سقراط! نے جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے، کوئی کتاب نہیں لکھی، کیونکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط انتہائی بدصورت تھا اور اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہ
وتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ باپ مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی۔ سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ...
سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے کہ :
" ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا، اور اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا
پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر مجھ سے کہا :
کیٹو مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش ہو گی ...
افلاطون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا :
آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا ... "
سقراط نے مسکر ا کر پوچھا :
" وہ کیا کہہ رہا تھا ...؟ "
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا :
" آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ _ _ _ "
سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروا دیا اور کہا :
" آپ یہ بات سنانے سے پہلے تین کی کسوٹی
پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے ... "
افلاطون نے عرض کیا :
" یہ استاد تین کی کسوٹی کیا ہے ...؟ "
سقراط نے کہا :
" کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو وہ سو فیصد سچ ہے ...؟ "
افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا، سقراط نے ہنس کر کہا :
پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا ...
افلاطون خاموشی کے ساتھ سقراط کا چہرہ دیکھنے لگا۔سقراط نے کہا :
" یہ پہلی کسوٹی تھی۔ ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ مجھے تم جو بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے ... "
افلاطون نے انکار میں سر ہلادیا :
" جی نہیں یہ بری بات ہے "
سقراط نے مسکر ا کر کہا :
" کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے ...؟ "
افلاطون نے انکار میں سر ہلادیا۔ سقراط بولا :
گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی
افلاطون خاموش رہا۔ سقراط نے ذرا رک کر کہا
" اور آخری کسوٹی یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو یہ میرے لیے فائدہ مند ہے ...؟ "
افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا اور عرض کیا :
یا استاد یہ بات ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں
سقراط نے ہنس کر کہا :
" اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے ... "
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنےلگا ...
سقراط کی قوت برداشت کمال کی تھی۔ شہر میں وہ واحد شخص تھا جو ننگے پیر برف پر گھومتا رہتا تھا۔ سقراط نے نوجوانی میں میدان جنگ میں بہادری کا انعام
حاصل کیا تھا۔ سقراط کا زیادہ وقت ایتھنز کے باغات اور معبدوں کے دادان میں اپنے شاگردوں سے باتیں کرتے گزرتا۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کا عجیب و غریب فلسفی اپنی طرف سے کوئی فلسفہ بیان نہیں کرتا تھا اس نے اپنے پیچھے کوئی کتاب تو کیا چار صفحوں کو کوئی چھوٹا سا مضمون بھی
نہیں چھوڑا۔ وہ کچھ نہیں لکھتا تھا۔ اس کا اپنا کوئی فلسفہ نہیں تھا وہ لوگوں کو کچھ بتانے کی بجائے ان سے پوچھتا زیادہ تھا اس کے سوال ہی اس کا فلسفہ تھا ساری زندگی ایک چادر میں گزاری۔ کسی نے اس سے کہا کہ :
" ڈیلفی کے معبد میں ایک آواز سنی گئی ہے
کہ سقراط ایتھنز کا سب سے بڑا داناٰ آدمی ہے ... "
سقراط نے ہنس کر جواب دیا :
" میں اس لئے داناٰ ہوں کہ مجھے اپنی بےعلمی کا احساس ہے ... "
ایک صبح جب سقراط بازار میں آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے خلاف مندرجہ ذیل قرارداد جرم چسپاں کی گئی ہے کہ :
" سقراط نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا پہلا جرم یہ ہے کہ وہ ان دیوتاؤں کی پرستش نہیں کرتا جن کو یہ شہر پوجتا ہے، اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے نئے دیوتا لے آیا ہے۔ دوسرا جرم اس کا یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو بگاڑتا ہے، لہذا اس کی سزا موت ہے ... "
اس الزام آرائی کے پیچھے سب سے بڑا محرک انی ٹس نامی ایک چمڑا فروش تھا۔ اس کو سقراط کے خلاف ذاتی بغض تھا۔ بات یہ ہے کہ سقراط نے اس کے بیٹے کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کھالوں اور چمڑے کا کام چھوڑ کر فلسفے سے ناتا جوڑے۔ انی ٹس کا اصرار تھا کہ اس کے بیٹے کو گمراہ کرنے کی کوشش
کی گئی ہے، اس لئے سزا موت سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ یوں چمڑا اور علم ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ فتح چمڑے کو حاصل ہو گئی۔ سقراط کو گرفتار کر لیا گیا اس پر مقدمہ شروع ہو گیا۔ سقراط چاہتا تو موت کی سزا سے بچ سکتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ایتھنز کے قانون کے میں یہ گنجائش موجود
تھی کہ موت کی سزا پانے والا کوئی شخص جلاوطنی کو متبادل سزا کے طور پر چن سکتا تھا۔ گویا جس شخص کو موت کی سزا ملتی تھی اس کو یہ اختیار بھی مل جاتا تھا کہ وہ اپنی ریاست سے باہر چلا جائے اور یوں موت کی سزا سے بچ جائے۔ سقراط یہ اختیار کر سکتا تھا مگر وہ اس طرح بچ نکلنے پر تیار
نہیں تھا ...
اس کا وقت آ چکا تھا اور وہ جانے کے لئے تیار تھا۔ جب سقراط کی زندگی کا آخری دن آیا تو اس کے کئی شاگرد اس سے جیل ملنے کے لیے آئے۔ شاگرد سقراط کے گرد جمع ہیں۔سقراط نے ان میں سے ایک کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ اس کے بالوں کو چھوتا ہے اور ساتھ ہی
ساتھ زندگی، موت اور روح کی ابدیت کے بارے میں اپنے خیالات بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ :
" موت تو ابدی نیند ہے، وہ خود فراموشی کی میٹھی ابدی کیفیت ہے، جس میں کوئی ایذا رسانی نہیں، کوئی ظلم اور ناانصافی نہیں، کوئی مایوسی نہیں اور نہ ہی دکھ درد
ہے یا پھر وہ ایسا دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم زمین سے جنت میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ ایسی غلام گردش ہے جو ہمیں سیدھی خدا کے ایوان میں لے جاتی ہے اور دوستوں وہاں کسی کو اس کے خیالات کے باعث صلیب نہیں چڑھایا جاتا، لہذا ہنسو اور میرے جانے پر افسوس نہ کرو۔ جب تم میری قبر میں
اتاروگے تو جان لینا کہ تم بس میرے جسم کو دفن کر رہے ہو میری روح کو نہیں ... "
جب اس کو موت کی سزا دی گئی اس کے شاگرد جیل کی کوٹھڑی میں اس سے ملنے آئے ایک شاگرد نے کہا :
افسوس ہمارے استاد کو بےگناہ مارا جا رہا ہے
سقراط نے زیر لب تبسم کے ساتھ کہا :
" تو کیا تم چاہتے تھے کہ میں گناہ کرنے کے بعد مارا جاؤں ...؟ "
مرنے سے چند لمحے پہلے سقراط کے ایک شاگرد نے اس سے پوچھا :
" آپ کو کہاں دفن کیا جائے ...؟ "
سقراط نے جواب دیا :
" اگر میں تمہارے ہاتھ آجاؤں تو جہاں جی چا ہے دفن کر دینا ... "
سقراط نے ہنستے ہوئے اپنے
روتے ہوئے شاگردوں کے سامنے زہر کا پیالہ پی لیا۔ یہ واقعہ ایتھنز میں 399 قبل مسیح پیش آیا۔
یہ تحریر فیس بک سے لی گئی ہے، ویسے میں خود لکھ لیتا مگر یہ مجھے بہتر لگی تو شئیر کر دی، اکثر دوست سقراط کی ڈی پی کی وجہ سے مجھ سے سوال کرتے ہیں،امید ہے ان کے سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔
🤐
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کسی شہر مین ایک رقاصہ رہتی تھی، جسے ٹھیک سے ناچنا نہیں آتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز اسے کسی دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس شہر میں اس نے اپنے آپ کو ایک نامور رقاصہ مشہور کردیا۔ رقاصہ کو دعوت دی گئی۔ اس کے رقص سے محظوظ اور لطف اندوز ہونے کے لیے شہر کے شوقین اکھٹا ہوئے۔ وہ ٹھیک سے
ناچنا تو جانتی نہیں تھی، مرتی کیا نہ کرتی۔ ناچنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور ناچار ناچنا شروع کیا، مگر ناچ نہ سکی۔ اپنے عیب کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کے لیے اس نے کہا، ٹھیک سے ناچوں تو کیسے؟ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔ اس پر کسی نے فقرہ کسا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔”
کہاوت کا مطلب ہے "نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نہ ہوسکنا۔” یہ مثل اس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے یا اس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر الزام رکھے۔
اس کی زندہ مثال کپتان اور اس کی حکومت ہے جو لگ بھگ تین سال پورے کرنے کو ہے
ظفر صاحب ٹویٹر پر ہر انسان چاہے وہ بچہ، جوان ، بوڑھا ہو یا کوئی لڑکی، عورت یا خاتون الغرض کوئی بھی ہو، اس بات سے قطع نظر کہ اس کی فالونگ زیرو ہے یا ملین میں میرے لیے سب کی عزت برابر ہے، اگر آپ کی کسی سے نہیں بنتی یا وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا تو بلاک کا آپشن حاضر ہے، آج 👇
میں خود کو تو چول کہہ سکتا ہوں مگر کسے دوسرے کو ایسا ہرگز نہیں سمجھتا، میرے خیال میں جو جیسا خود ہوتا ہے اس کو سب ویسے ہی نظر آتے ہیں، اچھائی تلاش کرنے والے کو اچھائی ہی ملتی ہے اور برائی کے متلاشی کو حرام ملتا ہے، آپ بزرگ ہیں قابل احترام 🙏
مگر خدارا دوسروں کی عزت نفس کا بھی
👇
خیال رکھیں، بہت سے لوگ کمنٹ کرتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی مگر میں سب سہتا ہوں، عزت اسی کی ہوتی ہے جو عزت دینا جانتا ہو، اتفاق دیکھیں آپ کا کمنٹ اور مجھے واٹس ایپ پہ آپ کے بارے میں سیم خیالات کا اظہار کیا گیا کسی دوست کی جانب سے جس کا دل آپ نے دیکھایا، اب بتائیں میں کس کی بات
👇
جنگل میں شیر نے حکم جاری کر دیا کہ آج سے ہر سینئر جانور جونیئر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا ہے
باقی جانورں نے تو اسے نارمل لیا پر چیتے نے خرگوش کو پکڑ لیا اور رکھ کے چپیڑ کڈ ماری
اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں نہیں پہنی #پیرس_کی_ٹوپی
خرگوش بولا سر میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا
چیتے نے کہا اوکے جاؤ
اگلے دن فیر خرگوش چہل قدمی کر رہا تھا چیتے نے اسے بلایا اور رکھ کے ایک کان کے نیچے دی اور پوچھا ٹوپی کیوں نہیں پہنی
خرگوش نے روتے ہوے کہا سر کل بھی بتایا
تھا کہ کان لمبے ہیں نہیں پہن سکتا
چیتے نے کہا: اوکے گیٹ لاسٹ
تیسرے دن فیر چیتے نے سیم حرکت کی تو خرگوش شیر کے پاس گیا اور ساری کہانی بتائی ۔
شیر نے چیتے کو بلایا اور کہا ایسے تھوڑی چیک کرتے ہیں اور وی سو طریقے ہیں
جیسے تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو جاؤ
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا
اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے
اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے
شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت
خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد
مالدیپ جو صرف 2 ماہ میں بدھ مت چھوڑ کر پورا مسلمان ملک ہوا !
مالدیپ بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے، یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے۔
مالدیب کی ٪100 آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔
عجیب بات یہ ہےکہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں۔
وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ
مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت (جن) مسلط تھا، وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے
ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیں، جن کی ڈیمانڈ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا۔ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے رضامند ہوجاتا ہے۔
دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔ وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے ۔
ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں
میں کام کرتا ہوں ۔ کھانے کے لیے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچا دیا کرو ۔
بیوی راضی ہوجاتی ہے۔
وقت گزرتے گزرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے
جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گزارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے
گا۔ یوں وہ باپردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے۔اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بے پردگی تک لے آتا ہے۔
وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے۔ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہسنے لگتا ہے۔بیوی سبب پوچھتی ہے۔
تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر