ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا
اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے
اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے
شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت
خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد
بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹیمپل-رن براوؤ کھیل رہا ہونگا تو سب کی نظر میری اچیومنٹس پر ہوگی۔ میں دی-کرس اور مشینیریم جیسی ذہنی گیمز کھیلوں گا تو سب دوست مجھ سے جلیں گے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا۔ بہن بھائی جہاں بھی گیم میں اٹکیں گے تو مجھ
ہی پکارا جائے گا۔دوست احباب پائریٹڈ گیمز کے لیئے میرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ ہر کوئی پوچھے گا مجھ سے کہ یہ جیل بریک کیسے ہوگا۔ امی جب ون ٹچ ڈرائنگ جیسی بچگانہ گیمز پر دو دو گھنٹے اٹکی رہیں گی تو میں دل کھول کر مذاق اڑاؤں گا۔
اور تو اورابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز
بن جاؤں گا جیسے کوئی بلیک بیری۔جتنے بھی تھکے ہونگے مجھے کہیں گے کہ میری ٹیبلٹ پر بھی یہ والی گیمز کر دو نہ۔ الغرض سب کو خوب ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکالوں گا۔
اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے اس نوکیا 1210کی جگہ آئی-پیڈ-III لے دے۔
ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا کمینہ بچہ ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے پیسے کا کیسے اجاڑا کرنا چاہتا ہے۔
ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“
کا لکھا ہوا ہے۔
اپنے بچوں کا خیال رکھیں، حالات بہت خراب ہیں اس جنریشن کا کوئی بھروسہ نہیں، اگر موبائل لے کے دینا ہے تو اچھا لے کے دیں۔
😁😁
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
مالدیپ جو صرف 2 ماہ میں بدھ مت چھوڑ کر پورا مسلمان ملک ہوا !
مالدیپ بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے، یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے۔
مالدیب کی ٪100 آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔
عجیب بات یہ ہےکہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں۔
وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ
مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت (جن) مسلط تھا، وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے
ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیں، جن کی ڈیمانڈ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا۔ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے رضامند ہوجاتا ہے۔
دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔ وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے ۔
ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں
میں کام کرتا ہوں ۔ کھانے کے لیے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچا دیا کرو ۔
بیوی راضی ہوجاتی ہے۔
وقت گزرتے گزرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے
جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گزارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے
گا۔ یوں وہ باپردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے۔اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بے پردگی تک لے آتا ہے۔
وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے۔ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہسنے لگتا ہے۔بیوی سبب پوچھتی ہے۔
تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر
ایک سنار کے انتقال کے بعد اس کا خاندان مصیبت میں پڑ گیا. کھانے کے بھی لالے پڑ گئے.
ایک دن اس کی بیوی نے اپنے بیٹے کو نیلم کا ایک ہار دے کر کہا 'بیٹا، اسے اپنے چچا کی دکان پر لے جاؤ.
کہنا یہ بیچ کر کچھ پیسے دے دیں.
بیٹا وه ہار لے کر چچا جی کے پاس گیا.
چچا نے ہار کو اچھی طرح دیکھ اور پرکھ کر کہا بیٹا، ماں سے کہنا کہ ابھی مارکیٹ بہت مندا ہے. تھوڑا رک کر فروخت کرنا، اچھے دام ملیں گے.
اسے تھوڑے سے روپے دے کر کہا کہ تم کل سے دکان پر آکر بیٹھنا.
اگلے دن سے وه لڑکا روزانه دکان پر جانے لگا اور وہاں ہیروں و جواہرات کی پرکھ کا کام
سیکھنے لگا.
ایک دن وه بڑا ماہر بن گیا. لوگ دور دور سے اپنے ہیرے کی پرکھ کرانے آنے لگے.
ایک دن اس کے چچا نے کہا، بیٹا اپنی ماں سے وه ہار لے کر آنا اور کہنا کہ اب مارکیٹ میں بہت تیزی ہے، اس کے اچھے دام مل جائیں گے.
ماں سے ہار لے کر اس نے پرکھا تو پایا کہ وه تو جعلی ہے.
آج سے بیس ہزار سال قبل افریقہ کے ایک دور دراز علاقے میں ایک گھنے جنگل کے بیچ ایک آدم خور قبیلہ رہتا تھا، کہتے ہیں کہ اس وقت تقریباً آدھی دنیا کے انسان وہ کھا چکے تھے اور جو انسان بقا کی جنگ لڑ رہے تھے ان میں اس قبیلے کو لے کے شدید خوف ہراس پایا جاتا تھا اور لوگ چھپ کر رہنے پر
👇
مجبور تھے، بچے کھچے انسانوں نے بہت سوچ بچار کی کہ آخر کیسے اس آدم خور قبیلے سے انسانوں کو بچایا جائے، مگر ساری کوششیں بےکار گئیں، آدم خور پوری دنیا میں گھومتے اور جو انسان نظر آتا پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور آگ کا بڑا آلاو جلا کر اس پر زندہ بھونتے اور ساتھ میں رقص کرتے، پھر
👇
اختتام پہ انسانی گوشت سے ضیافت اڑائی جاتی۔ کچھ لوگوں کا ایک گروہ چھپتا چھپاتا عرب کے صحرا میں پہنچا تو آدم خوروں کی ایک ٹولی بھی ان کے تعقب میں ادھر نکل آئی، سب کو جان لے لالے پڑھ گئے اچانک ان کو کچھ درخت نظر آئے جو کہ بہت عجیب تھے سب نے پر چڑھ کر جان بچانے اور چھپنے کا فیصلہ
👇
کوئی کالی قمیض ہوندی
دل نہیں رج سکدا
تھرک انج دی چیز ہوندی
یہ ماہیے کے الفاظ ہر طرف گونج رہے تھے۔ جب ہم ٹھرکی بابا کے آستانے پر پہنچے۔ کیونکہ ایک معتبر دوست کے حوالے سے ملاقات کا وقت متعین تھا، اس لیے ملاقات اور گفتگو میں دشواری پیش نہ آئی۔ ہمارا
پہلا ہی سوال تھا، آپ کو ٹھرکی بابا کیوں کہا جاتا ہے؟ اور پھر علم کے وہ روشن نقطے انھوں نے ہمیں بتائیے جو ہم آج آپ کے لئے قلم بند کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں کتابوں میں پڑھا تھا: جتنا ہو سکے پیار بانٹو، جب عمل شروع کیا تو سب ٹھرکی سمجھنے لگے۔ شروع شروع میں برا لگا لیکن
جب تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ٹھرکی ایک فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خواتین کا خیر خواہ اور مزید تحقیق سے پتا چلا ٹھرکی وہ واحد مکتبہ فکر ہے، جو رنگ و نسل، مذہب و فرقے اور ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچتا ہے شاید اسی لئے عموماً ٹھرکی کی پہلی محبت اس
ایک آدمی سڑک پہ جا رہا تھا ، پیچھے سے آواز آئی، رْک جا ورنہ مارا جائیگاوہ آدمی رْک گیا دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے سامنے ہی ایک آئل ٹینکر اچانک الٹا اور اس میں آگ بھڑک اْٹھی- وہ آدمی بال بال بچ گیا۔
ا گلے ہی وہی آدمی اگلے روز باغ کی سیر کر رہا تھا کہ آواز آئی رْک جا ،
👇
ورنہ مارا جائیگا- وہ آدمی اً فور جہاں تھا وہیں رْک گیا-عین سامنے ایک درخت کڑکڑاتا ہوا اس کے چند قدموں کے فاصلے پرگرا اور وہ آدمی صاف بچ گیا اس کے جسم سے پسینہ پانی بن کر بہنے لگا اس نے خداکا شکرادا کیا۔ وہی آدمی اگلے روز پچاس روپے کی دہی لینے دودھ کی دکان پہ جارہا تھا کہ
👇
آواز آئی رْک ، ورنہ مر جائے گا- وہ رْک گیا- اسی وقت سامنے والے کھمبے سے ایک تار ٹوٹ کر گری ایک بھینس پر گری اس نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی ، اور وہ پھرآدمی صاف بچ گیا۔
چند دنوں وہی آدمی موٹر سائیکل پر اپنے دفتر سے گھرجانے کے لئے نکلا ابھی کچھ دورہی گیا ہوگا و ہی آوازگونجی