ابو یعلی سند میں ابن سعد اور حاکم حضرت عائشہ رضی اللہ سے روایت۔کہ حضور صلی اللہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ حضرت ابوبکر آئے حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا جو جہنم کی آگ سے آزاد شخص دیکھنا چاہے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ کو دیکھ لے ان کا نام عبداللہ رکھا گیا تھا۔جاری
مگر عتیق مشہور ہوا اور اسی دن سے عتیق مشہور ہے ( عتیق ) کے معنی آزاد ہونا ابن اسحاق نے حضرت حسن بصری اور فتادہ سے روایت کی ہے کہ اپ کا لقب شب معراج کے دوسرے دن سے مشہور ہوا مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مشرکین حضرت ابوبکر کے پاس آئے کہا۔ جاری
اپ کا دوست کہتا ہے کہ مجھے رات کو بیت المقدس پہنچایا گیا انہوں نے کہا وہ کہتے ہیں فرمایا ہے وہ اگر اس سے زیادہ آسمانوں کی خبر دیتے تو میں اسکی بھی تصدیق کرتا یہی حدیث حضرت انس رضی اللہ اور ابو ہریرہ سے ابن عساکر نے بیان کی ہے کہ شب معراج میں جب حضور صلی اللہ وسلم۔ جاری
ذی طوی کے مقام پر پہنچے تو حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ اے جبر ائیل میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی حضرت جبرائیل نے کہا اپ کی تصدیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کریں گے طبرانی نے حکیم ابن سعد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ نے ایک دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ حضرت ابوبکر۔ جاری
رضی اللہ عنہ کا نام ( صدیق ) اللہ تعالی نے آسمان سے نازل فرمایا ہے سبحان اللہ۔ دعا ہے اللہ ہمیں صحیح راستے پر چلنے کی توفیق نصیب کرے اور صحابہ کرام سے محبت نصیب ہو امین یا رب العالمین۔ #نمود_عشق
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
امریکہ کی دوسرے ممالک کی سیاست میں مداخلت پر طوفان بدتمیزی بپا ہے لیکن اسی طوفان میں عمران کا فرار اور قوم کوکسی بتی کے پیچھے لگانا جسمیں وہ کامیاب ہوا عمران ہار کربھاگ گئے اور اپنی خفت اور شرمندگی مٹانے کیلئے اور میں نہیں تو کوئی بھی نہیں کے مصداق ملک کو ایک آئینی بحران میں۔جاری
ڈبودیا امریکہ کے ہی ایک ایکانومسٹ جان پرکنز کی ایک کتاب ۲۰۱۶ میں شائع ہوئی کہ کیسے امریکہ غریب ملکوں اپنے شکنجے میں کستا ہے کیسے اپنی من مانی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں یہ ساری دنیا کو معلوم ہے اور امریکہ کے Tools آئی ایم ایف ورلڈ بنک وغیرہ ان کی کچھ کمپنیاں بھی ہیں۔جاری
جو کام کسی اور ملک کیلیے کریں گے لیکن ہیں ایجنٹ امریکی مفادات کے جسمیں Floor International KBR وغیرہ جیسی کمپنیاں شامل ہیں عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیسے کیا تھا کس نے سفارش کی تھی اور کس خوشی سے جناب وہاں گئے واپسی پر دوسرے ورلڈ کپ جیتنے کا اعتراف کیا ( وہ بھی جھوٹ تھا جاری
منٹو لکھتا ھے کہ میں شدید گرمی کے مہینے میں ھیرا منڈی چلا گیا. جس گھر میں گیا تھا وھاں کی نائکہ 2 عدد ونڈو ائیر کنڈیشنڈ چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رھی تھی. میں نے کہا کہ میڈم دو A/C چل رھے ھیں آپکو سردی بھی لگ رھی ھے آپ ایک بند کر دیں تاکہ آپکا بل بھی کم آئے گا۔
تووہ مسکرا کربولی کہ، "اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے".منٹو کہتے کہ کافی سال گزر گئےاور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کےلیے جانا پڑگیا.شدید گرمی کاموسم تھاصاحب شدیدگرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ھوئے تھے اور 2 ونڈو ائیر کنڈیشنر فل آب تاب کےساتھ چل رھے تھے۔
اور صاحب کو سردی بھی محسوس ھورھی تھی. میں نے کہا کہ جناب ایک A/C بند کر دیں تاکہ بل کم آئے گا تو صاب بہادر بولے، "اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے۔
کالج اور یونیورسٹی تک ان کی محبت پروان چڑھتی رہی مگر پھر اچانک راستے جدا ہوئے ۔
کالج ری یونین تقریب میں دونوں ملے ۔ بات چیت میں پتا چلا کہ پروفیسر خاتون چار سال پہلے 65 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں۔
جب کہ خود پروفیسر بھی ستر سال کی عمر میں پانچ سال پہلے رنڈوے ہوئے تھے۔
موقع غنیمت جان کر پروفیسر صاحب نے پوچھا:
“کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتی ہیں ؟”
خاتون پروفیسر نے کچھ لمحے توقف کے بعد ہاں کر دی۔
دو دن گزر گئے تو پروفیسر صاحب کو خیال آیا کہ میں نے تقریب میں شادی کا پوچھا تھا - - تو خاتون نے ہاں کہا تھا یا ناں۔۔
کافی دیر تک یاد نہ آنے پر خاتون کو فون کیا اور شرماتے جھجھکتے پوچھا:
میں نے آپ کو شادی کا پروپوزل دیا تھا مگر اس عمر میں یاداشت چلی گئی اور یاد نہیں آ رہا آپ نے ہاں کہا تھا یا ناں؟
میانوالی کے ایک بزرگ پیر سید شاہ کا واقعہ۔
65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کیلیےبہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھےوالدصاحب نےمجھے زاد راہ دےکروہاں بھیجا کہ کم ازکم بھائی کے بیوی بچوں کومیانوالی لے آو وہ سمجھتے تھے کہ میانوالی جنگی اثرات سےمحفوظ رہے گا۔
میں ان دنوں فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا بھائی صاحب کہنے لگے والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔ میں اور میرا خاندان پوری طرح محفوظ ہیں اگر ایسا ہوا تو میں ایسا ہی کروں گا۔
تم اب آ ہی گئے ہو تو دوتین دن رکو اور پھر واپس چلے جانا واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے فرسٹ کلاس ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دےکر قدم بڑھا چکی تھی بھاگم بھاگ ایک ڈبے کاڈنڈا پکڑ کرسوار ہوا کہ اگلے سٹیشن پر درست جگہ ڈھونڈھ لوں گا
اسلام جتنا آسان دین ہے کوئی شک نہیں انسانی بنیادی جبلت پر دستک دیتا ہے اور فطرت انسانی ہے لیکن Critical Analysis کریں تو انہیں آسانیوں میں بے حد مشکلات بھی پنہاں ہیں۔بختیار کاکی رحمتہ علیہ جب فوت ہوئے تو وصیت پڑھی گئی جنازہ میں کہ میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے گا جس نے تمام عمر۔
جھوٹ نہ بولا ہو تہجد کا باپند ہو وغیرہ تو وقت کا شہنشاہ روتے ہوئے نماز جنازہ کیلیے آگے ہوا اور ساتھ کہتا گیا کہ استاد محترم مجھے عیاں کردیا حضور صلی اللہ جب بیمار ہوئے کسی کی جرات نہ ہوتی نماز پڑھائیں جب تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کو کہا نہ گیا اسلام میں مولوی نہیں اصول یہ ہے۔
شہر کا امیر و کبیر شخص امامت کرے اگر پاک باز ہے کہ اس میں بہت بڑا فلسفہ ہے ہم نے جان چھڑانے کیلیے یہ عہدہ بنایا ہے اسلامی حکومت میں خلیفہ امامت اور شہروں میں گورنر یہ فریضہ انجام دیتے آج حریم شاہ اور اسی جیسی اور رمضان میں ہمیں وعظ و نصیحت کریں گی کہاں گئے ہمارے اسلامی اقدار۔
ڈسکہ کاالیکشن کےچند اسباق سوال اور جواب۔عمران خان اُمید کی کرن تھا باقی سب آزمائے ہوئے تھے اور چور یہ بڑی حقیقت تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنی جس میں کلیدی کردار عمران خان کی شخصیت محنت کردار اور سوشل ورک کے کام تھے جن کو ایک ساتھ ملا کر وہ کرشمہ ساز شخصیت بنی اور وہ مرشد بنتے گئے
ایک کمزور حکومت کی کرسی نصیب ہوئی اور مسائل کے انبار کا سامنا تھا جو وہ بار بار اپنی تقاریر میں قوم کو بتاتے رہتے ہیں کنٹینر کے پرجوش اور الف لیلوی داستان کے قصے بھی لوگوں کو یاد تھے اور وہ کسی معجزے کے منتظر کہ عمران خان کے پاس الہ دین کا چراغ ہوگا چشمے دریا دودھ شہد کی نہریں۔
بیانیہ کہ مافیا کو نہیں چھوڑنا اور میں ہی مرد میدان ہوں کسی کو نہیں چھوڑوں گا بات صحیح لیکن ان کو ادراک تک نہ ہوا کہ میری کرسی کی بنیاد میں مافیا والوں کا ہی کسی حد تک ہاتھ ہے وعدے قسمیں اہداف سب بھول گئے کہ جادو ممکن نہ تھا ( خود ان کا بیان کہ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں حکومت کی)