امام طحاویؒ نے کتاب کے دیباچے میں ایک بات لکھی ہے کہ میں یہ طریق کار اختیار کروں گا کہ کسی بھی مسئلہ کے حوالہ سے مختلف احادیث بیان کر کے یہ بتاؤں گا کہ اس حوالے سے یہ حدیث بھی موجود ہے اور یہ بھی ہے۔ پھر میں کہیں ان کے مابین تطبیق دوں گا، کہیں ترجیح دوں گا، 👇
کہیں ناسخ منسوخ کی بات کروں گا، لیکن میرے اس طرز بحث کا مقصد کیا ہے؟ اس مباحثے کی غرض اور مقصد سمجھیے۔ امام طحاویؒ کی یہ تمہید محض چار پانچ سطروں کی ہے لیکن اس میں انہوں نے پوری بات سمو دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ 👇
بہت سی احادیث میں ظاہری تعارض کی حقیقت سے ناواقف آدمی کا دل بڑا دکھتا ہے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ یہ بھی حدیث ہے اور یہ بھی حدیث ہے، ایک چیز کو جائز کہنے والا بھی دو چار احادیث پیش کر دیتا ہے اور ناجائز کہنے والا بھی دو چار احادیث پیش کرتا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟یہ احادیث متعارض ہیں👇
تو کیوں متعارض ہیں؟ امام طحاویؒ کہتے ہیں کہ اس طرز عمل سے ناواقف لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہوتا ہے، الجھن پیدا ہوتی ہے، لیکن میں اس بحث و مباحثے کا دروازہ اس لیے کھول رہا ہوں کہ احادیث میں جو بظاہر تعارض نظر آتا ہے یہ اصل میں تعارض نہیں ہے، 👇
کوئی حکم پہلے کا ہے کوئی حکم بعد کا ہے۔ کسی حکم کی روایت مضبوط ہے، کسی کی روایت کمزور ہے۔ کسی کو ترجیح کی بنیاد ایک وجہ ہے اور کسی کی کوئی اور وجہ ہے۔ میں یہ وہم دور کرنا چاہتا ہوں، جیسا کہ اہل الحاد اور اہل جہل کو بھی وہم ہو جاتا ہے کہ احادیث متعارض ہیں۔ 👇
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حدیثیں متعارض نہیں ہیں، البتہ ان کو سمجھنے کے لیے فہم میں درجہ بندی کی ضرورت ہے، ان کے فہم میں دائرے متعین کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے درمیان تطبیق کی ضرورت ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
افتاء اور تبلیغ دونوں کا تعلق دین اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، البتہ مبلغ کا کام اشاعتِ دین ہے جب کہ مفتی کی ذمہ داری امت کو شرعی مسائل سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ دونوں میں تضاد نہیں ہے، یعنی ایک شخص مفتی اور مبلغ بھی ہوسکتاہے۔ البتہ 👇
مبلغ کے لیے اتنا درست علم ضروری ہے کہ وہ دوسری کی صحیح راہ نمائی کرسکے۔
جو شخص تبلیغ و دعوت کا ارادہ رکھتا ہو اس کا چند صفات سے آراستہ ہونا ضروری ہے کہ مبلغ کی تبلیغ کے مؤثر ہونے کا تعلق ان صفات سے ہے کیوں کہ ان صفات کا ذکر خود باری تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے
👇
لہذا جو شخص تبلیغ کرتا ہو اس کو چاہیے کہ مخلوق سے بے نیازی اختیار کرے اور مخلوق کی طرف سے کسی قسم کے بدلے کی امید نہ رکھے اور استغنا کی صفت اپنائے۔
انبیاء علَیہِم الصّلاۃُ والسَّلامُ کے اصولِ دعوت اور بنیادی صفات میں بندگانِ الہی پر رحمت وشفقت اور خیر خواہی کاجذبہ ہے ؛ 👇
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"فان اللہ ھو مولاہ وجبریل وصالح المومنین"،
یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اورجبریل اور نیک اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔
یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہل ایمان(یعنی نیکوکاروں)کے لیے بھی یہ 👇
لفظ استعمال فرمایاہے۔ جس سے معلوم ہواکہ جبریل امین اور تمام نیکو کار اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں، اور یہ لقب انہیں خود بارگاہ ایزدی سے عطاہواہے۔ اس سے آگے چلیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: 👇
"یا زید انت مولانا"۔ معلوم ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایاکہ:"من کنت مولاہ فعلی مولاہ"۔👇
فرانس دنیا میں سیکولر جمہوریت کا سب سے پہلا علمبردار ہے اور ۱۷۹۰ء کے انقلاب فرانس سے ہی مذہب اور ریاست میں قطع تعلقی کے عملی دور کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام پر فرانس میں آنے والے اس انقلاب کے بعد سے یہ طے کر لیا گیا تھا کہ آئندہ ریاستی معاملات اور 👇
سوسائٹی کے اجتماعی امور سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہو گا اور کسی پبلک مقام پر کسی مذہبی علامت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انقلاب فرانس کے بعد سے مغربی دنیا دنیا بھر میں مسلمانوں کو بھی اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مذہب کے اجتماعی اور 👇
معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جائیں اور مغرب کی طرح مذہب کو ذاتی اور انفرادی سطح تک محدود کر دیں۔ لیکن مسلمان نہ صرف اپنے ملکوں میں اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں بلکہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمان کمیونٹی بھی مذہب کے معاشرتی کردار اور اجتماعی پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں لگی ہوئی ہے 👇
مولانا سعد نے اپنے بیان میں معاملات اور حلال و حرام کی اہمیت پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ حلال و حرام کا شعور بیدار کرنا اور ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے کی ترغیب دینا بھی دعوت و تبلیغ کے مقاصد میں سے ہے اور ایک مسلمان کے لیے انتہائی ضروری امور میں شامل ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ 👇
ہماری سب سے زیادہ محنت اس بات پر ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کو مسجد کے ماحول میں لایا جائے کیونکہ ایمان و اعمال کی تعلیم و تربیت ایمان کے ماحول میں ہی ہو سکتی ہے اور اس کی جگہ مسجد ہے۔ مسجد سے باہر کیے جانے والے اعمال میں وہ برکت نہیں ہوتی جو مسجد میں ہوتی ہے۔ اس لیے 👇
ہم اگر لوگوں کو ایمان کی طرف لانا چاہتے ہیں تو اس کی محنت کی صحیح جگہ مسجد ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق تو اللہ تعالیٰ کے گھر میں آنے سے ہی قائم ہوگا اور یہی دعوت و تبلیغ کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ باہمی حقوق کی ادائیگی کا ماحول پیدا کرنا بھی 👇
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنا خیمہ لڑائی کے میدان میں نصب کرایا۔جب خیمہ نصب ہوگیا تو حکم دیا کہ قیدی سامنے حاضرکیے جائیں۔یروشلم کا بادشاہ گائی اور اس کا بھائی ریجی تالڈ دونوں اندر لائے گئے۔سلطان نے بادشاہ یرو شلم کو 👇
اپنے پہلومیں بٹھایا اور اسے پیاسا دیکھ کر برف میں سرد کیے ہوئے پانی کا کٹورا دیا
لیکن بادشاہ گائی نے ا گئیے
ریجی نالڈ کو دیا
سلطان یہ دیکھ کر ناخوش ہوا اور ترجمان سے کہا کہ بادشاہ گائی نے دیا ہے۔
روٹی اور نمک جسے دیتے ہیں وہ محفوظ سمجھا جاتا ہے مگر 👇
یہ آدمی ریجی نالڈ اس قسم کی حفاظت میں بھی میرے انتقام سے نہیں بچ سکتا۔سلطان اتنا کہہ کر کھڑا ہوا اور ریجی نالڈ کے سامنے آیا۔ریجی نالڈ جب سے خیمہ میں داخل ہوا تھا برابر کھڑا رہا تھا۔سلطان نے اس سے کہا کہ سن میں نے تجھے قتل کرنے کی قسم دو مرتبہ کھائی تھی۔ ایک مرتبہ تو اس وقت 👇
اصول یہ ہے کہ وہ شخصیت جس کی شان میں گستاخی کی جاوے اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے گستاخ کی خود معاف کر دے لیکن بطور امتی ناموس رسالت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’الصارم المسلول ‘‘میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ 👇
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو یہ اختیار حاصل تھا کہ اپنی زندگی میں سب وشتم کرنے والوں سے درگزر کریں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس جرم کو معاف کرے”۔آپ ؐ نے کسی امتی کو یہ حق تفویض نہیں فرمایاتھا کہ جو میری توہین کرے تو اسے مناسب سمجھو تو 👇
معاف کر دیا کرو۔ کیا خلفائے راشدین یا بعد میں خیر القرون میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ملتی ہے کہ اسلامی ریاست کے کسی بھی شخص نے اللہ کے رسول کی توہین کی ہو تو اسے معاف کردیا گیا ہو؟الله کے رسول کے دور میں اصحاب رسول رض آپ کے ظاہری حکم کے پابند تھے اسلئے 👇