کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے قبلہ اول کو فتح کیا اور عیسائی پادریوں نے اس کی چابیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیں اور اس وقت جو دستاویز تیار کی گئی، اس میں بطور خاص عیسائیوں نے یہ شرط لکھوائی کہ
یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کا حق حاصل نہیں ہوگا، وہ یہاںپر کوئی پراپرٹی نہیں خریدسکیں گے، کوئی مکان نہیں بناسکیں گے، بس مقاماتِ متبرکہ کی زیارت کریں گے اور واپس چلے جائیں گے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔
یہودی جلاوطنی کے دور میں دنیا کے مختلف ممالک میں منتشر رہے، جلاوطنی کے اس دور میں یہودیوں نے اولاً اسلامی اندلس میں پناہ لی، جہاں جاکر انہیں کچھ چین اور آرام نصیب ہوا۔ اسپین پر جب اسلامی حکومت تھی اور وہ علم وعرفان کا مرکز کہلاتا تھا تو ہر طرف سے لوگ وہاں علم حاصل کرنے آتے تھے،
یہودی جلاوطنی کے دور میں دنیا کے مختلف ممالک میں منتشر رہے، جلاوطنی کے اس دور میں یہودیوں نے اولاً اسلامی اندلس میں پناہ لی، جہاں جاکر انہیں کچھ چین اور آرام نصیب ہوا۔ اسپین پر جب اسلامی حکومت تھی اور وہ علم وعرفان کا مرکز کہلاتا تھا تو
ہر طرف سے لوگ وہاں علم حاصل کرنے آتے حصولِ علم کے لیے اسپین آنے والوں میں عیسائی بھی تھے، جن کو یہودیوں نے آزاد خیالی اور حریتِ فکر کے نام پر بائبل سے برگشتہ کرنا شروع کردیا اور ان خیالات کے ذریعہ عیسائیت میں تفرقہ پیدا کیا،
چنانچہ عیسائیوں کے دو فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ بن گئے۔ کیتھولک میں پوپ کی حیثیت ایک دینی سربراہ کی ہے ، جو اپنی قوم کی راہنمائی کرتا ہے اور قوم اس کی باتوں کو لیتی اور اس پر عمل کرتی ہے، جبکہ پروٹسٹنٹ فرقہ آزاد خیالی کا علم بردار اور حقوقِ انسانی کا دعوے دار بن گیا،
جس کے نتائج آج پورا یورپ اور مغرب بھگت رہا ہے
جب اندلس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو ان پر سخت تشدد کیا گیا اور وہاں سے بھی ان کو نکالا گیا، یہی وہ زمانہ تھا جب نئی دنیا امریکہ دریافت ہوا تو یہودیوں کو وہاں جانے کا موقع ملا اور دوسری طرف عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے کے حامیوں نے بھی
جن کو یہودیوںنے اپنی سازشوں سے دینِ عیسوی سے برگشتہ کیا ہوا تھا، امریکہ کی جانب رُخ کیا، عیسائیوں کا یہی فرقہ آج تک امریکہ میں غالب اکثریت میں چلا آرہا ہے اور اسی فرقہ نے پوپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ: ہر ایک کو کتابِ مقدس براہِ راست پڑھنے کا حق حاصل ہے۔
کتاب سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں پوپ کا کوئی کردار نہیں۔ اس تحریک کا بانی مارٹن لوتھر ہے، جس نے کتابِ مقدس کا ترجمہ انگریزی اور جرمنی زبان میں کیا، اس کی تحریک کے اثر سے کلیسا کے کردار سے برگشتہ عیسائیوں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ فلسطین یہودیوں کی سرزمین ہے، حالانکہ
حقیقت یہ ہے کہ عرب قبائل تقریباً تین ہزار سال سے یہاں آباد ہیں، اور یہودیوں کو بہت کم یہاں رہنا نصیب ہوا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ فلسطین یہودیوں کی زمین ہے، یہ اہلِ فلسطین اور عرب قبائل کے حق میں بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے۔
یہود نے عیسائیوں کو اپنے حق میں رام کرنے اور
اپنا ہم نوا بنانے کے لیے چند ایک اقدامات کیے، جن میں یہودیوں نے اپنے مکروفریب ، چالاکی ودھوکا بازی اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی ناسمجھی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں اپنا یوں ہم نوا بنالیا کہ ہم ایک کتابِ مقدس یعنی عہد نامہ قدیم (جو تورات کے نام سے منسوب ہے)
اورعہد نامہ جدید (جو اناجیلِ اربعہ پر مشتمل ہے) کے ماننے والے ہیں اور ہم دونوں گویا ایک ہیں۔
۲:- یہودیوں نے عیسائیوں کو باور کرایا کہ ہم ایک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں، جو آکر دنیا میں امن برپا کرے گا، (اگرچہ مسلمانوں کے نزدیک امن برپا کرنے والے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے، جن کا نزول قربِ قیامت آسمان سے ہوگا، نہ کہ یہودیوں کا مسیح ’’دجال‘‘ ہوگا، اور
صحیح العقیدہ عیسائی بھی اس کو مانتے ہیں) لیکن نام نہاد عیسائیوں کی اکثریت یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ سے اسی مسیح (دجال) پر ایمان رکھتی ہے۔
۳:- یہودیوں نے عیسائی حکمرانوں پر غلبہ پانے کے لیے ایک اور چال چلی کہ عیسائیوں کے راہبوں اور پوپوں سے سود کی اجازت حاصل کرلی اور
سود کے ذریعے اُن کی پوری معیشت پر چھاگئے۔ آج تمام یورپی حکومتیں ان یہودی بینکرز کی مقروض ہیں۔ ان کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ پہلے حکومتوں کو آپس میں لڑاتے، ان حکومتوں کو اسلحہ اور ہتھیار خریدنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی تو یہ اُن کو سود پر سرمایہ فراہم کرتے ہیں
جب وہ ملک مقروض ہوجاتا تو اس ملک سے جو چاہتے منوالیتے۔ آج امریکہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک اس یہود کے بچھائے ہوئے سودی جال میں پھنس چکے ہیں اور اس سودی لعنت میں گرفتار ہیں۔
۴:- یہود اور عیسائی دونوں اہلِ کتاب تو ہیں، مگر ان دونوں میں قدرِ مشترک اُمتِ محمدیہ(علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) سے ان کا بغض وعناد اور حسد ہے جو اُن کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے، اسی لیے اسپین میں جب ان یہودیوں کو تحفظ حاصل ہوا تو انہوں نے عیسائیوں کی نفرت اور دشمنی کا رخ
یہودیوں کی بجائے مسلمانوں کی طرف پھیردیا، جس کے نتیجے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین سو سال بعد عیسائیوں نے مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے صلیبی جنگیں شروع کردیں۔
بہرحال ایک عرصہ بعد عیسائیت اور یہودیت کا گٹھ جوڑ ہوگیا،
جس کی بدولت یہودیت پس پردہ رہ کر عیسائیت کے نام لیواؤں سے ہر ہر وہ کام کروارہی ہے جو ان کے اپنے مفاد میں ہے، اس لیے کہ امریکہ ہو یا یورپ تمام کے تمام یہودیوں کے بینکوں اور ان کے اداروں کے مقروض اور مرہونِ منت ہیں، جس کی بناپر وہ مجبور محض بن کر یہود کے کٹھ پتلی اور
ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں، حالانکہ پہلی جنگِ عظیم میں عالمِ عرب کے مسلمانوں نے اتحادیوں کا ساتھ دیا، لیکن ان سے کیے گئے وعدے سب ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ شام جو پہلے عثمانی خلافت کا ایک صوبہ تھا، اس کو تقسیم کرکے چار ملکوں اُردن، لبنان، سوریا اور فلسطین میں بانٹ دیا گیا۔
حجاز اورجزیرۃ العرب کو بھی کئی ممالک میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک طرف عرب کے مسلمان دوستی گانٹھنے میں انگریزوں سے مل کر ان کے دشمنوں اور مخالفین سے برسرپیکار تھے اور دوسری طرف اہلِ عرب کے خلاف انگریزوں کے اشاروں سے اعلان بالفور پر عمل درآمد ہورہا تھا۔
پہلی جنگ عظیم میں ’’اتحادی عصبیت‘‘ اور دوسری جنگ عظیم میں ’’اقوامِ متحدہ کے منشور‘‘ اور ’’حقوقِ انسانی‘‘ کے خوشنما نعروں کا راگ الاپا گیا، جس سال حقوقِ انسانی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا، ٹھیک اسی سال اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، تاکہ دنیا پر ثابت کیا جائے کہ
حقوقِ انسانی سے کیا مراد ہے؟ اور ان کا مستحق کون ہے؟
بہرحال یہودیوں نے برطانیہ سے معاہدہ کرلیا اور برطانوی وزیرخارجہ بالفور نے ۱۹۱۶ء میں ’’بالفورڈیکلیریشن‘‘ کے نام سے یہ اعلان کیا کہ سلطنتِ عظمیٰ برطانیہ ’’فلسطین‘‘ کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتی ہے اور
ان کا یہ حق تسلیم کرتی ہے کہ جب بھی اُسے موقع ملا، وہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔
جنگِ عظیم اول کے نتیجے میں کچھ علاقے فرانس کے قبضہ میں چلے گئے اور کچھ برطانیہ کے پاس آگئے، فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے پاس آیا اور اس نے یہاں اپنا وائسرائے مقرر کیا
اور اعلان کیا کہ یہودی جہاں بھی آباد ہیں، وہ یہاں آکر آباد ہوسکتے ہیں اور پھر جب یہودی اس حد تک یہاں آباد ہوگئے کہ ایک علاقہ ان کے لیے ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا تھا تو ۱۹۴۵ء میں وہ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کا کیس لے کر گئے‘
جسے منظور کرلیا گیا اور پھر برطانیہ اس علاقہ سے چلا گیا اور ۱۴مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Muddassar Rashid

Muddassar Rashid Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Muddassar04

19 Oct
رعایا کے  ساتھ  حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور 👇
شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ 👇
لہٰذا حکم ران کے  ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و  فریاد کی جائے👇
Read 4 tweets
19 Oct
حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘     👇
تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور a نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ a بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ a کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور a نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پراصرار کرے گا 👇
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریںگے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریںگے۔                                            👇
Read 4 tweets
19 Oct
:۔۔۔۔۔ نبی اکرم a ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) 👇
ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘     👇
یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ 👇
Read 4 tweets
19 Oct
رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ 👇
’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘     👇
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘👇
Read 4 tweets
19 Oct
امام التابعین حضرت حسن بصریv کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، 👇
اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹)     البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں 👇
ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰)  👇
Read 9 tweets
18 Oct
سوال

1 ۔لڑکی شادی کے بعد والدین کے گھر آتی ہے تو قصر نماز پڑھے گی یا پوری؟

 2 ۔ایک لڑکی کی رہائش شادی سے پہلے والدین کے ساتھ سکھر میں ہے،شادی ہوکے کراچی جانا ہے، نکاح رخصتی وغیرہ کے سب انتظامات کراچی میں منعقد ہیں، اب لڑکی راستے میں کراچی جاتے ہوئے اور کراچی میں نکاح ہونے سے 👇
پہلے مقیم ہے یا مسافر ؟

جواب

1۔لڑکی شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر اگر پندرہ یوم سے کم قیام  کرتی ہے اور میکہ مسافتِ سفر پر واقع ہے تو اس صورت میں عورت اپنے میکے میں قصر نماز ادا کرے گی ۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کرے گی یا میکہ مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو 👇
مکمل نماز ادا کرے گی۔فتاوی شامی میں ہے
"( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه 👇
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!