عرب خانہ بدوشوں کے ساتھ 7 سال , پیرس کی امن کانفرنس میں خود غرض سیاستدانوں نے دوسری جنگ عظیم کی بنیادرکھی: برطانوی فوجی افسر بوڈلی
شہرہ آفاق مصنف آر وی سی بوڈلی (R. V. C Bodley) کی عرب ممالک اور مغربی تہذیب کے بارے میں ایک چشم کشاء تحریر:
میں1918ء میں اپنی جانی پہنچانی ہوئی 👇
دنیا سے الگ تھلگ شمال مغربی افریقہ میں چلا گیا، وہاں کے صحرا میں عربوں کے ساتھ بود و باش اختیار کر لی ۔ میں نے وہاں 7 سال گزارے اس دوران خانہ بدوشوں کی زبان میں گفتگو کرنا سیکھی اور ان کی معاشرت کا مطالعہ کیا۔ میں ان کے کپڑے پہنتا،ان کا کھانا کھاتا اور انہی کے ساتھ زمین پر سوتا👇
میں نے ان کا طرز زندگی اختیار کر لیا جن میں پچھلی بیس صدیوں کے دوران بہت کم تبدیلیاں آئی ہیں۔ میں نے بھیڑیں بھی خرید لیں اور ان کے مذہب (اسلام) کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ بعدازاں میں نے حضرت محمد ﷺ پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ''پیغامبر‘‘ ہے۔
👇
میں سات سال تک ان خانہ بدوش عربوں کے ساتھ رہا اور یہ میری زندگی کے نہایت ہی پرسکون اور اطمینان بخش سال تھے۔ مجھے پہلے ہی گوناگوں اور زرخیز تجربے حاصل ہوچکے تھے ۔
میں پیرس میں انگریز والدین کے گھر پیدا ہوا اور نو سال تک فرانس میں رہا۔ بعد ازاں میں نے ایلٹن اور 👇
رائل ملٹری کالج سینڈھرسٹ میں تعلیم حاصل کی ، چھ سال تک برطانیہ کے ایک فوجی افسر کی حیثیت سے ہندوستان میں خدمات سرانجام دیتا رہا، وہاں میں فوجی کام کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی وادیوں میں پولو اور شکار کھیلتا اور پہاڑوں کے چکر کاٹتا رہا۔ میں نے پہلی جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا اور 👇
جنگ ختم ہونے کے بعد مجھے اسسٹنٹ ملٹری اتاشی کی حیثیت سے پیرس کانفرنس میں بھیجا گیا۔ وہاں جو کچھ میں نے دیکھا۔ اس سے مجھے سخت صدمہ پہنچا اور میں قطعًا مایوس ہوگیا۔
مغربی محاذ پر چار سال کی خونریزی دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم تہذیب کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں 👇
لیکن پیرس کی صلح کانفرنس میں، میں نے خود غرض سیاستدانوں کو دوسری جنگ عظیم کی بنیادیں استوار کرتے دیکھا۔۔۔۔۔ ہر ملک حتی الامکان اپنا الوسیدھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قومی تعصّبات کو ہوا دی جارہی تھی اور خفیہ ڈپلومیسی کی سازشیں از سر 👇
نو زندہ کی جارہی تھیں۔
میں جنگ سے بیزار تھا، فوج سے بیزار تھا، سماج سے بیزار تھا۔ میں اپنی زندگی میں پہلی بار پریشان ہوا تھا اور یہ سوچنے میں اپنی راتیں آنکھوں میں کاٹ کر بسر کی تھیں کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے۔ لائڈ جارج نے مجھ سے سیاست میں حصہ لینے کیلئے اصرار کیا۔ 👇
میں اس کے مشورے کو قبول کرنے کے متعلق ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک عجیب چیز واقع ہوئی جس نے میری آئندہ سات سال کی زندگی کی راہیں اور خدوخال متعین کر دیئے۔ یہ ایک گفتگو کا نتیجہ تھا جو دو سیکنڈ سے بھی کم عرصے تک جاری رہی ہوگی۔۔۔۔ 👇
ایک گفتگو ''ٹیڈ‘‘ لارنس، لارنس آف عریبیا کے ساتھ۔ پہلی جنگ عظیم کی انتہائی رنگین اور رومانی شخصیت۔ وہ صحرا میں عربوں کے ساتھ رہ چکا تھا اور اس نے مجھے بھی ایسا ہی کرنے کا مشورہ دیا۔ پہلے پہل تو یہ ایک عجوبہ نظر آیا۔ تاہم میں فوج چھوڑنے کا تہیہ کر چکا تھا اور 👇
متبادل کے طور پر مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ کارخانوں اور فرموں کے مالک مجھ جیسے اشخاص۔۔۔۔ باقاعدہ فوج کے افسر۔۔۔۔ کو ملازم رکھنے کیلئے تیار نہیں تھے خصوصًا اس وقت جب کہ بازار لاکھوں بیکار مزدوروں سے بٹا پڑا تھا۔ چنانچہ میں نے لارنس کے مشورے پر عمل کرنے اور 👇
عربوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں خوش ہوں کہ میں نے ایسا کیا۔
عربوں نے مجھے پریشانی پر غالب آنا سکھایا۔ تمام مسلمانوں کی طرح وہ بھی تقدیر کے قائل ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ جو لفظ بھی قرآن پاک میں ہے وہ خدا کی طرف سے حضرت محمد ﷺپر وحی بن کر نازل ہوتا تھا۔ چنانچہ 👇
جب قرآن پاک کہتا ہے۔ ''خدا نے تمہیں اور تمہارے افعال کو پیدا کیا۔‘‘ وہ اسے لفظاً و معناً تسلیم کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی کام خراب ہو جائے، انہیں بالکل غصہ نہیں آتا۔ وہ جلد بازی اور عجلت سے کام نہیں لیتے بلکہ زندگی نہایت سکون کے ساتھ گزارتے ہیں۔ 👇
وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہو وہ ہوکر رہے گا اور خدا کے سوا کوئی اسے بدل یا بگاڑ نہیں سکتا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مصیبت کے وقت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ اس کی وضاحت کیلئے میں آپ کو صحرائے اعظم کی تندوتیز، 👇
نہایت خوفناک اور سخت جلادینے والی بادسموم کے متعلق بتاتا ہوں۔ جب میں صحرا میں رہتا تھا تو مجھے اس کا تجربہ ہوا۔ یہ بادسموم تین دن تک چیختی چلاتی اور دھاڑتی رہی۔ یہ اتنی تند، سخت اور شدید تھی کہ اس نے صحرائے اعظم سے ریت اٹھا کر ہزاروں میل دور 👇
بحیرہ روم کے اس پار فرانس کی وادی روم میں پھینک دی۔ ہوا اس قدر گرم تھی کہ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں کسی شیشے کی فیکٹری میں آتشدان کے سامنے کھڑا ہوں۔ میری حالت پاگلوں کی سی ہوگئی تھی اور ہوش وحواس جواب دے رہے تھے۔ لیکن عربوں نے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔ 👇
وہ اپنے کندھے سکیڑتے اور کہتے ''مکتوب!‘‘ ۔۔۔ یعنی یہ لکھا ہوا ہے!
طوفان کے تھم جانے کے بعد وہ فی الفور عمل پر کمر بستہ ہوگئے۔ انہوں نے تمام لیلوں (بکری کے بچوں) کو ذبح کر ڈالا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بہرصورت ہلاک ہوجائیں گے اور 👇
انہیں ذبح کرتے وقت انہیں یہ بھی امید تھی کہ وہ اپنی بھیڑوں کو موت کی آغوش میں جانے سے بچا سکیں گے۔ لیلوں کو ذبح کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ریوڑ جنوب میں پانی کی طرف ہانک دیئے۔ وہ نہ تو اپنے نقصان عظیم پر پریشان ہوئے، نہ انہوں نے واویلا کیا اور نہ شکایت کی 👇
بلکہ سب کچھ سکون کے ساتھ برداشت کر لیا۔ قبیلے کے سردار نے کہا ''کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ ہماری ہر چیز ضائع ہوسکتی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہماری چالیس فیصد بھیڑیں بچ گئیں جن سے ہم نئی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔‘‘
مجھے ایک اور واقعہ یاد ہے۔ 👇
ہم موٹر پر صحرا میں کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ہماری گاڑی کے ایک ٹائر کی ہوا نکل گئی۔ شوفر فالتو ٹائر کو درست کرنا بھول گیا تھا۔ چنانچہ ہمارے پاس صرف تین ہی صحیح ٹائر رہ گئے تھے۔ میں بہت پریشان تھا اور مجھے غصہ بھی آگیا۔ میں نے عربوں سے پوچھا 👇
کہ ''اب ہم کیا کریں گے؟‘‘ انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مشتعل ہونے سے کچھ نہیں بنے گا۔سوائے اس کے کہ کسی ایک کا پارا چڑھ جائے گا۔ انہوں نے کہا ''اللہ کی یہی مرضی تھی کہ ایک پہیے کی ہوا نکل جائے اور اب اس کے متعلق کچھ نہیں ہوسکتا‘‘ ۔
چنانچہ 👇
ہم ایک پہیے کو لیکر ساتھ گھسٹتے ہوئے چل پڑے کہ اچانک انجن پھڑ پھڑایا اور کار کھڑی ہوگئی۔ ہمارے پاس پٹرول ختم ہوگیا تھا۔ سردار نے صرف یہ کہا ''مکتوب!‘‘ (تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہے) اور دوبارہ ڈرائیور پر ناراض ہونے کی بجائے کیونکہ اس نے کافی پٹرول نہیں لیا تھا 👇
ہر شخص ساکن اور خاموش رہا اور ہم اپنی منزل پر پیدل چل کر پہنچے اور چلتے وقت راستے میں باآواز ترانے گاتے جاتے تھے۔
میں نے جو سات سال عربوں کے ساتھ گزارے، انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ امریکہ اور یورپ اعصاب زدہ، جنونی اور مخمور و مضطرب۔۔۔۔۔۔ عاجل زندگیوں کی پیداوار ہیں۔
جو کہ ہم اپنی نام نہاد تہذیب میں گزارتے ہیں۔ جب تک میں صحرا میں رہا مجھے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی، میں نے وہاں وہ غیر متلاطم اور پرسکون قناعت اور جسمانی برتری دیکھی جس کی ہمارے اکثر بھائی قنوطیت، مایوسی اور اعصابی کھنچاؤ میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔
👇
بہت سے لوگ ''جبر وقدر‘‘ کے فلسفے پر ہنستے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ٹھیک کہتے ہوں کون جنتا ہے؟ لیکن ہم سب کو اتنا جاننے کے ضرور قابل ہونا چاہیے کہ ہماری قسمتوں کو کس طرح متعین کیا جاتا ہے۔ مثلاً 👇
میں نے اگست 1919ء کے ایک گرم دن کو دوپہر کے تین منٹ ٹیڈ لارنس عریبیا کے ساتھ گفتگو نہ کی ہوتی تو میری زندگی کے یہ سارے سال جو گزر چکے ہیں، بالکل مختلف ہوتے۔ میں اپنی زندگی پر مڑکر پیچھے دیکھتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کہ بار بار حالات اور واقعات نے 👇
اسے کس طرح متشکل و مولد کیا ہے جومیرے اختیار سے باہر ہوتے تھے۔ 👇
عرب اسے ''مکتوب‘‘ ، ''قسمت۔۔۔۔ ‘‘ یا ''خدا کی مرضی‘‘ کہتے ہیں۔ آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آج صحرا کو چھوڑنے کے سترہ سال بعد بھی میں نہایت خوشی اور تسلیم و رضا کے ساتھ ناگزیر کو قبول کر لیتا ہوں۔ اور یہ بات میں نے عربوں ہی سے سیکھی تھی۔
👇
جب تندوتیز اور آتشیں ہوائیں ہماری زندگیوں کو اڑا لے جارہی ہوں۔۔۔۔ اور ہم ان سے راہ نجات نہ پاسکتے ہوں تو ہمیں ناگزیر کو بلاچوں و چرا تسلیم کر لینا چاہیے۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Muddassar Rashid

Muddassar Rashid Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Muddassar04

30 Nov
مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ
الْعَظِیْمِ اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کر لو‘ جب سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اتری تو آپ نے فرمایا 👇 Image
اسے اپنے سجدے میں کر لو-‚
ابو دائود وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی پڑھتے تو کہتے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی- حضرت علیؓ سے بھی یہ مروی ہے‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے اور 👇
آپ جب لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ پڑھتے اور آخری آیت اَلَیْسَ ذَالِکَ بِقَادِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی پر پہنچتے تو فرماتے سُبْحَانَکَ وَبَلٰی„اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے خدا کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو👇
Read 6 tweets
29 Nov
اعتقادیہ میں اہل سنت والجماعت کے دو گروہ ہیں: اشاعرہ اورماتریدیہ۔ اشاعرہ: امام ابوالحسن اشعری کی طرف منسوب ہیں، جوچار واسطوں سے ابوموسی اشعری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں، سو جو لوگ مسائل اعتقادیہ امام ابوالحسن اشعری کے پیرو ہیں وہ اشعری اور اشعریہ اور👇
اشاعرہ کہلاتے ہیں اور جو لوگ امور اعتقادیہ میں امام ابومنصور ما تریدی کے طریقہ پر چلتے ہیں وہ ماتریدی کہلاتے ہیں، اور ابومنصور ماتریدی تین واسطے سے امام محمد بن حسن شیبانی کے شاگرد ہیں جو امام ابوحنیفہ کے خاص شاگرد ہیں اور امام شافعی کے استاد ہیں، 👇
ان دونوں بزرگوں نے اصول دین اور مسائل اعتقادیہ میں بڑی تحقیق اور تدقیق کی ہے، اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے عقائد اسلامیہ کو ثابت کیا اور ملاحدہ اور زنادقہ کے اعتراضات اور شکوک وشبہات کا عقل ونقل سے ابطال فرمایا جس سے صحابہ وتابعین کا مسلک خوب روشن ہوگیا۔ 👇
Read 4 tweets
29 Nov
اللہ تعالی نے اپنے مقدس کلام میں اس امت کے ”بہترین“ ہونے کا راز یہ بیان فرمایا ہے :”اخرجت للناس“یعنی یہ امت دوسرے لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے ، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس امت کو اس دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ وہ تمام انسانیت کی فکر لے کر زندگی گزارے ،👇
یہ کتنا ہمہ گیر مفہوم ہے اور اس چھوٹے سے جملہ میں اللہ تعالی نے کتنی بڑی ذمہ داری اس امت کے کاندھے پر ڈالی ہے ، یہ مختصر سا جملہ پوری زندگی ، پوری انسانیت اور اس کی تمام تر ذمہ داریوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، اب غور کریں کہ اس امت میں یہ عنصر اور جذبہ اور 👇
اس کی عملی شکل باقی رہی یا نہیں ، یہ آیت ہمیں دعوت محاسبہ دیتی ہے اورزندگی کے صرف چند گوشوں کا محاسبہ نہیں ؛ بلکہ ایک ہمہ جہت محاسبہ کی دعوت دیتی ہے، جو تمام شعبہ ہائے زندگی کو محیط ہو۔

👇
Read 6 tweets
29 Nov
آج کل امریکی و اسرائیلی صہونیت نے اسلام کے خلاف ایک گھناؤنی اور ناپاک سازش کے تحت اسلام اور اہل اسلام کو مرتد و زندیق بنانے کی ایک زبردست منصوبہ بند کوشش رچی ہے۔ اس منصوبہ کے حوالے سے 👇
یہودی اور عیسائی اداروں، تعلیم گاہوں نے امریکہ اوراسرائیل میں، خفیہ طور پر ”فرقان الحق“ نامی کتاب ترتیب دے کر تیار کیا ہے، جس کا مقصد قرآن کو مٹانا اوراس کی تعلیم کو ختم کرکے، اہل اسلام کو باور اور تصور کرانا ہے کہ العیاذ باللہ قرآن آسمانی کتاب نہیں ہے؛ بلکہ 👇
یہ کسی انسانی محنت اور کاوش کا نتیجہ تھا جو اب تک باقی رہا۔ اب چوں کہ اس میں قدامت کی بو آگئی ہے، اس لیے ماڈرن اور نئی تہذیب کو اس سے خاطر خواہ فائدہ کے بجائے الٹا نقصان ہورہا ہے۔ اس لیے اب اس کی جگہ متبادل کے طور پر ”فرقان الحق“ نامی کتاب رہے گی۔
Read 9 tweets
29 Nov
یہود و نصاریٰ جو دنیائے اسلام کے ساتھ سب سے زیادہ عصبیت رکھنے والی معاند قوم ہے، جو ہمیشہ سے توحید الٰہ کی اسکیم کی مخالف رہی ہے، ہر وقت واجب الوجود کی ذات کے ساتھ ایسے اسباب و عوامل پیدا کرکے، انکار و الحاد اوراس کی معزز و برتر ذات کو مخدوش کرنے کے گھات میں لگی ہے، یہی وجہ ہے 👇
کہ اسلام کو جتنا نقصان یہود و نصاریٰ سے پہنچا، اتنا دنیا کی کسی دوسری قوم سے نہیں۔ اس وقت میں مغربی تہذیب کے علم بردار، یورپ اورامریکہ اپنی قدیم حرکت، اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں، اور حتی المقدور اپنی قوت و توانائی، سیاسی و نظریاتی فکر سے اسلام کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ 👇
اسلام اور اہل اسلام کے ملی، سماجی، خان دانی اور معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کمربستہ ہیں، اور اپنے اس مکروہ مقصد کی بجاآوری کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی سازش رچتے رہتے ہیں۔ اس کی زندہ ترین مثال اس وقت میں 👇
Read 4 tweets
29 Nov
قران خلقِ خدا کو آسمان و زمین کی مخلوقات میں غور و فکر اور تدبر کی طرف مسلسل دعوت دیتے ہیں، اور ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود، توحید اور علم وقدرت پر استدلال کرتے ہیں، مگر ان چیزوں میں تدبر اسی حد تک مطلوبِ شرعی ہے جس حد تک اس کا تعلق انسان کی دنیوی اور معاشرتی ضرورت سے یا 👇
دینی اور اخروی ضرورت سے ہو۔ اس سے زائد نری فلسفیانہ تدقیق اور حقائقِ اشیاء کے کھوج لگانے کی فکر میں عام خلق اللہ کو نہیں ڈالا جاتا؛ کیوں کہ اول تو حقائقِ اشیاء کا مکمل حقیقی علم خود حکماء و فلاسفہ کو بھی باوجود عمریں صرف کرنے کے نہیں ہوسکا،  بے چارے عوام تو کس شمار میں ہیں!  👇
پھر اگر انہیں کچھ حاصل بھی ہوجاتا ہے تو یقینی نہیں ہوتا، آئے روز ان کی آراء مختلف ہوتی رہتی ہیں، اور تجربات سے پہلی تحقیقات کا غلط ہونا ثابت ہوتا رہتاہے۔ اور اگر حقائقِ اشیاء کا علم سائنس دانوں کو ہو بھی جائے اور اس سے نہ ان کی کوئی دینی ضرورت پوری ہو اور نہ 👇
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!