معاہدہ کی شق نمبر۵ میں کہا گیا کہ:
’’متحدہ عرب امارات باقی مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے تیار کرے گا۔‘‘
 گویا اب عرب امارات اس کے بے دام خادم اور ملازم کی حیثیت سے دوسرے ممالک کو بھی اسرائیل کے ماننے کی طرف مائل اور آمادہ کرے گا۔ افسوس ہے
ان حضرات کی سوچ اور فکر پر جو ایسے معاہدہ پر آنکھیں بند کرکے دستخط کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔
معاہدہ کی شق نمبر۶ میں کہا گیا کہ:
 ’’ اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے والے ممالک کے مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں گے۔‘‘ 
مطلب یہ کہ
اول اسرائیل کے وجود کو بطور ملک دنیا کے تمام مسلمان تسلیم کرلیں۔ ۲:- تمام مسلم ممالک بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اس کا قبضہ یہودیوں کو دے دیں۔ ۳:- یہ کہ مسلمانوں کو بھی صرف بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی اور کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
۴:- دوسرے مسلمانوں کے علاوہ بطور خاص جو فلسطینی باشندے اپنے ملک فلسطین کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں قربانیاں دے رہے ہیں، وہ بیت المقدس کی تولیت تو کجا ان کو اس میں نماز پڑھنے کا بھی حق نہیں ہوگا۔ یہ کیسا معاہدہ ہے جو فلسطین کے حقیقی وارثوں اور باشندوں کو ان کے ملک سے بے دخل اور
روحانی مرکز سے محروم کررہا ہے۔
اب اسرائیل عرب ممالک کو ’’ایران‘‘ کا ڈراؤنا خواب دکھاکر اپنے حق میں رام کرنے میں لگا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایک عرب ملک اپنی اپنی حکومتوں اور ریاستوں کو خطرے میں جاتا دیکھ کر اسرائیل کی آغوش میں پناہ لینے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج عرب امارات ہے،
کل کوئی دوسرا ملک ہوگا، پرسوں تیسرا ملک ہوگا، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ یہودی اور عیسائی گٹھ جوڑ صرف کسی ایک ملک کے خلاف ن
اب اہلِ پاکستان کو کیا اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہئیں یا اس پر کچھ اور موقف ہے؟
اس کے لیے عرض ہے کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ: ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور یہ مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپنے والی بات ہے، جسے ہم تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Muddassar Rashid

Muddassar Rashid Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Muddassar04

19 Oct
رعایا کے  ساتھ  حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور 👇
شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ 👇
لہٰذا حکم ران کے  ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و  فریاد کی جائے👇
Read 4 tweets
19 Oct
حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’ أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم:۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘     👇
تو اصحابِ صفہؓ اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور a نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ a بھی ان کے ساتھ رو پڑے، آپ a کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور a نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پراصرار کرے گا 👇
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریںگے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریںگے۔                                            👇
Read 4 tweets
19 Oct
:۔۔۔۔۔ نبی اکرم a ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے: ’’ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘(المائدۃ:۱۱۸) 👇
ترجمہ:۔۔۔۔۔’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘     👇
یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لیے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لیے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ 👇
Read 4 tweets
19 Oct
رسول اللہ a نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال:۸، ۷) ۔۔۔۔۔ 👇
’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘     👇
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت: ’’ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔(الزمر:۵۳)۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘👇
Read 4 tweets
19 Oct
امام التابعین حضرت حسن بصریv کہتے ہیں کہ: ’’ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر وزبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، 👇
اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل قرآن مجید، زیر حدیث نمبر: ۱۹)     البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے، تاکہ خود ساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں 👇
ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰)  👇
Read 9 tweets
18 Oct
سوال

1 ۔لڑکی شادی کے بعد والدین کے گھر آتی ہے تو قصر نماز پڑھے گی یا پوری؟

 2 ۔ایک لڑکی کی رہائش شادی سے پہلے والدین کے ساتھ سکھر میں ہے،شادی ہوکے کراچی جانا ہے، نکاح رخصتی وغیرہ کے سب انتظامات کراچی میں منعقد ہیں، اب لڑکی راستے میں کراچی جاتے ہوئے اور کراچی میں نکاح ہونے سے 👇
پہلے مقیم ہے یا مسافر ؟

جواب

1۔لڑکی شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر اگر پندرہ یوم سے کم قیام  کرتی ہے اور میکہ مسافتِ سفر پر واقع ہے تو اس صورت میں عورت اپنے میکے میں قصر نماز ادا کرے گی ۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ قیام کرے گی یا میکہ مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو 👇
مکمل نماز ادا کرے گی۔فتاوی شامی میں ہے
"( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه 👇
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!