سونمیانی ایک ایسا خوبصورت ساحل ہے جس کی سنہری ریت اور صاف شفاف سمندری پانی کسی کا بھی دل موہ سکتا ہے- یہ ساحل اپنی خوبصورتی اور صفائی کے حوالے سے دنیا کے دیگر سمندری ساحلوں کے مقابلے میں کسی صورت بھی کم نہیں ہے-
یہ ساحل پاکستان کے
صوبہ بلوچستان کے ضلیع لسبیلہ میں واقع ہے- یہ سمندری ساحل کراچی سے تقریباً 145 کلومیٹر کی دوری پر ہے- سونمیانی کراچی کے نزدیک موجود سب سے مقبول ترین ساحلوں میں سے ایک ہے اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے-
کراچی سے سونمیانی ساحل تک کا سفر بھی انتہائی دلچسپ ہوتا ہے- اس پورے سفر میں آپ کا واسطہ کہیں بلند و بالا پہاڑوں سے پڑتا ہے تو کسی کسی مقام پر موجود ہریالی آپ کے دل کو سکون کا احساس بخشتی ہے-
سونمیانی ساحل کی شہرت کی ایک وجہ یہاں مختلف
اقسام کی مچھلیوں کا پایا جانا بھی ہے جبکہ ساحل پر پایا جانے والا اور عام نظر آنے والا ایک خاص قسم کا سفید کیکڑا بھی منفرد مقام رکھتا ہے -
اس کے علاوہ یہ علاقہ خلائی تحقیق اور ترقی کے لیے بھی قابلِ ذکر ہے- یہاں ایک خلائی مرکز بھی قائم ہے جسے سونمیانی اسپیس
پورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مؤرخین کے مطابق کسی زمانے میں سونمیانی کا ساحل ایک بندرگاہ کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیا کرتا تھا اور کاروبار کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا تھا- یہاں بحری جہاز لنگر انداز ہوا کرتے تھے اور متعدد افراد کا روزگار ان سے منسلک تھا-
تاہم بعد میں یہ سلسلہ کراچی کی بندرگاہ سے منسلک ہوگیا-
سونمیانی کا ساحل ہو اور غروبِ آفتاب کا منظر کہیں اور نہ ملنے والی یہ دونوں چیزیں آپ کو اردگرد سے بیگانہ کردیتی ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا سحر انگیز نظارہ ہوتا ہے کہ چند لمحوں کے لیے آپ
خود کو بھی بھول جاتے ہیں-
سونمیانی کے ساحل کی سیر نہ صرف تفریح سے بھرپور ہے بلکہ کئی اعتبار سے معلوماتی بھی ثابت ہوتی ہے- اور یہ ایسے یادگار اور قیمتی لمحات ہوتے ہیں جنہیں آپ کبھی فراموش نہیں کرسکتے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
امریکہ میں کلے ہانڈی ریسٹورنٹ کھولنے کا اشارہ مجھے ایک رات بحالت خواب ملا تھا کہ میرے ریسٹورینٹ میں مٹی کی ہانڈیوں میں کھانا پک بھی رہا ہے اور لوگ مٹّی کے برتنوں میں کھانا کھا بھی رہے ہیں اور پھر اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیۓ مسلسل ایک سال کی
پلاننگ ، کنسلٹنٹس کے ساتھ اس کے بزنس پلانز، ریسٹورنٹ کی اس کے نام کی مطابقت کے ساتھ تزئین، اور پاکستان بنفس نفیس جا کر وہاں 20 دن مسلسل سفر، چھوٹے چھوٹے قصبوں میں دستکاروں کے گھروں میں جا کر ان سے برتنوں اور لکڑی کی مصنوعات کی ڈیزائننگ جیسے
مراحل سے گزرنے کے بعد پاکستان بھر سےساری مصنوعات کی ایک وئیر ہاؤس میں ان کو یکجا کرنا ، ان کی نازکی کے لحاظ سے مخصوص پیکنگ ، پاکستان کسٹم کلیئرنس اور کنٹینر کی روانگی ، نیو یارک امریکن کسٹم سے کنٹینرکی کلیرنس کا مرحلہ ، پھر کسٹم ایجنٹ کی کال آی کہ
جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو ابولؤلؤ فيروز مجوسى نے نيزہ مارا تو آپ رض كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا۔
طبيب نے كہا:
اے امير المؤمنين! وصيت كر ديجيے اسليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا:
ميرے پاس حذيفہ بن يمان كو لاؤ۔ حذيفہ بن يمان وہ صحابى تھے جن كو رسول اللہﷺ نے منافقين كے ناموں كى لسٹ بتائى تھى، جس كو اللہ، اللہ كے رسول اور حذيفہ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا۔۔۔
حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر
رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا، حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں ، كيا رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں؟
حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے لگے :
اے امير المؤمنين! يہ ميرے پاس رسول اللہﷺ كا راز ہے،
انگریز افسران، جنہوں نے ہندوستان میں ملازمت کی، جب واپس انگلینڈ جاتے تو انہیں وہاں پبلک پوسٹ/ ذمہ داری نہ دی جاتی۔
دلیل یہ تھی کہ تم نے ایک غلام قوم پر حکومت کی ھے جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں فرق آیا ھوگا۔ یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی
جائے تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کروگے۔
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا۔ خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں
گزارے۔ واپسی پر اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی۔
خاتون نے لکھا ہے کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک ہندو پنڈت نے ایک اعلان کیا کہ ہندو مذہب سچا مذہب ہے اور اسلام جھوٹا مذہب ہے اور دلیل اس نے یہ پیش کی کہ ہمارا فلاں مندر جو دو ہزار سال سے
بنا ہوا ہے آج تک بالکل صحیح سالم ہے اسکی دیواریں کھڑکیاں دروازے غرض سب کچھ ویسے کا ویسے آج تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں جبکہ مسلمانوں کی مساجد ایک سال بھی نہیں گزرتا کہ رنگ روغن درودیوار دروازے کھڑکیاں سب کچھ خراب ہونا
شروع ہو جاتے ہیں لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مٹنے والا ہے اور ہندو مت باقی رہنے والا ہے مسلمانوں کی اکثریت اس پروپیگنڈا کا جواب دینے میں ناکام رہی اور اسکی وجہ سے لوگ بہت شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ اس پروپیگنڈا کا روک تھام کیسے کیا
یہ واقعہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیش آیا تھا، فرعون کے ڈوب کر مرنے کے بعد سمندر نے اس کی لاش کو اللہ کے حکم سے باہر پھینک دیا جبکہ باقی لشکر کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ مصریوں میں سے کسی شخص نے ساحل پر پڑی اس کی لاش پہچان کر اہل دربار کو بتایا۔ فرعون کی لاش کو
محل پہنچایا گیا، درباریوں نے مسالے لگا کر اسے پوری شان اور احترام سے تابوت میں رکھ کر محفوظ کر دیا۔ حنوط کرنے کے عمل کے دوران ان سے ایک غلطی ہو گئی تھی، فرعون کیوں کہ سمندر میں ڈوب کر مرا تھا اور مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کے
جسم پر سمندری نمکیات کی ایک تہہ جمی رہ گئی تھی، مصریوں نے اس کی لاش پر نمکیات کی وہ تہہ اسی طرح رہنے دی اور اسے اسی طرح حنوط کر دیا۔
وقت گزرتا رہا، زمین و آسمان نے بہت سے انقلاب دیکھے جن کی گرد کے نیچے سب کچھ چھپ گیا،
حتیٰ کہ فرعونوں
شیخ جنید بغدادی ایک دفعہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے ساتھ بغداد کی سیر کے لیے نکلے انھوں نے (بہلول)کے بارے میں پوچھا، تو کسی نے کہا سرکار وہ تو ایک دیوانہ شخص ہے،
شیخ صاحب نے کہا مجھے اسی دیوانے سے کام ہے آیا کسی نے آج اس کو دیکھا ہے؟
ایک نے کہا میں نے فلاں
مقام پر اس کو دیکھا ہے سب اس مقام کی طرف چل دیئے حضرت بہلول وہاں ریت پر بیٹھے ہوئے تھے،
شیخ صاحب نے بہلول کو سلام کیا، بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہو؟
شیخ صاحب نے بتایا، بندے کو جنید بغدادی کہتے ہیں، بہلول نے کہا وہی جو لوگوں کو
درس دیتے ہیں؟ کہا جی الحمداللّٰہ۔
بہلول نے پوچھا.......
شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟
کہنے لگے، بسم اللّٰہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللّٰہ کا ذکر کرنا، الحمداللّٰہ کہنا، اول و