یہ معجزہ نصرت نے اپنی زندگی میں کر کے دیکھایا ہے۔ ایشیا، یورپ، جاپان اور امریکہ ہر جگہ انھیں موسیقی کا بے تاج بادشاہ اور شہناہ قوال کا کہا جاتا ہے۔+
طبقاتی مسابقت میں یقیناً کچھ پیچھے رہ جایئں گے کچھ آگے نکل جایئں گے لیکن اگر پیچھے رہ جانے والوں کو انسان ہی نہ سمجھا جائے تو معاشرہ کسی قبرستان کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اسی موضوع پر ایک ماخوذ کوشش آپ کے مطالعے کی طلبگار۔
کچی پکی قبریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
انسان کو اپنی جنم بھومی سے پیار ہوتا ہے وہ جگہ جائے اماں لگتی ہے پھر چاہے وہ قبرستان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔
اس لئے قبرستان میں اکیلے اپنی آبائی جھونپڑی میں رہتے اسےکبھی ڈر نہیں لگا۔ اس کا بچپن یہی گزرا۔ کھیلنے کودنے کو اکثر وہ چھوٹی چھوٹی قبریں بنا کر گڈے گڑیا
۲
کو کفنایا دفنایا کرتا ڈر تب نہیں لگا تو اب کیا لگتا۔
اس کے لئے قبرستان کھنی چھاوں اور ٹھنڈے پانی کے کنواں سے آراستہ کسی جنت کے ٹکڑے سے کم نہ تھا۔ ہر طرف شیشم اور کیکر کے درخت تھے جن کی چھال حقے کی چلم تازہ کر دیتی۔ قبروں کے درمیان جا بجا بوٹی اگتی تھی جس کو پی کر اسے