امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ایک دن اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے، دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے،ا دھریہ لوگ آپ کو فرصت کا موقع پاکر قتل کرنے کے در پے رہتے تھے۔ ایک دن دہریہ لوگ تلوار یں تان کر جماعت کی شکل میں امام ابوحنیفہؒ کے پاس آدھمکے اور وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا👇
آپ نے فرمایا کہ: میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کا تجارتی سامان ہے، مگر نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے، مگر اس کے باوجود برابر آجا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی، پھاڑتی گزر جاتی ہے، 👇
رُکنے کی جگہ پر رُک جاتی ہے اور چلنے کیجگہ پر چلنے لگتی ہے،نہ کوئی ملاح ہے، نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ:آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟کوئی عقلمند انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی نظام کے ساتھ طوفانی سمندر میں آئے جائے، اور کوئی اس کا نگران اور چلانے والا نہ ہو؟👇
حضرت امام صاحب ؒ نے فرمایا کہ: افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے، لیکن یہ ساری دنیا آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے اپنے کام پر لگی رہیں اور اس کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے اور حق معلوم کرکے اسلام لائے۔ 👇
رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور 👇
شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ 👇
لہٰذا حکم ران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے👇
حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘ 👇
تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور a نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ a بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ a کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور a نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پراصرار کرے گا 👇
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریںگے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریںگے۔ 👇
:۔۔۔۔۔ نبی اکرم a ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) 👇
ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘ 👇
یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ 👇
رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ 👇
’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘ 👇
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘👇
امام التابعین حضرت حسن بصریv کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، 👇
اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹) البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں 👇
ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) 👇
1 ۔لڑکی شادی کے بعد والدین کے گھر آتی ہے تو قصر نماز پڑھے گی یا پوری؟
2 ۔ایک لڑکی کی رہائش شادی سے پہلے والدین کے ساتھ سکھر میں ہے،شادی ہوکے کراچی جانا ہے، نکاح رخصتی وغیرہ کے سب انتظامات کراچی میں منعقد ہیں، اب لڑکی راستے میں کراچی جاتے ہوئے اور کراچی میں نکاح ہونے سے 👇
پہلے مقیم ہے یا مسافر ؟
جواب
1۔لڑکی شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر اگر پندرہ یوم سے کم قیام کرتی ہے اور میکہ مسافتِ سفر پر واقع ہے تو اس صورت میں عورت اپنے میکے میں قصر نماز ادا کرے گی ۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کرے گی یا میکہ مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو 👇
مکمل نماز ادا کرے گی۔فتاوی شامی میں ہے
"( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه 👇