دوسری ذمہ داری عام مسلمانوں کی ہے جن سے اس وقت میں مخاطب ہوں، اگرچہ اس ملک میں ملاحدہ، زنادقہ، بے دین اور اسلام سے منحرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، تاہم ملک کی بھاری اکثریت حلقہ بگوشِ اسلام ہے جو اس ملک میں اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی 👇
ہے اور اسلام سے روگردانی اور انحراف کو سب سے بڑاگناہ تصور کرتی ہے، ان ہی حضرات کے سامنے میں اپنی معروضات پیش کررہا ہوں کہ:
آپ اس وقت سخت امتحان میں ڈال دیئے گئے ہیں، آپ علماء حق کی دعوت پر لبیک کہیں اور ان فتنوں سے نبرد آزما ہونے میں علماء کا ہاتھ بٹائیں، 👇
عوام مسلمین کی قربانیاں اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوں گی، جب یہ صحیح قیادت کے تحت کام کریں اور صحیح قیادت علماء ِربانیین ہی کی ہوسکتی ہے:
لا یصلح الناس فوضٰی لا سراۃ لھم
ولا سراۃ إذا جُھالھم سادوا
👇
’’صحیح قیادت کے بغیر انتشار اور پراگندگی کی حالت میں لوگوں کی حالت بہترنہیں ہوسکتی اور جاہلوں کی سیادت کو صحیح قیادت نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
آپ کو معلوم ہے کہ اس مسلمان ملک میں سو شلزم اور کمیونزم کے نعرے لگ رہے ہیں اور بڑے زوروشور کے ساتھ لگائے جارہے ہیں، 👇
جہنم کی طرف لے جانے والے ائمۂ ضلال وفسق لوگوں کی قیادت کررہے ہیں، اور خود بھی شرارت اور فتنہ وفساد کی آگ بھڑکارہے ہیں اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کررہے ہیں۔ اب ہماری خاموشی بدترین جرم ہوگی،اگر دین دار مسلمان اسلام کی حفاظت وصیانت اور دفاع سے خاموش ہوگئے تو 👇
یہاں اسلام ختم ہوجائے گا اور دنیا کے نقشہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا، اس موقع پر قرآن کریم آپ کو پکارر ہا ہے اور کہہ رہا ہے:
👇
’’وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۔‘‘ (حج:۷۸)
’’جہاد کرو اللہ کے راستہ میں، جیسا کہ حق ہے اس کے راستہ میں جہاد کرنے کا۔‘‘
یہاں پر یہ دردناک حقیقت بھی سنتے جایئے کہ پچھلے دنوں ڈھاکہ میں حزبِ اختلاف کی آٹھ جماعتیں جمع ہوئیں اور 👇
ان کا اسلام پر اتفاق نہ ہوسکا، چند سلبی چیزیں ان کے اتفاق و ائتلاف کے نقطے بن سکیں، لیکن نظامِ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اتفاقی نقطہ نہ بن سکا۔👇
شروع میں میں نے آپ کے سامنے جو آیتِ کریمہ تلاوت کی ہے، اس کے متعلق آپ جانتے ہوں گے کہ یہ آیت کس موقع پر نازل ہوئی؟ ذو الحجہ کا مہینہ تھا اور اس کی نویں تاریخ تھی، عرفہ کا دن تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کا ۶۳واں برس تھا، نبوت کا تیئیسواں سال تھا، 👇
جمعہ کا دن تھا، عصر کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے، مخاطبین میں ابو بکر، عمر،عثمان، علی، طلحہ، زبیر، حسن، حسین رضی اللہ عنہم اور ایک لاکھ صحابہؓ موجود تھے، یہ ایک مجمع تھا کہ چشم فلک نے اس سے زیادہ مقدس، 👇
اس سے زیادہ پاکیزہ،اس سے زیادہ جاں نثار مجمع نہیں دیکھا اور نہ کبھی دیکھے گا۔ اسلامی تاریخ نے یہ سب کچھ محفوظ کر رکھا ہے اور اس طرح کہ اس سے زیادہ حفاظت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، پھر مسلمانوں نے اپنے ہادیِ بر حق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور 👇
آپ کے انفاسِ قدسیہ کو تو اس طرح محفوظ کر رکھا ہے کہ کوئی قوم نہیں کرسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کا ایک ایک لمحہ حدیث وسیرت میں محفوظ ہے۔ الغرض آیتِ کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ آج کے دن میں نے تمہارا وہ دین جس کا سلسلہ نہ صرف۲۳ سال بلکہ ہزاروں سال پہلے 👇
حضرت آدم علیہ السلام سے جاری تھا، مکمل وکامل کردیا اور نعمت یعنی نعمتِ نبوت یا نعمتِ اسلام یا اللہ سے تعلق کو پورا کردیا۔ اب دنیا میں تمہاری فلاح اور دنیا وآخرت دونوں میں تمہاری فلاح ونجات صرف دینِ اسلام سے وابستہ ہے، تمہاری صلاح وفلاح کسی بھی ازم یا نظامِ حیات سے وابستہ نہیں ہے
غور فرمایئے: جب یہ آیتِ کریمہ اُتری ہے، اس وقت دنیا میں مختلف اور متعدد مذاہب اور نظامہائے حیات موجود تھے، مختلف ’’ازم‘‘ موجود تھے، جن سے دنیا آشنا تھی، آج جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے اس کی ابتدائی شکلیں اس وقت موجود تھیں، لیکن ربِ کریم نے ان سب پر خطِ تنسیخ پھیر کر 👇
اسلام اور صرف اسلام کو ہماری خیر وفلاح کا ضامن ٹھہرایا ہے، کیونکہ اس قانون کا بنانے والا رب العالمین، أحکم الحاکمین، أرحم الراحمین ہے، جس کی مدح وثناء ہم عاجز بندے کر ہی نہیں سکتے، پھر نہ صرف یہ کہ اس نے اس دین کو پسند کیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعلان فرمایا:
👇
’’وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْـاِ سْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِيْ الْـاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ‘‘ (آل عمران:۸۵)
’’جو شخص اسلام کے علاوہ کسی نظام کو اپنا دین بنائے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خسارہ اُٹھانے والوں کی فہرست میں شمار ہوگا۔‘‘
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور 👇
شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ 👇
لہٰذا حکم ران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے👇
حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘ 👇
تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور a نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ a بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ a کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور a نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پراصرار کرے گا 👇
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریںگے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریںگے۔ 👇
:۔۔۔۔۔ نبی اکرم a ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) 👇
ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘ 👇
یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ 👇
رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ 👇
’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘ 👇
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘👇
امام التابعین حضرت حسن بصریv کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، 👇
اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹) البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں 👇
ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) 👇
1 ۔لڑکی شادی کے بعد والدین کے گھر آتی ہے تو قصر نماز پڑھے گی یا پوری؟
2 ۔ایک لڑکی کی رہائش شادی سے پہلے والدین کے ساتھ سکھر میں ہے،شادی ہوکے کراچی جانا ہے، نکاح رخصتی وغیرہ کے سب انتظامات کراچی میں منعقد ہیں، اب لڑکی راستے میں کراچی جاتے ہوئے اور کراچی میں نکاح ہونے سے 👇
پہلے مقیم ہے یا مسافر ؟
جواب
1۔لڑکی شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر اگر پندرہ یوم سے کم قیام کرتی ہے اور میکہ مسافتِ سفر پر واقع ہے تو اس صورت میں عورت اپنے میکے میں قصر نماز ادا کرے گی ۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کرے گی یا میکہ مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو 👇
مکمل نماز ادا کرے گی۔فتاوی شامی میں ہے
"( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه 👇