پرانے وقتوں کی بات ہے ایک ملک کا بادشاہ تھا جو بہت رحم دل اور انصاف پسند تھا، ملک میں ہر طرف خوشحالی کا راج تھا اور پڑوسی ملک بھی بادشاہ سے ڈرتے تھے، بادشاہ کی کوئی اولاد نہ تھی، خدا کا کرنا یوں ہوا کہ بادشاہ سخت بیمار ہو گیا اور کچھ عرصہ بعد وفات پا گیا۔ اس کا وارث نہ ہونے کی
👇
وجہ سے رشتے دار آپس میں لڑ پڑے فیصلہ مشکل ہو گیا کہ کون بادشاہ بنے گا، آخر کار قابینہ نے سب کی متفقہ رائے سے یہ فیصلہ دیا کہ جو شخص صبح طلوع آفتاب سے پہلے شہر میں داخل ہو گا اس کو بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ یہ خبر شہر کے داخلی دروازے کے پہرہ داروں تک پہنچا دی گئی اور ان کو حکم
👇
دیا گیا کہ جو بندہ سب سے پہلے آئے اسے دربار میں پیش کیا جائے۔ اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے ایک بچارہ فقیر کہیں سے بھولا بھٹکا ادھر آ نکلا اور جیسے ہی شہر کے دروازے پر پہنچا، پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا اس نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے چھوڑ دو میں بس فقیر ہوں مگر پہرے دار اس کو
👇
پکڑ کر دربار میں لے گئے، جہاں قابینہ انتظار میں تھی، سب نے فقیر کو دیکھا تو حیران ہوئے مگر فیصلہ ہو چکا تھا۔ فقیر کو نہلا دھلا کر شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنا دیا گیا، فقیر قسمت کی اس مہربانی پر بہت خوش ہوا۔ قابینہ نے بادشاہ سے پوچھا کہ پہلا حکم کیا ہے، بادشاہ فقیر تھا اور
👇
بھوک وافلاس کا مارا تھا اس نے حکم دیا کہ
"پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوہ"
بادشاہ کا حکم تھا عمل شروع ہو گیا، الغرض بادشاہ کے پاس کوئی بھی مسئلہ آتا تو اس کا حل یہی نکلتا کہ
"پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوہ"
بادشاہ کے اس رویے کی وجہ سے ہستا بستہ ملک تباہ ہونا شروع ہو گیا، عوام بے حال اور
👇
فوج سست اور نکمی ہو گئی، ان حالات کی خبر جب پڑوسی ملک کے بادشاہ کو ملی تو اس نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا، یہ خبر جب بادشاہ کو ملی تو بادشاہ نے بے نیازی سے کہا کچھ نہیں ہو گا بس تم لوگ
"پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوہ"
پڑوسی ملک نے حملہ کر دیا فوج
👇
بارڈر کراس کر گئی، بادشاہ کو بتایا گیا تو اس کا جواب تھا
"پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوہ"
دشمن آگے بڑھتا ہوا شہر کے نزدیک آگیا مگر بادشاہ نے سب کو ایک ہی کام پہ لگائے رکھا کہ
"پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوہ"
جب دشمن کی فوج شہر کے دروازے سے داخل ہوئی تو بادشاہ کو خبر دی گئی، بادشاہ نے وزیر سے
👇
پوچھا کہ میری وہ پوٹلی کہاں ہے جو میں جب پہلی دفعہ آیا تھا تو میرے پاس تھی، وزیر اور قابینہ یہ سمجھے کہ بادشاہ اب کچھ خاص کرے گا، اس لیے وزیر نے جلدی سے وہ پوٹلی منگائی اور بادشاہ کے حوالے کر دی، سب یہ دیکھ کہ حیران رہ گئے کہ بادشاہ اپنی پوٹلی لے کر چل پڑا، وزیر نے پوچھا کہ
👇
بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں تو فقیر بولا،
"کون بادشاہ، میں تو پہلے بھی فقیر تھا اب بھی مانگ کر گزارا کر لوں گا، تم جانو تمھارا ملک، پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوہ۔"
یہ کہہ کر فقیر دربار سے نکل گیا اور دشمن نے ملک پر قبضہ کر لیا۔
کپتان کسی کو این آر او نہیں دے گا سے مماثلت اتفاقیہ ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ایک نکٹھو کو بیوی نے کام کاج کے لیے کہا.سست الوجود کے پاس اور تو کچھ نہ تھا ، ایک مرغی تھی اٹھائی اور بازار کو چل دیا کہ بیچ کے کاروبار کا آغاز کرے - راستے میں مرغی ہاتھ سے نکل بھاگی اور ایک گھر میں گھس گئی --- وہ مرغی کے پیچھے گھر کے اندر گھس گیا۔
مرغی کو پکڑ کے سیدھا ہوا ہی تھا کہ خوش رو خاتون خانہ پر نظر پڑی ..ابھی نظر "چار ہوئی تھی کہ باہر سے آہٹ سنائی دی۔ خاتون گھبرائی اور بولی کہ اس کا خاوند آ گیا ہے اور بہت شکی مزاج ہے ، اور ظالم بھی -
خاتون نے جلدی سے اسے ایک الماری میں گھسا دیا.
لیکن وہاں ایک صاحب پہلے سے "تشریف فرماء " تھے -
اب اندر دبکے نکٹھو کو کاروبار سوجھا ..آئیڈیا تو کسی جگہ بھی آ سکتا ہے - سو اس نے دوسرے صاحب کو کہا کہ :
"مرغی خریدو گے ؟"
اس نے بھنا کے کہا کہ یہ کوئی جگہ ہے اس کام کی ؟
"خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟"
جہیز بنیادی طور پر ایک معاشرتی رسم ہے جو ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی اور ان سے مسلمانوں میں آئی۔ خود ان کے ہاں اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔اسلام نے نہ تو جہیز کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا کیونکہ عرب میں اس کا رواج نہ تھا۔ جب
ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ اس رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔اگر
کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔سیدہ فاطمہ ؓ کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے
1980ء کے قریب کی بات ھے.
طوائفوں پر ایک ریسرچ کرنی تھی اور
ابن حسن ریسرچر کے ساتھ ایک بوڑھی طوائف سے ملنے چلے گئے۔
گرمی کا موسم تھا۔ طوائف کمرے میں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی اور رضائی لی ہوئی تھی کمرے میں جنرل کمپنی کےدو ونڈو ائرکنڈیشن
👇
چل رھےتھے۔
کچھ دیر کےبعد ابن حسن صاحب کو ٹھنڈ لگنے لگی۔
آخر انہوں نے طوائف کو کہہ ہی دیا کہ آپ ایک اے سی چلا لیں۔
ایک تو آپ کو رضائی نہیں لینا پڑے گی اور دوسرا یہ کہ خرچہ بھی بچ جائے گا۔
بڈھی طوائف نے ایک انتہائی عالمانہ اور فلسفیانہ جواب ارشاد فرمایا
👇
’’اساں ایہہ بِل کیہڑا اپنی جیب چوں دینا ہوندا اے۔‘‘
(ہم نے یہ بل کونسا اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے)
اس بات کو ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور 1990ء آ گیا ،جب لوگ پڑھ لکھ کراچھی نوکریوں پر لگ جاتے تھے۔
ابن حسن صاحب ایک دوست کے بیٹے کو ملنے چلےگئےجو اس وقت سی ایس ایس کرکے
👇
پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا ، اس کے پاس ایک شخص کا آنا جانا تھا ، جب کبھی وہ بادشاہ کے پاس آتا ، تو بادشاہ کے بازو ہی میں بیٹھتا اور کہتا کہ اے بادشاہ ! اچھے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ؛ کیوں کہ برے لوگوں کے لیے اس کی برائ ہی کافی ہے ، بادشاہ کے دربار میں ایک دوسرا
درباری تھا ، جب اس نے دیکھا کہ یہ تو بادشاہ کو نصیحت کرتا ہے اور بادشاہ بھی اس کی نصیحت غور سے سنتے ہیں اور اس کی خوب عزت کرتے ہیں ، اس طرح تو بادشاہ کی نگاہ میں اس کا مرتبہ مجھ سے بڑھ جائےگا ؛ اس لیے اس کو حسد ہونے لگا اور اس نے ایک چال چلی ، بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ
جو شخص آپ کے پاس آتا جاتا ہے اور آپ کو نصیحت کرتا رہتا ہے ، آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے ؟ بادشاہ نے کہا : نہیں ، اس شخص نے کہا : بادشاہ سلامت ! وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ آپ کے منہ سے بدبو آتی ہے ، بادشاہ نے کہا : ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس نے کہا : آپ اس