Reflections | City Graves
Lahore Diaries
___
While on Canal Road I decided to take the Muslim Town Underpass exit on a road that leads to Bilal Masjid
Opposite to the mosque gate as I stepped inside New Muslim Town Graveyard, scenes came flooding back ...
The name was Ali Sufyan Afaqi, a renowned journalist, writer and film maker
One of his significant works is a well kept journal of Pakistan Film Industry, titled Filmi Alif Laila
Sarguzasht digest started publishing Afaqi sahab's memoirs in monthly installments
Soon we got addicted to this monthly dose of Filmi Alif Laila during our college days
Sarguzasht kept publishing this work for decades, the diary of Afaqi's experiences from the film industry narrated in his signature anecdotal style
A tale of one thousand and one nights ...
As I stepped inside the New Muslim Town graveyard, scenes came flooding back
The romantic duo of Santosh Kumar and Sabiha Khanum and their flicks from 50s and 60s
Afaqi would tell you in Filmi Alif Laila how Santosh dominated the industry and charged a fee (amount) of his choice
He would tell you of the reaction of the media to the news of Sanoth's marriage with Sabiha
We come across Darpan, the hazel eyed brother in complete contrast to a sober and composed Santosh
Darpan who sported the playboy looks and broke countless hearts in his roles,
fell for the shy and sensitive Nayyar Sultana who ruled the film world as Malika e Jazbat of her times
In New Muslim Town Graveyard, dear reader, scenes came flooding back as I visited a few graves in a secluded corner
Syed Ishrat Abbas a.k.a Darpan and his wife Tayyaba Ishrat a.k.a Nayyar Sultana are buried side by side Two graves to the left is resting in peace Syed Musa Raza a.k.a Santosh Kumar
A little to the right on another plot lies buried our beloved Nasira Begum a.k.a Rani
Please say a silent prayer for the departed
یہ اجنبی سی منزلیں اوررفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہرہے اورہم ہیں دوستو !
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو !
@ArfahZia I had originally posted the story on my FB timeline sometime back
Reproduced here in memory of your nana, as requested
May Allah bless his soul
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
انٹاریو کے برفاب رکھوں کے شہر میں آج کرسمس ہے
دسمبر کے مانند بھیگے کہربار اِس دل پر یادوں کی برف گرتی ہے
پاس کے ایک کلیسا میں دور کہیں ساز بجتے ہیں
اور گزرے دنوں کی جلتی بجھتی انگیٹھی میں جھلملاتے دو منظر ہیں
۔۔۔
جھنگ مگھیانے کا درویش، میونخ کی شالاط
ساہیوال ابھی منٹگمری ہے، اور فرید ٹاوٗن ابھی سٹیلائٹ ٹاوٗن۔ تو صاحبو، اسی سٹیلائٹ ٹاوٗن کا ایک کوارٹر ہے جس کے صحن میں دو آم کے درخت اور درجن بھر گلاب کے پودوں سے پرے ایک مقفل کِواڑ ہے جسکی درزوں سے جھانکتی چھچھلتی اپنے نہ ہونے کی ہونی کے اندیشوں میں لپٹی ایک نظر ہے
کہ چلتی چلی جاتی ہے اور گلی کی نکڑ پر جا ٹھہرتی ہے
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں، کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
آخری آرام گاہ
حاجی محمد عالم لوہار
ـــ
کاکول اکیڈیمی میں ہر چھ ماہ کے بعد ٹرم کے اختتام پر ایک ماہ کی چھٹیاں ہوتیں تو ایبٹ آباد میں اترتی شام کے دھندلکے میں بیرونی گیٹ پر نصرتِ خداوندی سے دی جانے والی فتح کی بشارت کے جلو میں ایک میلہ سجتا۔ اس دن اکیڈیمی کا پارکنگ لاٹ
ایک چھوٹے موٹے لاری اڈے کا منظر پیش کرتا۔ پنڈی وال کیڈٹ تو کوسٹرز اور ویگنوں میں بیٹھ مریڑ چوک یا پھر سیروز سینما کی راہ لیتے۔ لاہوریوں کو لے جانے والی بڑی فلائنگ کوچ بسیں ہوتیں جو کاکول سے بادامی باغ کی شست باندھے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی چلتی چلی جاتیں۔
ہم گنتی کے مسکین کراچیائٹ ایک لمبے سفر کو دو حصوں میں بانٹ پہلی تقسیم میں انہی فلائنگ کوچوں میں لاہوریوں کے ہم سفر بنتے۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ کوچیں لاری اڈے پہنچتیں تو ہم کراچی والے لاہور ریلوے سٹیشن کے بکنگ کلرک کی بند کھڑکی کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے کہ بعد از فجر
دنیا کے لذیذ ترین ٹھپّر
نور والوں کا ڈیرہ
ـــ
غالباً کیا یقیناً رمضان کا مہینہ تھا، وہ اس لیےکہ روزوں کے ہی دن تھے جب بھوک کے عالم میں جمعے کی نماز اور افطار کے درمیان اپنے اشفاق احمد کا لکھا یہ اشتہا انگیز قصہ پہلے پہل پڑھا۔ تب انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی چار برس بیت چکے تھے۔
ٹل پوسٹنگ کے دنوں میں ہمارے کمانڈنگ افسر کرنل بھٹی ہمارے ’کتاب دوست‘ بنے۔ اگوکی میں یہ ’اعزاز‘ کیپٹن بخاری کو حاصل تھا جو یونٹ ایڈجوٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹ محض اس بنا پر بنے کہ کتب بینی اور موسیقی میں ہمارا ذوق بہت ملتا تھا۔
اگوکی کی عباسیہ سے ٹل والی میڈیم رجمنٹ میں پوسٹنگ ہونے پر ہمارے مطالعاتی شوق نے بھی ترقی پائی اور ایڈجوٹنٹ سے کئی درجے اوپر اب یونٹ کے سی او سے یاری گانٹھ لی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کو ’یاری گانٹھ لینے‘کی اس ترکیب میں مبالغے کی آمیزش نظر آئے تو صاحبو ایک
گورا جھوٹ نہیں بولتا
سکول بس کی فلیشنگ لائٹس، ڈیف چائلڈ ایریا
ـــ
شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیوں کے برعکس بہت پرانی بات نہیں ہے، ایک دہائی سے بھی کم کا قصہ ہے، اور پھر یہ بھی تو شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں ہے۔
🧵
تو صاحبو ایک دہائی سے چند ایک برس اِدھر کا قصہ ہے جب زندگی اور اس کے محلِ وقوع نے کروٹ بدلی اور ہم اس دیس کو پدھارے تو ہمارے عزیز دوست نے یاد دہانی کروائی کہ ’بھائی جا‘ اب گریٹ وائٹ نارتھ جارہے ہیں۔
ہمارے من پسند شاعر سلیم کوثر نے کہا تھا
تمھیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کرلیتے
الحمدللہ زندگی میں کوئی گھٹن نہیں تھی اور نہ ہی اس کا خوف، مگر اپنی جنم بھومی، ایک عمر کے یارانوں اور دوستیوں اور جس دھرتی کے شہروں اور قصبوں سے عشق کیا تھا،
بیدیاں کے غازی
جیسور کے باغی
ـــ
مشرقی بنگال کےآتش بجانوں کو سلام
لاہورمیں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈکی زیرِنگرانی اس فوجی قبرستان میں پینسٹھ کی جنگ کے شہیدوں کی قبریں اوریادگاریں ہیں۔ یہیں ایک یادگاراپنی جنم بھومی سےہزاروں میل دورلڑنےوالوں کو
یادکرتی ہےجو اتنی مداراتوں کےبعدبھی اجنبی ٹھہرے۔ یہ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ عرف سینیئرٹائیگرزکےپندرہ شہداء کی یادگارہےجوپینسٹھ کی جنگ میں وطن پرنثارہوگئے۔
لاہورسےقصورکی نیت کرتےہوئےفیروزپورروڈ پکڑیں توقریب قریب نصف راستےکی مسافت پرللیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے۔
مین روڈ کے ساتھ للیانی کےقبرستان میں بھی گنجِ شہداء کے نام سے ایک گوشۂ سکون ہے جہاں ایک چاردیواری میں فاتحِ کھیم کرن 5 فرنٹیئرفورس کے وہ سپوت دفن ہیں جو ستمبر پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن اور اس سے کچھ آگے کی مفتوحہ زمینوں کو دونیم کرتے شہید ہوئے
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
غازۂ رُوۓ شھادت زینتِ قوم و وطن
عزیز بھٹی کی کہانی
ـــ
تارڑ صاحب کی راکھ کی طرح ۔۔ چارچیزیں ہیں ۔۔ جو مجھے لادیاں بلاتی ہیں ۔۔ ان میں ایک کھاریاں چھاؤنی سے پھولوں کی چادر چڑھانے کی فل ڈریس ریہرسل ہے ۔۔ اور کچھ کھُدےان کھُدے مورچوں سے پلٹتی کوٹلہ ارب علی خان کی اداس شام ہے ۔۔
اور منگلا کینٹ میں ایک ہم نفس کی معیت میں یادوں سے دُھل کے نکلتی رات ہے ۔۔ اور برکی کی قربت میں بی آر بی نہر ہے ۔۔
نشانِ حیدرکاتغمہ اپنی چوڑی چھاتیوں پر سجائے، ہمارے جانبازوں کی تربتوں تک، جن تک کہ ہم پہنچ پائے، خود کھوجتے ہوئے پہنچے، ماسوائے ایک شہید کے۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید وہ ہیں جنہوں نے خود ہمیں بلاوہ بھیجا، ایک دفعہ کی بات نہیں، پورے چار مرتبہ۔ گجرات کے شمال اور کھاریاں کے مشرق میں ایک چھوٹا سا گاؤں لادیاں، جسکا نام شاید کھاریاں ہوتا اگر اکبرِ اعظم کے دور میں جب یہ پہلے پہل آباد ہوا قرعۂ فال کھاری گوت کے نام کا نکل آتا،