خدا کی پہچان کا مادی ذریعہ
اللہ پاک نے سلسلہ نبوت تو ختم فرما دیا مگر یہ وعدہ کیا کہ اب قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ آفاقی آیات لوگوں کو اللہ سے متعارف کرائیں گی کیونکہ قرآنی آیات اللہ پاک کا قول ہے اور کائنات اللہ کا فعل ہے اور بقول کسے action of a man speaks louder than his words
کے مصداق دنیا جس طرح اندھا دھند مادے کی طرف دوڑی چلی جا رہی ہے وہ سائنسی بنیادوں پر خدا کی طرف ہی رخ کیئے دوڑ رہی ہے ایک انسان کے قول و فعل میں بھی تضاد ایک برائی سمجھی جاتی ہے پھر الله کے قول و فعل میں تضاد کیسے ہو سکتا ہے چنانچہ سائنس اگر حقیقت تک پہنچے تو وہ کبھی بھی الله کے
خلاف دلیل نہیں بنے گی بلکہ الله کے وجود کا ٹھوس گواہ پیش کرے گی جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
[سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (53) الصافات
عنقریب ہم ان کو اپنی آیات دکھائیں گے آفاق میں یہاں تک کہ ان کو واضح ہو جائے گا کہ وہ واقعی موجود ہے کیا آپ کے رب کے لئے یہ کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر شاھد ہے یعنی اللہ ہمیشہ سے مستقبل کی ان ایجادات اور سائنسی کامیابیوں سے بخوبی آگاہ تھا محمد یوسف بھٹی صاحب نے اسی چیز کو موضوع بنا
کر ایک بہترین کتاب الله کی پہچان کا مادی ذریعہ لکھی ہے اس کتاب کا مرکزی خیال دو اہم نکات کے گرد گھومتا ہے 1. اللہ تبارک و تعالی کی ذات کو وحی کے بعد جاننے اور سمجھنے کے لئے کائنات اور مادی دنیا کے نظام نظم و ضبط اور طریقہ کار کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے قرآن میں
مذکور علم الاسما چیزوں کے اوصاف اور کارکردگی کا علم ہے جس پر سائنس کی شاخ فزکس بیالوجی اور کیمسٹری وغیرہ بحث کرتی ہیں (جس کو جاننے کے بعد انسان ملائک پر ممتاز ہوا) کتاب میں اس حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں دین اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئ ہے مزید برآں
یہ کہ اللہ رب العزت بے مثل اور انسان کے فہم و فراست اور عقل سے ماورا ذات ہے وحی کے بعد اللہ کو جاننے کا واحد ظاہری ذریعہ مادی کائنات کی دریافت ہے تاکہ اس کے طریقہ کار کو جان اور سمجھ کر الله کی عظمت اور کاریگری کو پہچانا جائے 2. انسان اپنی نجات کا ذمہ دار خود ہے کتاب میں اسلام
اور سائنس کے مختلف حوالوں سے بین السطور یہ بتانے کی کوشش کی گئ ہے کہ اسلامی عقائد سائنسی نظریات ہیں انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور اپنے لئے جنت و دوزخ قائم کرنے کا بھی خود ذمہ دار ہے قرآن کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اللہ ہماری حالت (اور ہماری موجودہ اور مستقبل کی زندگی)
اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک ہم خود اسے نہیں بدلیں گے
مزید برآں قرآن کی اجتماعی فکر جدجوجہد اور اپنے مسائل خود حل کرنے کا درس دیتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نمونہ ہمارے سامنے ہے ہماری دنیاوی بقا اور ہماری اخروی زندگی کا انحصار دنیا میں ہماری کامیابی سے ہے قرآن میں
واضح طور پر ارشاد ربانی ہے کہ مومن دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے لہذا اسلام اور مسلمانوں کے احیا کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ عزت و جاہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ سائنس کا علم حاصل کریں عہد حاضر میں الحاد سائنسی ترقی کو دین کے خلاف استعمال کر کے قدم جما رہا ہے
سائنس زدہ طبقے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئ ہے کہ شائد سائنس اور دین ایک دوسرے کے متضاد یا مخالف مضامین ہیں حالانکہ سائنس قرآن کی معمولی شاخ ہے یا اگر قرآن سائنس نہیں ہے تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی حتمی منزل اور نشاتہ ثانیہ کے لئے سائنس کو قرآن سے دریافت کریں
نعش جوتوں اور کپڑوں سے پہچانی گئی سیاہ رنگ کے بوٹ کی آب و تاب ابھی تک باقی تھی تلوے کے ایک کونے میں مگرمچھ کی تصویر بھی موجود تھی اور بکل کی سنہری نکل بھی قائم تھی کمپنی کا دعویٰ سچ نکلا کہ جوتوں کی شان و شوکت تیس برس بعد بھی قائم رہے گی سوئٹزرلینڈ کی کمپنی دنیا کے صرف ایک ہزار
خاندانوں کیلئے جوتے بناتی تھی‘جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے یہ سنہری چمڑے اور نیلے سینگوں والی گائے ہے جو باقی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں پائی جاتی جوتے کی ٹو برازیل کے مگرمچھوں کی جلد سے بنائی جاتی ہے جوتے کا کوّا افریقہ کے سیاہ ہاتھیوں کے کانوں
کے چمڑے سے تیار کیا جاتا تھا اور جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہ چپکائی جاتی تھی اور پیچھے رہ گیا دھاگہ تو ان جوتوں کیلئے بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والے دھاگے استعمال کئے جاتے تھے کمپنی کا دعویٰ تھا کہ پچاس برس تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ مٹی میں دفن ہونے کے ایک
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں ا س مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
ا ب گیت گیا سنگیت گیا
ہا ں شعر کا موسم بیت گیا
ا ب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں کچھ را ت گریں
یہ ا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ا ن سب کے پاس ہے مال بہت
ہا ں عمر کے ماہ و سال بہت
ا ن سب کو ہم نے بلایا ہے
ا ور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاو ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس
کیا عمر ا پنی کے پانچ برس
تم جان کی تھیلی لائی ہو
کیا پاگل ہو سو دائی ہو
جب عمر کا آ خر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو ا س سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا بے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو ابولؤلؤ فيروز ایرانی مجوسى نے نيزہ مارا تو آپ رض كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا طبيب نے كہا اے امير المؤمنين وصيت كر ديجيے اسليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا ميرے پاس
حذيفہ بن يمان كو لاؤ حذيفہ بن يمان وہ صحابى تھے جن كو رسول اللہ نے منافقين كے ناموں كى لسٹ بتائى تھى جس كو اللہ اللہ كے رسول اور حذيفہ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا
حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں كيا رسول اللہ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے لگے اے امير المؤمنين يہ ميرے پاس رسول اللہ كا راز ہے ميں اس كو مرتے دم تك كسى كو نہيں بتا سكتا سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے حذيفہ بلاشبہ يہ رسول اللہ
باجوہ ڈاکٹرائن
ہندوستان اپنی 75 سالہ تاریخ کے شدید ترین سفارتی بحران کا شکار ہے گودی میڈیا کچھ بھی کہے نریندرہ مودی بری طرح سے مواخذے کی زد میں ہے نریندرا مودی اپنی شکست کو RAW کی ناکامی جبکہ RAW اس ذلت آمیز شکست کی ذمہ داری ہندوستانی سیاسی قیادت اور اسکی ناعاقبت
اندیشیوں پر ڈال رہی ہے اور یوں یہ ہنڈیا عنقریب بیچ چوراہے پھوٹنے والی ہے. مارخور نے اپنے 75 سالہ حساب مع سود چکا لیے ہندوستان میں کل تک سرجیکل اسٹرائیک کا راگ الاپتے بنیے اور پاکستان میں نام نہاد گولی ذدہ صحافیوں کو ISI نے بتا دیا کہ سرجیکل سٹرائیک کسے کہتے ہیں اور گولی کس کو
کس وقت اور کس جگہ مارنی ہوتی ہے کہ جہاں گولی کھانے والا بتا بھی نہ سکے دکھا بھی نہ سکے اور چھپا بھی نہ سکے ہندوستان کے تقریبا تین ارب یو ایس ڈالر ڈوب گیے اپنے ہاتھوں سے بنائی افغان پارلیمنٹ پر آج پاکستانی نمائندے کہلائے جانے والےطالبان براجمان بیٹھے ہیں 20 سال تک تربیت