واقعہ فرعون کی بیٹی اور اسکی باندی مشاطہ کا📜
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم شب معراج میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے مصر کے قریب ایک مقام سے گزرے
تو
انہیں نہایت ہی اعلیٰ
اور
زبردست خوشبو آنے لگی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا
کہ
یہ خوشبو کیسی ہے ؟
جواب ملا کہ ..
"فرعون کی بیٹی کی باندی مشاطہ
اور
اس کی اولاد کی قبر سے آرہی ہے.."
پھر
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کا قصہ بیان کیا کہ ...!
"مشاطہ
فرعون کی بیٹی کی خادمہ تھی
اور
وہ خفیہ طور پر اسلام لا چکی تھی
ایک دن
فرعون کی لڑکی کو کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اتفاقاًً کنگھی گر پڑی ۔
وہ اٹھانے لگی
تو
اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔
اس پر شہزادی نے کہا
کہ
تو
نے آج عجیب کلمہ بولا
رب تو میرے باپ فرعون ہی ہیں
تو پھر
تم نے یہ کس کا نام لیا ہے؟
اس نے جواب دیا:"
فرعوں رب نہیں
بلکہ
رب وہ الله ہے
جو
مجھے اور تجھے
اور
خود فرعون کو روزی دیتا ہے ۔
"شہزادی نے کہا
اچھا تو میرے باپ کے سوا
کسی اورکو اپنا رب مانتی ہے ؟
اس نے جواب دیا:
" ہاں
ہاں میرا تیرا
اور
تیرے باپ کا
سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔
"شہزادی نے اپنے باپ سے کہلوایا ۔
وہ سخت غضبناک ہوا
اور
اسی وقت اسے برسر دربار بلوا بھیجا
اور
کہا،
کیا تو میرے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ؟
مشاطہ نے کہا
کہ.." میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے
جو
بلند اور بزرگی والا ہے ۔
فرعون نے اسی وقت حکم دیا
کہ تانبے کی جو گائے بنی ہوئی ہے ،
اس کو خوب تپایا جائے
اور
جب بالکل آگ جیسی ہوجائے
تو
اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے
اس میں ڈال دیا جائے ۔
آخر
میں خود اسے بھی اسی میں ڈال دیا جائے ...
چناچہ وہ گرم کی گئی ۔
جب
آگ جیسی ہو گئی
تو حکم دیا
کہ اس کے بچے کو ایک ایک کر کے اس میں ڈالنا شروع کرو ۔
اس نے کہا:
" بادشاہ ایک درخواست میری منظور کرلے
وہ یہ کہ میری اور میرے ان بچوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ ڈال دینا ۔"
فرعون نے کہا:
" اچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں ۔
اس لئے یہ مجھےمنظور ہے-"
اسکی دونوں بچیاں اسکی آنکھوں کے سامنے اس میں ڈال دئیے گئے
اور
وہ فورا" جل کر راکھ ہو گئے
پھر
سب سے چھوٹے کی باری آئی
جو
ماں کی چھاتی سے لگا ہوا دودھ پی رہاتھا...
فرعون کے سپاہیوں نے اسے گھسیٹا
تو
اس نیک بندی کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا..
اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو اسی وقت زبان دے دی
اور
اس نے با آواز بلند کہا:
" اماں جان !
افسوس نہ کر ،
اماں جان ذرا بھی پس و پیش نہ کرو ۔
حق پر جان دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے.،
چنانچہ
انہیں صبر آگیا ۔
اس بچے کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا ۔
اور
آخر میں ان کی ماں کو بھی اسی آگ میں جلا کر شہید کردیا...
اور
""یہ خوشبو کی مہکیں اسی کے جنتی محل سے آرہی ہیں ۔"سبحان الله
مسند احمد(1/309۔310)
صحیح (5/31)
(شعب الاايمان)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
# یمن کا بادشاہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ
جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں
ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا
اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں
اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔
۔
* پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں
پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔
* دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ
ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔
* تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا
انجیر کو جنّت کا پھل بھی کہا جاتا ہے، جو غذا اور دوا، دونوں صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بنیادی طور پر مشرقِ وسطیٰ اور ایشیائے کوچک کی پیداوار ہے۔ایک عام خیال ہے کہ عرب سے آنے والے مسلمان
اطباء یا ایشیائے کوچک سے منگول اور مغل اسے ہند و پاک لائے۔انجیر، دیگر پھلوں کی نسبت کچھ نازک پھل ہے کہ پکنے کے بعد درخت سے خودبخود ہی گرجاتا ہے اور دوسرے دِن تک محفوظ کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔اسی لیے اسے خشک کرکے محفوظ کیا جاتا ہے۔خشک کرنے کے دوران
اسے گندھک کی دھونی دی جاتی ہے اور نمک والے پانی میں کچھ دیر کے لیے ڈال دیا جاتا ہے، تاکہ سوکھنے کے بعد نرم و ملائم رہے۔ انجیر کا استعمال کم زور اور دبلے پتلے افراد کے لیے بیحد مفید ہیکہ یہ جسم کو فربہ اور سڈول کرتا ہے۔
میں تیری پسلی سے پیدا کی گئی بنتِ حوّا ہوں
بہن کے روپ میں تیری غیرت بنا کر اتاری گئی
ماں کے روپ میں تیری عظمت بنا کر اتاری گئی
بیوی
کے روپ میں تیری رفاقت بنا کر اتاری گئی
بیٹی کے روپ میں ترے لئیے رحمت بنا کر اتاری گئی
اے ابنِ آدم!
تو کیوں نہیں دیکھتا؟
تو کیوں نہیں سوچتا؟
تو ایسا کیوں ہے کرتا؟
اے ابنِ آدم تُو، تو محافظ بنا کر اتارا گیا ہے بنتِ
حوّا کا
پھر کیوں؟
میرے آنچل سے خاص ستارہ جھڑتا ہے
میری آنکھوں کی چمک ختم ہوجاتی ہے
میرے چہرے کی حیّا سلب کی جاتی ہے
میرے لبّوں کی مسکان چھین لی جاتی ہے
تُو، تو ابنِ آدم ہے بنتِ حوّا کا محافظ!