125 کروڑ سے زائد آبادی والے ہندو مذہب کے اکلوتے ملک ہندوستان میں "کمبھ کا میلہ" ایک بہت بڑا تہوار ہوتا ہے جہاں پورے ہندوستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندو اکٹھے ہوتے ہیں۔
اس سال یہ اکٹھ ہندوستان کو بہت مہنگا پڑ گیا۔ اور وسیع پیمانے پر کرونا ہھیلانے کا سبب بن گیا۔
کمبھ میلے میں شریک ہونے والوں کی تعداد 30 سے 50 ملین بتائی جاتی ہے جہاں ہندو مذہب کے مطابق یہ دریائے گنگا میں اشنان کرکے اپنے پاپ دھوتے ہیں۔
مشہور گانا تو سنا ہو گا۔
"رام تیری گنگا میلی ہو گئی پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے"
ثابت یہی ہوتا ہے کہ سماجی فاصلہ برقرار نہ رکھنے سے کرونا کو لوگوں نے خود دعوت دی۔ نتیجتاً اب ہندوستان میں کرونا سے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے ہندوستان کے شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑ چکی ہے۔
بہتر یہی ہے کہ اس سے سبق سیکھا جائے اور عبرت حاصل کی جائے
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ختم ہونے کے بعد ملک بھر کے بازاروں میں رش بےانتہا بڑھ چکا ہے۔ جہاں SOPs کا خیال کرتا کوئی بھی نظر نہیں آتا۔
اگر آپ کسی بازار کا چکر لگائیں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ اس رش میں دوسروں کا سانس آپ کے منہ یا جسم کے کسی دوسرے حصے پر نہ پڑے۔
خواتین کی شاپنگ بھی عجیب ہوتی ہے۔ بالخصوص عید کی شاہنگ ایک بار جائیں گی تو دو تین چیزیں خریدیں گی پھر دوسرے دن مزید چیزیں خریدیں گی اور ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ دو تین بار بازار جانے تک بھی ان کی چیزیں پوری ہو جائیں اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی چیز پھر باقی نہ رہے۔
کرونا کو غیر سنجیدہ لینے کا رویہ ترک کرنے میں ہی بھلائی ہے۔ مگر افسوس ہماری اکثریت اس کو قطعا سنجیدہ ہو کر اپنانے کو تیار نہیں۔
ہندوستان کے ساتھ ہمارے سماجی رابطے کافی کم ہیں تاہم چاہئے یہ کہ فوری طور پر واہگہ بارڈر کے راستے آمدورفت بند کی جائے۔
کرونا کتنی تکلیف دیتا ہے شاید میں بہتر طریقے سے بیان کر سکتا ہوں کیونکہ میں اس کو فروری 2021 میں بھگت چکا ہوں۔
عجیب طریقہ سے بےچین کرنے والا بخار ہوتا ہے۔ ناک بند ہو جاتی ہے خوشبو اور بدبو کا پتہ نہیں چلتا۔ سانس لینے میں انتہائی دشواری ہو جاتی ہے۔
انسان کے جسم کے (جاری)
ہر حصے میں بالخصوص پسلیوں میں شدید درد ہوتی ہے۔ انسان جب اپنے ہی جسم پر ہاتھ پھیرے تو یوں لگتا ہے کہ اس کے اوپر والی جلد تو ہے ہی نہیں اور یوں لگتا ہے جیسے اوپری جلد کسی نے کھینچ کر اتار دی ہے اور انسان اپنے جسم کے جلد کے بغیر اندرونی زخمی گوشت پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔
نظام ہضم بالکل آوٹ آف کنٹرول ہو جاتا ہے جو کچھ بھی کھاو پیئو منٹوں میں جیسے ہضم ہو جاتا ہے اور بار بار رفع حاجت کے لئے واش روم میں جانا پڑتا ہے۔
منہ کے راستے سانس لیتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے اور جتنی بار سانس لو پسلیاں درد کرتی ہیں۔
انسان بستر پر لیٹتے بھی شدید تکلیف +
محسوس کرتا ہے۔
بہت زبردست قسم کی "پین کلر" ٹیبلٹ بھی تھوڑی دیر کے لئے اثر کرتی ہے۔ یہ تکلیف انسان کو ہر حال میں بھگتنا پڑتی ہے۔
مضبوط اعصاب اور قوت ارادی کے ساتھ زندہ رہنے کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ ورنہ دو تین دن میں ہی یہ تکلیف بندے کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔
میں نے کرونا کے اٹیک کے دوران اپنی خوراک کو دوائی سمجھ کر کھایا پیناڈول تین وقت اور بعض دفعہ رات کو دو بار لی۔
چائے کی جگہ دیسی مرغی کی یخنی اور پھل زبردستی کھائے یہ سوچ کر کے یہی چیزیں کھاوں گا تو قوت مدافعت بڑھے گی۔ گرم پانی کر کے بار بار بھاپ لی روزانہ کپڑے تبدیل کئے
بار بار اپنے ہاتھ اور وجود کو دھویا اپنے واش روم کو بھی بار بار خود ہی دھویا کیونکہ اپنے کمرے میں خود کو قید رکھا تاکہ اپنے خاندان کو محفوظ رکھ سکوں۔
شکرالحمدللہ پانچ چھ دن کی تکلیف کے بعد صحت بہتری کی طرف گامزن ہو گئی۔
بہرحال یہ تکلیف انتہائی ناقابل برداشت تھی۔
یہ تکلیف کمزور اعصاب والے بندے یا کسی دوسری بیماری کے شکار شخص کے لئے برداشت کرنا شاید ناممکن ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہر کسی کو محفوظ رکھے۔
خدارا اس کو معمولی فلو یا ہلکی پھلکی بیماری نہ سمجھیں۔ اس سے جتنا ممکن ہو سکے بچنے کی کوشش کریں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#اسےفخرہے
♦️خطےکےتمام ممالک میں پاکستان کو مہنگائی میں نمبرایک پر لانے پر
♦️ملک کی شرح نمو کو5.6 سے منففی 0.4- پر لانے پر
♦️بجلی کی قیمت 8 روپے سے 14 روپے یونٹ کرنے پر
♦️شوگر مافیا کی لوٹ مار پر
♦️بیروزگاری کی شرح بڑھانے پر
♦️قرضوں کے انبار لگانے پر
♦️کشمیر کو گنوانے پر
#اسےفخرہے
♦️ڈالر کو 98 روپے سے 160 روپے پر لے جانے پر
♦️چینی کو 52 روپے سے 110 روپے کلو کرنے پر
♦️آٹے کی قیمت 33 روپے سے 80 روپے کلو کرنے پر
♦️قوم کو بیروزگار کر کے لنگر کی لائنوں میں لگا کر بھکاری بنانے پر
♦️مافیا کو اپنے دائیں بائیں بٹھانے پر
#اسےفخرہے
♦️پی آئی کا جہاز بیرون ملک پکڑوانے پر
♦️پاکستان کو سفارتی محاذ پر اکیلا کرنے پر
♦️ملک میں غربت میں اضافہ کرنے پر
♦️مہنگائی کی شرح 2.5 سے 17.5 پر لانے پر
♦️ٹیکس خسارہ بڑھانے پر
♦️کرنسی نوٹ چھاپنے کا رکارڈ توڑنے پر
♦️معیشیت کو برباد کرنے پر
بھٹو کے ایک ساتھی کی تحریر کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ وہ اپنے چند انتہائی قریبی ساتھیوں کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر بھٹو کے ساتھ تھے۔ بھٹو نے سوال کیا جنرل ایوب خان کی بربادی کے کیا اسباب ہیں۔
سب نے جنرل ایوب کی شکست کو مختلف الفاظ میں بھٹو کی فہم و فراست اور چالاکی+ @BBhuttoZardari
ہشیاری دانشمندی وغیرہ کہا
مگر بھٹو نے اپنی پلیٹ میں چمچ کو مارتے ہوئے کہا بالکل غلط ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ایوب کو بھٹو کی فہم وفراست اور دانشمندی نے شکست نہیں دی۔ جنرل ایوب کو اس کے اپنے بیٹے اور ان کی کرتوتیں لے ڈوبیں۔
آج اگر پیپلزپارٹی+ @BBhuttoZardari
کی تباہی اور اپنے مستقبل میں اندھیروں کی وجہ بلاول بھی تلاش کریں تو اس کے لئے قطعاً یہ کہنے اور تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی کہ پیپلزپارٹی اور بلاول کے مستقبل کو برباد کرنے میں زرداری اور اس کی بہن فریال تالپور کے علاوہ کسی کا ہاتھ نہیں @BBhuttoZardari
ملک کا نظام اس شخص کے حوالے کیا گیا جس نے شروعات میں ہی اپنی قابلیت ثابت کر دی تھی کہ اس کو تو ڈالر کی قیمت بڑھ جانے کا پتہ ٹیلیویژن پر خبر دیکھ کر چلا۔ اس کو یہ کیا معلوم کہ سٹیٹ بنک کو عالمی بنک کے سپرد کرنے کا کیا مطلب ہے۔
معاشی جنگ ہم ہار چکے۔
سٹیٹ بنک جو نیشنل بنک سمیت تمام سرکاری اور پرائیویٹ بنکوں کو کنٹرول کرتا ہے اس کا اغیار کےہاتھوں میں جانے کا مطلب یہ ہےکہ پاکستان کا تمام مالیاتی نظام اب بیرونی ہاتھوں میں ہوگا۔
اگر یہ کہا جائے کہ بذریعہ عمران نیازی پاکستان میں غیرملکی ایجنڈے پر عملدرآمد کروا لیا گیا تو غلط نہیں
ملک میں اس قسم کی سیاسی دھماچوکڑی ہے کہ وہ سنجیدہ لوگ جو سٹیٹ بنک کے پاکستان کے ہاتھ سے جانے پر بات سمجھا رہے ہیں ہم پاکستانی اس پر توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا گیم ہو چکی ہے۔
ووٹ کی عزت دھری کی دھری رہ گئی جبکہ پاکستان کی معاشی آزادی ختم ہو چکی ہے۔
جب بھی کوئی ایسی تکلیف دہ خبر نظر آتی ہے تو موجودہ حکمرانوں کا انسانیت سے گرا گھٹیا روپ مزید نمایاں ہوتا ہے۔قصور کی زینب کے ساتھ بہت برا ہوا تھا کیا خیبرپختونخواہ کی یہ حریم انسان کی اولاد نہیں؟؟
کیا اس بچی کو دنیامیں رہنے کا حق نہ تھا؟ #JusticeForHareem
جب قصور کی زینب کے لئے سب طبقوں اور مکتبہ فکر کے لوگوں نے آواز اٹھائی تو امید ہوئی کہ اس معاشرے میں انسانیت زندہ ہے۔
مگر افسوس صد افسوس ہمارا معاشرہ انتہائی گل سڑ چکا ہے۔ اس میں سیاستدان اور طاقتور لوگ منافق اور مطلب پرست ہیں۔ #JusticeForHareem
موجودہ حکومت کا ووٹر اور سپورٹر بھی منافقت بےضمیری اور بےشرمی کے سب سے اونچے درجے پر فائز ہے۔ یہاں تک مذہبی جماعتوں والے بھی جو خود کو اسلام کے ٹھیکدار سمجھتے ہیں۔
کہاں ہیں زینب وقوعہ پر ازخود نوٹس لینے والے؟
کہاں ہیں زینب کا جنازہ پڑھانے والے؟ #JusticeForHareem
پاکستان کی %80 دیہی آبادی میں نوجوان طبقے کے ذہن میں تبدیلی کا مطلب ہر گاوں میں ایک ڈسپنسری ایک پارک ایک کھیل کا گراونڈ اور ہر قصبے میں اچھا ہسپتال اورکالج ہر تحصیل میں ٹیچنگ ہسپتال دو دو یونیورسٹیاں اورانٹرنیشنل لیول کا سٹیڈیم تھا۔
پوچھنا تھا3سال گذر چکے کتنا کام مکمل ہو چکا؟؟
تحریک انصاف کے سقراط و بقراط و آئن سٹائنوں کے نزدیک امیرزادوں کی وہ اولادیں جن کو کبھی معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بجلی گیس کا بل کب اور کیسے آتا ہے وہی نوجوان طبقہ ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے نوجوانوں کی اکثریت وہ ہے جنہیں ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے میں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آتی تھی
وہ نوجوان جو سچ مچ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عدالتی سرٹیفائیڈ سچا ہے خواب تو ان نوجوانوں کے ٹوٹے ہیں جو اپنی 70CC موٹر سائیکل پر بیٹھ کر 30/40 کا پٹرول ڈلوا کر چھوٹا موٹا انٹرنیٹ پیکج کروا کر کوریج ایریا میں آ کر نیازی کے لئے سوشل میڈیا پر نام نہاد جہاد کرتے تھے۔
ڈان لیکس کاایک ایک لفظ تقریباً ہر کسی کو یاد ہو گا۔ اگر کسی کوبھول چکاتھا تو کل جنرل باجوہ صاحب نے بذات خود Ptv کے کلپ میں لفظ بہ لفظ دہرا دیا ہے۔
اب ذرا عمران نیازی کے حواری اور ٹیلیویژن سکرینوں پر عدالتیں سجانے والے نیڑے نیڑے آ جائیں اور سنیں ڈان لیکس پر کیا کیا فرماتے رہے ہیں
چیئرمین تحریک انصاف جو آج وزیراعظم پاکستان ہیں کیا اب بتانا پسند فرمائیں گے کہ ڈان لیکس اور جنرل باجوہ صاحب کے بیان میں کیا فرق ہے؟؟
قوم کے نوجوان طبقے کو گھمراہ کرنے والے اس شخص عمران نیازی کو شرم تو نہیں آ سکتی مگر کیا اس کی ہرزہ سرائیوں پر یقین کرنے والے بھی سب بےشرم نہیں؟؟
یہ تین بھانڈ اب کیا نیپال کے جنگلوں میں چلے گئے ہیں؟؟
ان کے خرافات سنیں کس طرح یہ سادہ لوح عوام کو گھمراہ کرتے رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو ورغلانے اور بہکانے میں ان تین بھانڈوں کا اور اس چینل ARY کا بہت کردار ہے۔
یہ بھانڈ بلاناغہ ڈان لیکس پر پروگرام کرتے رہے ہیں۔