روضہ رسولﷺ کی جاروب کے پروں کو اپنا تاج بنانے والے عثمانی سلاطین!

سلطنت عثمانیہ نے سات سو سال تک صرف کسی ایک ملک پر حکومت نہیں کی بلکہ کئ ملکوں اور براعظموں پر ان کی شہنشاہی تھی۔ درجنوں بادشاہ ان کے زیر نگیں تھے۔یہ بادشاہوں کے بادشاہ تھے۔ لیکن یہ شہنشاہ خود کیا تھے؟ Image
مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک حکمرانی کرنے والے یہ شہنشاہ خود کو اللہ اور رسولﷺ کا ادنیٰ غلام سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری دولت، شہرت، طاقت، سیاست، قومیت، پر مقدم تھی۔
ایک دور تھا کہ جب مسجدِ نبوی میں حجرہ رسول ﷺ
کی صفائ کے لئے مور اور شُتر مرغ کے پنکھوں سے بنی جھاڑو استعمال کی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ استعمال کے بعد ان پروں کی جھاڑو سے پر نکال کر عثمانی حکمرانوں کے پاس بھجوایا جاتا جن کو وہ فرطِ عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگاتے، ان کو چومتے اور اپنی پگڑیوں اور تاجوں میں لگانا اعزاز اور
باعثِ فخر سمجھتے۔ بلکہ بعض سلاطین تو ان پروں کو آنکھوں سے لگا کر فرطِ عقیدت سے روپڑتے کہ ہم اس قابل نہیں کہ خاک مدینہ کو ھاتھ لگائیں یا اپنے تاج کا حصہ بنائیں۔
جہاں دنیا بھر کے بادشاہ قیمتی سے قیمتی ھیرے جواہرات اور لعل و یاقوت اپنے تاجوں میں لگانے کے شوقین تھے وہاں یہ
عثمانی سلاطین ان پروں کو اپنی پگڑی اور تاج میں لگاتے۔ اور یہی وہ عقیدت تھی جس نے ان سلاطین کو سات سو برس تک بادشاہوں کا بادشاہ بنا کر رکھا۔ اندازہ کیجئے کہ شاہِ دوجہاںﷺ کے روضے کی خاک صاف کرنے والے مور کے پنکھ پگڑی میں لگا کر دنیا کی حکومت مل سکتی ہے تو
پھر اتباع رسولﷺ میں کیوں نہ دونوں جہان کی سرخروئ ہوگی۔
سلطان سلیم اول جو کہ سلطنت عثمانیہ کے بانی تھے۔ ان کے رول ماڈل حضرت عمر ؓ تھے۔ ان شہنشاہوں کے نزدیک قانون اور عدل کی حکمرانی ہر دوسری ترجیح پر مقدم تھی۔ حضرت عمر ؓ سے عقیدت کی وجہ بھی
یہی تھی کہ ان سے زیادہ قانون کی حکمرانی اور عدل کا کوئ داعی نہ تھا۔ کہ جن کے خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ فرماتے کہ اگر فراط کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرجائے تو اس کی باز پُرس عمر سے ہوگی۔
جب خلافت عباسیہ کمزور پڑ گئ اور عباسی خلیفہ اپنے ہی محل میں قید ہو کر رہ گیا ۔ عباسی
خلیفہ کی مسلم سلطنت شدید ترین چپقلش اور ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا شکار ہو کر پارہ پارہ ہوگئ۔ سلطنت اور حکمرانی صرف نام کی رہ گئ تب ایسے میں ایک نئ طاقتور مسلم حکومت وجود میں آنا شروع ہوئ۔ یہ ترکی کی عثمانی سلطنت تھی۔ عباسیوں کو ہمیشہ عثمانی سلطنت کی
سرپرستی حاصل رہی۔ عثمانیوں سے پہلے سلجوقی حکمران بھی عباسیوں کو بھرپور طور پر سہارا دیتے تھے ورنہ عباسی اس قدر کمزور ہوچکے تھے کہ ان کے دور میں اھلسنت کے عقائد شدید خطرے سے دوچار ہوگئے تھے۔ فاطمیہ حکمران مصر سے افریقہ تک چھائے ہوئے تھے اور اپنی طاقت کے زور پر
اپنے فرقے کے عقائد اسلام کے نام پر نافذ کررہے تھے تو دوسری طرف صلیبیوں کے پے در پے حملے جاری تھے۔

برطانوی مورخ کیرولین فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب‘ میں لکھا ہے کہ ایک رات عثمان ایک بزرگ شیخ ادیبالی کے گھر میں سو رہے تھے کہ انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے سینے
سے ایک درخت اگ کر ساری دنیا پر سایہ ڈال رہا ہے۔ انھوں نے جب شیخ کو خواب سنایا تو انھوں نے کہا: ’'عثمان، میرے بیٹے، مبارک ہو، خدا نے شاہی تخت تمھارے اور تمھاری اولاد کے حوالے کر دیا ہے۔‘
یہی خواب بعد میں چھ صدیوں تک راج کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا بنیادی جواز اور اسطورہ
بن گیا جس کے سائے میں انھوں نے نہ صرف اناطولیہ بلکہ تین براعظموں کے بڑے حصوں پر صدیوں تک حکومت کی۔
اس کے ساتھ ہی آج سے ٹھیک پانچ سو سال قبل حجاز کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ حاصل کرنے کے ساتھ ہی عثمان سلطان کے پڑ پوتے سلیم اول مسلمان دنیا کے سب سے
طاقتور حکمران بن گئے۔ عام تصور کے مطابق 1517 ہی سے عثمانی خلافت کا آغاز ہوا، اور سلیم اول کو پہلا خلیفہ قرار دیا جاتا ہے، جب کہ ان سے پہلے عثمانی ’سلطان‘ یا ’پادشاہ‘ کہلاتے تھے۔

جب سلطان سلیم اول عباسی خلیفہ سے ملنے کے لئے حجاز گیا تو خلیفہ نے نبی اکرمﷺ کا
جُبؔہ و تلوار اور دستار سلطان کے سپرد کرکے اپنے آپ کو مسلمانوں کی خلافت سے دستبردار کیا۔یوں سلطان سلیم دنیا بھر کے مسلمانوں کا پہلا عثمانی خلیفہ قرار پایا۔ جبہ ۔ تلوار و دستار حاصل کرنے کے بعد جب سلطان سلیم مدینہ پہنچا تو مسجد نبوی کے دروازے سے گھٹنوں اور ہتھیلیوں پر رینگتا ہوا
روضہِ رسول ﷺ کی چوکھٹ تک پہنچا۔ وہاں یہ بے اختیار اپنی چھاتی چوکھٹ کی دھلیز کی خاک سے رگڑتا رہا اور رو رو کر آقائے دو جہانﷺ سے دعا کی درخواست کرتا رہا۔ اسی حالت میں اس کی نظر روضہ رسول کے ایک گوشے میں رکھی مور کے پروں سے بنی جھاڑو پر پڑی جو کہ روضہ
رسول کے خدام صفائ کے لئے استعمال کرتے تھے۔ سلطان نے اس جھاڑو میں سے ایک پر نکال کر اس کو توڑا اور پھر اس کو اپنی پگڑی میں اُڑس لیا۔ کہنے لگا کہ آج سے میں عثمانی خلیفہ خادم رسول ﷺ غلام رسولﷺ۔
اور پھر تمام عثمانی خلفاء میں یہ روایت
چلتی رہی اور وہ حجرہ رسول ﷺ کی جھاڑو کے پر کو اپنے تاجوں کا تاج بنائے سات سو سال تک دنیا پر حکومت کرتے رہے۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with علـــمـــی دنیــــــا

علـــمـــی دنیــــــا Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Pyara_PAK

20 Feb
پاکدامنی کا بدلہ پاکدامنی

تفسیر روح البیان میں ایک قصہ منقول ہے کہ شہر بخارا میں ایک سنہار کی مشہور دکان تھی اس کی بیوی خوبصورت اور نیک سیرت تھی ایک سقاء( پانی لانے والا)اس کے گھر تیس سال تک پانی لاتا رہا بہت بااعتماد شخص تھا ایک دن اسی سقاء نے پانی ڈالنے کے بعد Image
اس سنہار کی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر شہوت سے دبایا اور چلاگیا عورت بہت غمزدہ ہوئی کہ اتنی مدت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسی دوران سنہار کهانا کهانے کے لئے گھر آیا تو اس نے بیوی کو روتے ہوئے دیکھا پوچھنے پر صورتحال کی خبر ہوئی تو
سنہار کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بیوی نے پوچھا کیا ہوا سنہار نے بتایا کہ آج ایک عورت زیور خریدنے آئی جب میں اسے زیور دینے لگا تو اس کا خوبصورت ہاتھ مجھے پسند آیا میں نے اس اجنبیہ کے ہاتھ کو شہوت کے ساتھ دبایا یہ میرے اوپر قرض ہو گیا تها لہٰذا سقاء نے تمہارے ہاتھ کو
Read 5 tweets
19 Feb
کچھ مسلم حکمران تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے‘ شیر شاہ سوری ان میں سے ایک ہے۔ شیر شاہ ایک نڈر‘ عالی طرف اور مردم شناس مسلم بادشاہ تھا‘ رعایا پروری‘ عدل و انصاف‘ مساوات اور حسنِ سلوک کی جس نے شاندار مثالیں قائم کیں اور ایسے عظیم کارنامے انجام دیے جنہیں Image
یاد کر کے آج بھی رشک آتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سے رفاہی کام کروائے ۔ سولہویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ نو تھی جو کابل سے کلکتہ
تک پھیلی ہوئی تھی تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔ اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل
Read 8 tweets
19 Feb
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔۔۔

پہلی تصویر میں نظر آنے والی لڑکی پاکستانی طالبہ زارا نعیم ڈار ہے جس نے ACCA امتحان میں دنیا میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرکے ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی یہ قابل فخر بیٹی Financial Reporting میں سب سے زیادہ
نمبر حاصل کر کے گوگل پرائز ونر بن چکی ہیں ۔

دوسری تصویر چترال سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زبیدہ سرانگ کی ہے۔ وہ ایک اپتھالمالوجسٹ ہیں ۔ یعنی وہ آنکھوں کی بیماریوں ، آنکھوں کے مسائل اور ان کے علاج کے متعلق اسپیشلسٹ ہیں ۔ انہوں نے اس موضوع پہ ایک کتاب بھی لکھی ہے
جس کا نام ہے
"Optics Made Easy"
اس کتاب کو اس وقت کو
Best Ophthalmology books of All the time
قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی آنکھوں کے متعلق دنیا کی سب سے بہترین کتاب بن چکی ہے۔ یہ یقیناً انسانیت کےلیے بڑا تحفہ ہے۔ اس نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا ہے ۔
Read 4 tweets
18 Feb
عدنان خاشقجی کا عروج وزوال

اس عرب پتی تاجر کا نام عدنان خاشقجی تھا یہ عرب نژاد ترکی تھا،اس کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی ان کا والد شاہی طبیب تھا،یہ شخص ترکی میں قتل ہوئے صحافی جمال خاشقجی کا چچا تھا،2017 میں ان کا انتقال 82 سال کی عمر میں ہوا.ستر اور اسی کی دہائی میں اس کی Image
شہرت اور دولت کا اتنا چرچا تھا کہ شہزادیاں اور شہزادے ان کے ساتھ ایک کپ کافی پینا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے.
وہ کینیا میں موجود اپنے وسیع و عریض فارم ہاوس میں چھٹیاں گزار رہے تھے ان کی کم سن بیٹی نے آئیسکریم اور چاکلیٹ کی خواہش کی انہوں نے اپنا ایک جہاز ال 747 بمع
عملہ پیرس بھیجا جہاں سے آئیسکریم خریدنے کے بعد جنیوا سے چاکلیٹ لیکر اسی دن جہاز واپس کینیا پہنچا.
اس کے ایک دن کا خرچہ 1 ملین ڈالرز تھا.
لندن،پیرس،نیویارک،سڈنی سمیت دنیا کے 12 مہنگے ترین شہروں میں اس کے لگژری محلات تھے.
انہیں عربی نسل گھوڑوں کا شوق تھا دنیا
Read 13 tweets
17 Feb
ماں نے ڈرتے ڈرتے عالیہ کی طرف دیکھا اور بولی: بیٹی یہ اتنا سارا پھل تو کہاں سے لائی ہے؟ ابھی تو تنخواہ ملنے میں بہت دن باقی ہیں؟ ماں کی آنکھوں میں کرب تھا۔ دماغ میں جو ممکنہ "سچ" گھوم رہا ہے اسے سننے سے ڈر رہی تھی، حالانکہ اسے پتہ تھا عالیہ اس سے کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ Image
وہ بولی: امی جی آپ پریشان نہ ہوں۔ آپکو پتہ ہے میں نہ آپ کو رسوا کروں گی نہ شرمسار ہونے دونگی،
آج جب ہم ٹرمینل پر واپس پہنچے اور میں مسافروں کو رخصت کر رہی تھی تو ایک صاحب نے بس سے اترتے ہوئے میرے ہاتھ میں ہزار روپے کا نوٹ تھما دیا اور بولے بیٹا !!! یہ تمہاری عیدی ہے۔
امی جی میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ مجھے ابو بہت یاد آئے۔ مجھے یاد ہے ابو ہمارے لئے موسم کے پھل لایا کرتے تھے۔ میں نے بھی فیصلہ کیا آج گھر پھل لے کر جاؤں گی۔
امی پتہ ہے پھل خریدتے ہوئے میں کیا سوچ رہی تھی۔ روزانہ بس میں کئی لوگ مجھے گندی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اور شیطانی مسکراہٹ
Read 5 tweets
17 Feb
پاگل ٹیکسی ڈرائیور
وہ ایک خستہ حال بیہوش عورت کو لیکر ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا۔ جسکے ساتھ دو نو عمر بچے تھے۔ شکل و شباہت سے بھکاری لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو دیکھا اور بولا اس بی بی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ اگر فوری امداد نہ دی گئی تو یہ مر جائیگی۔ Image
فوری علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے" سنتے ہی بچوں نے چیخنا شروع کر دیا۔ وہ شخص کبھی ڈاکٹر کو دیکھتا، کبھی مریضہ کو اور کبھی بچوں کو۔ کیا لگتی ہیں یہ آپ کی؟ ڈاکٹر نے اس شخص کو تذبذب میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ کچھ نہیں۔ میں ٹیکسی چلاتا ہوں۔ اسے سڑک پہ لیٹے دیکھا،
اسکے پاس بیٹھے یہ دونوں بچے رو رہے تھے۔ میں ہمدردی میں یہاں لے آیا ہوں۔ میری جیب جو ہے، دے دیتا ہوں. اس نے جیب سے جمع پونجی نکال کر میز پر رکھ دی ۔ ڈاکٹر نے پیسوں کیطرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
بابا جی ! یہ بہت تھوڑے پیسے ہیں۔
ڈھیر سارے پیسے چاہئیں۔۔۔ وہ بے بسی
Read 10 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!