تعلیمی ادارے، محبتیں اور وجوہات
1۔ وہ نوجوان جن کو اپنے گھر،فیملی سے اپنائیت نہیں ملتی، کوئی سننے والا ہمدرد نہیں ملتا وہ غیر ارادی طور پر دوسروں میں ہمدرد اور سننے والا تلاش کرتے ہیں،جب کوئی دوسری صنف میں ایسا مل جاے تو اسے محبت سمجھ لیتے ان کی ضرورت محبت نہیں سننے والا ہوتا
2۔ ہر انسان کا سوچنے کا انداز اور ذہنی لیول مختلف ہوتا ہے۔ جب کوی اپنے مزاج اور ہم جیسے خیالات والا دوسری صنف میں ملتا ہے تو اچھا محسوس ہوتا ہے، رابطے میں رہنے اور خیالات کے ٹکراو کا دل چاہتا ہے۔ اور اس ذہنی ہم آہنگی کو محبت سے کنفیوز کر لیا جاتا ہے، جبکہ یہ ہم آہنگی کہلاتا ہے۔
3۔ میل اور فیمیل کے درمیان قدرت نے اٹریکشن رکھی ہے۔ جب دونوں ملتے جلتے ہیں، ساتھ وقت گزارتے ہیں اور قدرتی اٹریکشن کو ہوا ملتی ہے۔ اس اٹریکشن کو بھی بعض اوقات محبت سمجھ لیا جاتا ہے
4۔ ہر انسان نے اپنے زہن میں اپنے شریک حیات کا ایک خاکہ بنایا ہوتا ہے کہ شریک حیات ایسا ہونا چاہئیے ! جب ویسا کوی سامنے آتا ہے تو اسے محبت یا بعض اوقات پہلی نظر کی محبت سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا انسان آپ کی محبت نہیں چوائس ہے۔ ایسے کئی انسان ہو سکتے ہیں
5۔ تعلیمی اداروں میں کچھ سال تعلق میں رہنے اور مل کر کام کرنے سے انسیت پیدا ہوتی ہے۔ اس انسیت کو بھی بعض اوقات محبت سمجھ لیا جاتا ہے
6۔ زہنی ہم آہنگی یا پسندیدگی کی وجہ سے مسلسل ساتھ رہنے، ملنے جلنے یا صرف فون پر ہی مسلسل اور مستقل بات کرتے رہنے سے دو انسانوں کو ایک دوسرے کی عادت ہو جاتی ہے جسے عام طور پر محبت سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ محبت نہیں عادت ہوتی ہے۔
7- ہمارے معاشرے میں نصاب، ناول، ڈراموں، فلموں یہاں تک کہ کارٹون میں بھی محبت کو زندگی کا لازمی جز دکھایا گیا ہے۔سو ہم بھی محبت کو لازمی سمجھ کر محبت کی تلاش میں بھٹکتے رہتے۔ اور زندگی بھر شک کرتے کہ یہ محبت ہے بھی کہ نہیں اور محبوب بدلتے رہتے
8 -محبت کے یہ غلط تصور ہی %90 فیصد کی محبتوں اور شادیوں کی ناکامی کی وجہ بنتی۔
9 - آخری بات!
ہمارے معاشرے میں شادی دو افراد کی نہیں بلکہ دو خاندانوں کی ہوتی تو ایک کی ماں نہیں مانتی تو دوسرے کا باپ۔اور پھر استخارہ بھی ٹھیک نہیں آتا۔
آپ لوگ بھی اپنے تجربے کی روشنی میں کھل کر رائے دیجیئے۔
(ایس اے چشتی)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh