بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں: ’’اے اسرائیل! تیری حدیں نیل سے فرات تک ہیں۔‘‘یہودی پروٹوکول کے مطابق یہودی ریاست اپنے سفارتی تعلقات میں کسی معاہدہ کی پابند نہیں رہ سکتی۔ ہاں! دوسرا اگر کوئی عہد کی خلاف ورزی کرے
تو وہ اُسے سزا دے سکتی ہے، بلکہ یہودی ریاست اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق اپنے مفادات کی راہ میں آنے والے تمام پڑوسی ممالک پر جنگ بھی مسلط کرسکتی ہے۔
اس عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ پر سب سے جرأت مندانہ بیان عمان کے مفتی صاحب کا سامنے آیا کہ
مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کی آزادی اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے۔ اگر کوئی اس واجب کو پورا نہیں کرسکتا تو اُسے خاموش رہ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا چاہیے۔ اللہ کا کوئی بندہ اُٹھے گا اور اس ذمہ داری کوپورا کرے گا، مگر کسی حال میں بھی کسی کو اس واجب کو کمزور کرنے والے کسی اقدام یا
مسجدِ اقصیٰ کی سودے بازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ظاہر ہے عرب امارات کے اس فیصلے سے قضیۂ فلسطین کمزور ہوجائے گا۔
اب اس معاہدے کی شق اول میں ہی دیکھ لیا جائے جس میں لکھا ہے کہ: ’’ اسرائیل مقبوضہ غرب اُردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کا منصوبہ معطل کردے گا۔‘‘
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور 👇
شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ 👇
لہٰذا حکم ران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے👇
حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘ 👇
تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور a نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ a بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ a کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور a نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پراصرار کرے گا 👇
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریںگے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریںگے۔ 👇
:۔۔۔۔۔ نبی اکرم a ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) 👇
ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘ 👇
یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ 👇
رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ 👇
’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘ 👇
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘👇
امام التابعین حضرت حسن بصریv کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، 👇
اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹) البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں 👇
ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) 👇
1 ۔لڑکی شادی کے بعد والدین کے گھر آتی ہے تو قصر نماز پڑھے گی یا پوری؟
2 ۔ایک لڑکی کی رہائش شادی سے پہلے والدین کے ساتھ سکھر میں ہے،شادی ہوکے کراچی جانا ہے، نکاح رخصتی وغیرہ کے سب انتظامات کراچی میں منعقد ہیں، اب لڑکی راستے میں کراچی جاتے ہوئے اور کراچی میں نکاح ہونے سے 👇
پہلے مقیم ہے یا مسافر ؟
جواب
1۔لڑکی شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر اگر پندرہ یوم سے کم قیام کرتی ہے اور میکہ مسافتِ سفر پر واقع ہے تو اس صورت میں عورت اپنے میکے میں قصر نماز ادا کرے گی ۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کرے گی یا میکہ مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو 👇
مکمل نماز ادا کرے گی۔فتاوی شامی میں ہے
"( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه 👇