Suhagan & Duhagan of Aror
___
Few years back I returned to Pakistan on short trip
There I drove parents from Karachi to my sister's at Fort Abbas
We made a brief stop at Daewoo Terminal Sukkur
In a hurry to reach destination in same day's journey I missed a landmark by few miles
From Daewoo's Terminal if we take a flight heading east across the scorched 'Rohri Heights', which now has turned into a quarry, in 5 miles we reach the Ancient Seat of Hindu Kings, Aror
There on a barren hilltop under giant power lines stand two peculiar tombs as if hand-placed
Now if you have read @MahimMaher's beautiful article she'd tell of a caretaker of these tombs and his grief
'At night Mohanlal talks to Duhagan-Suhagan. How were you built, he asks them. How can I fix you? The tombs do not speak.'
The tombs do not speak, but the folk ballads do
In MBQ version 2.0 we are told of a boat of Muslim immigrants afloat the peaceful waters of Mehran near Aror when it was attacked by pirates who killed men and held women & children captive
Of these two women prayed for divine protection and were swallowed by the hills of Aror
In our folk tales of sensitive issues where there's a foul play sensed we happily let our ladies to be interred alive (and well)
May it be Sassi of Bhanbhore or seven friends of Satiyan jo Asthan
Ironic that in this 'Land of Pure' being pious is actually being six feet under!
Back to our live burials on the hills of Aror
One of the women was a happily married lady, so we are told, hence Suhagan and other was a grieving widow, a Duhagan
So on the fair estimate of site of burials people of Aror raised two tombs to commemorate both Suhagan and Duhagan
'A Gazetteer of the Province of Sindh' published 1876 tells that these are the tombs of two syeds, Shakar Ganj Shah and Khatal-ud-Din Shah
The former "a plain white sepulcher is a site of frequent pilgrimage"
Nothing much is revealed on the identity of saints interred here
Mystic tradition offers another interpretation of our words of interest here
There are two sorts of people in the world, the ones devoted to their creator hence merry, Suhagan and the other kind devoted to one's own self 'Manmukh' hence grieved, Duhagan
Although not linked to actual repute of our saints an unexplained tradition places the tomb of Shakar Ganj, the one towards north as Suhagan
Popular legend puts him to be contemporary of Sehwan's Qalandar but that would be misleading to deduce an estimate on date of construction
Our architect historian Kamil Khan Mumtaz while expressing his interest in learning more about these structures places them in the Sultanate Period, somewhere between Nausherwani Baluch monuments and Lal Mahra Sharif
We talked of the latter in another thread, as for the former, it brings to life that evergreen legend of Nikodar and, dear readers, when it comes to #storytelling who would settle less than best of the best, our very dear @odysseuslahori
Salman while taking a trip to funerary monuments known as Nausherwani Tombs on the verge where Baluchistan meets Iran, tells us the legend of Nikodar
in a 13th century tale of bandits
Swift was their outreach, fierce was their plunder and legendary their chief Nikodar or Nogodar
Now the band disintegrated after Nikodar was killed
The tombs they left in the valley of Kharan with an evidence of mass burial are still a puzzle piece
Made of exposed brickwork these if related to our tombs of Suhagan and Duhagan put their timeframe around 13th Century CE
So much for our tale of Suhagan and Duhagan
My readers interested in Mazar e Nikodar (Nausherwani Tombs) will find this from @odysseuslahori an interesting read
Icing on the cake: @odysseuslahori is holding onto a photograph of a tablet from Mazar e Nikodar that "depicted a man with a jazail, long-barrelled muzzle-loading gun, in pursuit of a trio of fleeing ibex"
This puts the timeline estimate of these tombs into considerable doubt
The tablet on the tomb as per Salman is long gone, as for the photograph it's secretly guarded in Salman's den
Those interested to lay their eyes may visit @odysseuslahori , he is a warm host
pro tip: bring along some chocolates
آخری آرام گاہ
حاجی محمد عالم لوہار
ـــ
کاکول اکیڈیمی میں ہر چھ ماہ کے بعد ٹرم کے اختتام پر ایک ماہ کی چھٹیاں ہوتیں تو ایبٹ آباد میں اترتی شام کے دھندلکے میں بیرونی گیٹ پر نصرتِ خداوندی سے دی جانے والی فتح کی بشارت کے جلو میں ایک میلہ سجتا۔ اس دن اکیڈیمی کا پارکنگ لاٹ
ایک چھوٹے موٹے لاری اڈے کا منظر پیش کرتا۔ پنڈی وال کیڈٹ تو کوسٹرز اور ویگنوں میں بیٹھ مریڑ چوک یا پھر سیروز سینما کی راہ لیتے۔ لاہوریوں کو لے جانے والی بڑی فلائنگ کوچ بسیں ہوتیں جو کاکول سے بادامی باغ کی شست باندھے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی چلتی چلی جاتیں۔
ہم گنتی کے مسکین کراچیائٹ ایک لمبے سفر کو دو حصوں میں بانٹ پہلی تقسیم میں انہی فلائنگ کوچوں میں لاہوریوں کے ہم سفر بنتے۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ کوچیں لاری اڈے پہنچتیں تو ہم کراچی والے لاہور ریلوے سٹیشن کے بکنگ کلرک کی بند کھڑکی کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے کہ بعد از فجر
دنیا کے لذیذ ترین ٹھپّر
نور والوں کا ڈیرہ
ـــ
غالباً کیا یقیناً رمضان کا مہینہ تھا، وہ اس لیےکہ روزوں کے ہی دن تھے جب بھوک کے عالم میں جمعے کی نماز اور افطار کے درمیان اپنے اشفاق احمد کا لکھا یہ اشتہا انگیز قصہ پہلے پہل پڑھا۔ تب انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی چار برس بیت چکے تھے۔
ٹل پوسٹنگ کے دنوں میں ہمارے کمانڈنگ افسر کرنل بھٹی ہمارے ’کتاب دوست‘ بنے۔ اگوکی میں یہ ’اعزاز‘ کیپٹن بخاری کو حاصل تھا جو یونٹ ایڈجوٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹ محض اس بنا پر بنے کہ کتب بینی اور موسیقی میں ہمارا ذوق بہت ملتا تھا۔
اگوکی کی عباسیہ سے ٹل والی میڈیم رجمنٹ میں پوسٹنگ ہونے پر ہمارے مطالعاتی شوق نے بھی ترقی پائی اور ایڈجوٹنٹ سے کئی درجے اوپر اب یونٹ کے سی او سے یاری گانٹھ لی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کو ’یاری گانٹھ لینے‘کی اس ترکیب میں مبالغے کی آمیزش نظر آئے تو صاحبو ایک
گورا جھوٹ نہیں بولتا
سکول بس کی فلیشنگ لائٹس، ڈیف چائلڈ ایریا
ـــ
شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیوں کے برعکس بہت پرانی بات نہیں ہے، ایک دہائی سے بھی کم کا قصہ ہے، اور پھر یہ بھی تو شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں ہے۔
🧵
تو صاحبو ایک دہائی سے چند ایک برس اِدھر کا قصہ ہے جب زندگی اور اس کے محلِ وقوع نے کروٹ بدلی اور ہم اس دیس کو پدھارے تو ہمارے عزیز دوست نے یاد دہانی کروائی کہ ’بھائی جا‘ اب گریٹ وائٹ نارتھ جارہے ہیں۔
ہمارے من پسند شاعر سلیم کوثر نے کہا تھا
تمھیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کرلیتے
الحمدللہ زندگی میں کوئی گھٹن نہیں تھی اور نہ ہی اس کا خوف، مگر اپنی جنم بھومی، ایک عمر کے یارانوں اور دوستیوں اور جس دھرتی کے شہروں اور قصبوں سے عشق کیا تھا،
بیدیاں کے غازی
جیسور کے باغی
ـــ
مشرقی بنگال کےآتش بجانوں کو سلام
لاہورمیں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈکی زیرِنگرانی اس فوجی قبرستان میں پینسٹھ کی جنگ کے شہیدوں کی قبریں اوریادگاریں ہیں۔ یہیں ایک یادگاراپنی جنم بھومی سےہزاروں میل دورلڑنےوالوں کو
یادکرتی ہےجو اتنی مداراتوں کےبعدبھی اجنبی ٹھہرے۔ یہ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ عرف سینیئرٹائیگرزکےپندرہ شہداء کی یادگارہےجوپینسٹھ کی جنگ میں وطن پرنثارہوگئے۔
لاہورسےقصورکی نیت کرتےہوئےفیروزپورروڈ پکڑیں توقریب قریب نصف راستےکی مسافت پرللیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے۔
مین روڈ کے ساتھ للیانی کےقبرستان میں بھی گنجِ شہداء کے نام سے ایک گوشۂ سکون ہے جہاں ایک چاردیواری میں فاتحِ کھیم کرن 5 فرنٹیئرفورس کے وہ سپوت دفن ہیں جو ستمبر پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن اور اس سے کچھ آگے کی مفتوحہ زمینوں کو دونیم کرتے شہید ہوئے
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
غازۂ رُوۓ شھادت زینتِ قوم و وطن
عزیز بھٹی کی کہانی
ـــ
تارڑ صاحب کی راکھ کی طرح ۔۔ چارچیزیں ہیں ۔۔ جو مجھے لادیاں بلاتی ہیں ۔۔ ان میں ایک کھاریاں چھاؤنی سے پھولوں کی چادر چڑھانے کی فل ڈریس ریہرسل ہے ۔۔ اور کچھ کھُدےان کھُدے مورچوں سے پلٹتی کوٹلہ ارب علی خان کی اداس شام ہے ۔۔
اور منگلا کینٹ میں ایک ہم نفس کی معیت میں یادوں سے دُھل کے نکلتی رات ہے ۔۔ اور برکی کی قربت میں بی آر بی نہر ہے ۔۔
نشانِ حیدرکاتغمہ اپنی چوڑی چھاتیوں پر سجائے، ہمارے جانبازوں کی تربتوں تک، جن تک کہ ہم پہنچ پائے، خود کھوجتے ہوئے پہنچے، ماسوائے ایک شہید کے۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید وہ ہیں جنہوں نے خود ہمیں بلاوہ بھیجا، ایک دفعہ کی بات نہیں، پورے چار مرتبہ۔ گجرات کے شمال اور کھاریاں کے مشرق میں ایک چھوٹا سا گاؤں لادیاں، جسکا نام شاید کھاریاں ہوتا اگر اکبرِ اعظم کے دور میں جب یہ پہلے پہل آباد ہوا قرعۂ فال کھاری گوت کے نام کا نکل آتا،
پرکاش پانڈے، جمعدار میروان خان
اورمیاں میرکےپانچ سوگمنام شہید ۔ تیسرااورآخری حصہ
ـــ
آرتھرموفٹ لینگ بنگال انجینیئرزمیں فرسٹ لیفٹیننٹ تھاجب اس نے1857 تا 59 لگ بھگ دوسال کاعرصہ ہندوستان میں گزارا۔ مئی کےوسط میں میرٹھ سے’بغاوت‘ کی خبرلاہورپہنچی تو لیفٹیننٹ لینگ لاہور میں تعینات تھا۔
ہمارے فرسٹ لیفٹیننٹ کی ڈائری وسط مئی سے جولائی کے آخری ہفتے تک لاہور میں گزرے واقعات کا ایک مستند روزنامچہ ہے۔ لینگ نے 25 جولائی کو دلی کا سفر اختیارکرنے سے پہلے کا وقت میاں میر اور انارکلی میں گزارا۔ میرٹھ سے بغاوت کا ٹیلیگرام موصول ہونے کے اگلے دن 13 مئی کا اندراج ہمیں بتاتا ہے
کہ بنگال ہارس آرٹلری کی بارہ توپوں اور کوئینز اون 81st رجمنٹ آف فُٹ کی چھ مسلح کمپنیوں کے ہتھیاروں کی زد پر اپنے ہتھیار اٹھائے نیٹو بنگال انفنٹری کی تین پلٹنیں 26, 16 اور 49 اور 8 کیویلری کی پوری رجمنٹ میاں میر کے پریڈ گراؤنڈ میں کھڑی تھیں۔ جب بریگیڈیئر کاربٹ نے کہا کہ