مسلمانوں کے سنہرے دور کو یاد کرتے ہوۓ افغانستان کے صوبے غزنی کے عہدرفتہ پر بات کرتے ہیں۔
غزنی خراسان کا ایک اہم شہر اور 962ء سے 1187ء تک سلطنت غزنویہ کا دار الحکومت تھا۔
افغانستان کی خانہ جنگی میں کچھ شہر جن کو نقصان نہیں پہنچا ، ان میں سے ایک غزنی بھی ہے کیونکہ یہ شہر شہر 1/17
2/17
اولیا ہے اور تمام افغانوں کے لیے یہ شہر افتخار کا باعث ہے اس وجہ سے یہ خانہ جنگی میں بھی محفوظ رہا
یہ شہر غزنی کے بادشاہوں کے عروج کے زمانے میں دارالخلافہ رہا ہے بالخصوص سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور حکومت (997 ع تا 1030 ع) میں اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیےجس کی وجہ سےاسے
3/17
حضرت غزنی کہا جاتا ،اس دور میں یہ شہر قوت و شوکت اور اسلامی عظمت کا بےمثال نمونہ تھاموجودہ غزنی سےشمال مشرق کو پانچ کلومیٹر دور قدیم غزنی کےکھنڈر موجود ہیں۔غزنی شہر کے آثار آج بھی بڑی اچھی شکل میں موجود ہیں جس طرح لاہور کا شاہی قلعہ اچھی شکل میں موجود ہےاسی طرح غزنی کا قلعہ
4/17
جس کے اندر شہر آباد تھا بڑی اچھی شکل میں موجود ہےپچھلی حکومت میں اس شہر اور اسکےآثار کی بقا کےلیے بڑے اقدامات اٹھاۓ گئے اور پرانی عمارتوں جو کہ ورثہ ہیں ان کی مرمت کی گئی ۔
کئی بزرگان دین کے مزارات بھی یہاں پر موجود ہیں۔
اسکے علاوہ یہ صوبہ اہم فوجی و تجارتی شاہراہ جو کابل
5/17
کو قندھار سے ملاتی ہے، پر واقع ہے۔ زمانہ قدیم سے یہ علاقہ کابل اور قندھار کے درمیان ایک اہم تجارتی گزرگاہ کی حیثیت سے مشہور رہا ہے۔
غزنی کی قدیم عمارات میں 43 میٹر (140فٹ) بلند دو برج باقی ہیں۔مشہور ہے کہ یہ مینار محمود غزنوی اور اس کے صاحبزادے ناصرالدین نےتعمیر کرائے تھے۔
6/17
شہر میں کئی شعرا اور سائنسدانوں کے مزارات ہیں جن میں مشہور ترین ابو ریحان البیرونی ہیں۔
مشہور محقق و سائنسدان ابو ریحان محمد بن احمد المعروف البیرونی 4ستمبر 973ء کو خوارزم (موجودہ ازبکستان) کےمضافات میں ایک گاٶں بیرون میں پیدا ہوئےاور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔البیرونی
7/17
بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔
البیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں، جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں مشہور ایک ”کتاب الہند“ بھی ہے، جس میں البیرونی نے ہندوؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے
8/17
لکھے ہیں۔
انہوں نےریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام “البیرونی کریٹر” رکھا گیا ہے۔
کیسے عظیم لوگ تھے جنہوں نے جدید آلات اور
9/17
کمپیوٹر کے بغیر کارہائے نمایاں انجام دیے اور زمین سے متعلق تقریباً درست پیمائشیں، کیمیا گری کے فارمولے اور ریاضی کے اصول وضع کیے، جن کی بنیاد پر آج سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔
آج ناسا اپنے خلائی سیارے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے زمین کا رداس یعنی ریڈیئس 6371 کلومیٹر بتاتاہے،
10/17
جو البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل حیرت انگیز درستگی کےساتھ ناپ لیا تھا، جو کہ 6335 کلومیٹر بنتاہے۔ جس پر آج تک جدید ساٸنس شدید حیران ہے۔
پیمائش کے لیے البیرونی کافی عرصہ تک نندنہ کے قلعے( نندنہ کے قلعے کے کھنڈرات پنڈ دادنخاں سے22کلومیٹر دور اب بھی موجود ہیں)
11/17
میں سلطان محمود کی خصوصی توجہ کے ساتھ قیام پذیر رہا اور انکی اس دور کی لیبارٹری بھی ابھی تک موجود ہےجب اسے لگتا کہ فضا صاف ہے تو وہ پہاڑی پر چڑھ کر یہ پیمائش کرتا۔
یہ دور مسلمانوں کی تاریخ کا سنہرا دور تھا جب علم و حرب و ثقافت مسلمان ہی دنیا کو سکھا رہے تھے اور ہمارے
12/17
انہی مسلم ساٸنسدانوں کے وضع کردہ رہنما اصولوں پر چل کر جدید ساٸنس نے اتنی ترقی کی ہے۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے،
وہ کیا گَردوں تھا تو جسکا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اب آخر میں بات کرتے ہیں ایک بڑی بزرگ ہستی کی جو سلطان محمود غزنوی کے ہی دورحکومت میں پیدا ہوۓ۔
سید
13/17
عثمان جلابی رع غزنی کی ایک بستی جلاب کے رہنے والے تھے بعد ازاں وہ غزنی کی ہی ایک دوسری بستی ہجویر میں منتقل ہوۓ۔ان کا شجرہ نسب حضرت امام حسن رض سےجا ملتا ہے۔سن 1009 میں ان کے گھر ایک بچے نے آنکھ کھولی جسکا نام انہوں نے علی رکھا بعد ازاں ابوالحسن کی کنیت دی گٸی۔۔اور انکا
14/17
نام ابوالحسن علی پکارا جانے لگا ۔۔
ابوالحسن علی ہجویری نے ابتداٸی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کافی سفر کیے جن میں خراسان اور بغداد کے سفر کافی اہمیت کے حامل رہے۔ اور اس دوران انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور خالق کے قرب کو بہت قریب سے محسوس کیا اور اس مقام پر زندگی کا مقصد انہوں نے
15/17
بخوبی سمجھ لیاتھا۔
پھر انہوں نے اپنے مرشد کے حکم سے اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تقریباً 1038ع میں لاہور تشریف لائے۔
پھر تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے دوسرے حصّوں کا بھی سفر کیا۔ اور بہت سے لوگوں کو مسلمان کیا اور بہت سےگمراہوں کو راہ راست
16/17
پر لاۓ۔ بقیہ ماندہ ساری زندگی انہوں نے ہندوستان بالخصوص لاہور میں ہی وقف کردی آپ نے 8 کتابیں لکھیں اور شعری دیوان بھی لکھے۔مگر اب ان میں سے صرف ایک کتاب کشف المحجوب صحیح حالت میں محفوظ ہے۔جس سے لوگ اب تک روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ بعدازاں 1072ع میں وہ دنیا سے انتقال
17/17
فرماگٸے۔اور لاہور میں بھاٹی گیٹ کے ساتھ انکا مزار ہے جہاں ہزاروں عقیدت مند روزانہ ان کے مزار کی زیارت کرتے ہیں اور انہیں آج بھی پہلے لوگوں جیسی شدت سے ہی پیار و عقیدت سے داتا صاحب ، علی ہجویری رح ، گنج بخش کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
چاچاافلاطون بقلم خود
میں ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’مریم نواز میں دو بڑی خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ بڑی لیڈر ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور دوسری یہ کہ نواز شریف ان کے والد ہیں‘‘۔ یہاں تک تو قابل برداشت ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ (1/5)
(2/5)
بھی لکھ دیا کہ مریم نواز کو جو بات اچھی نہ لگے اس کے لئے اپنا کان بند نہیں کرتیں بلکہ دوسروں کی زبان بند کردیتی ہیں۔ مخالفین مریم کو آئرن لیڈی بھی کہتے ہیں کیونکہ جیل میں وہ فرائنگ پین سے کپڑے آئرن کیا کرتی تھیں۔ مریم کی سیاسی ٹریننگ میاں نواز شریف نے خود کی ہے اسی لئے
(3/5)
مریم نواز کی سیاست میں عوام کو نوے کی دہائی کے نواز شریف نظر آتے ہیں۔ بلاول مردوں کا بے نظیر بھٹو اور مریم نواز عورتوں کی نوازشریف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاول کے متعلق لکھا ہے کہ بلاول کی اردو اور پاکستان کی اکانومی میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے بہتر ہو پر ہوتی
#Swat
” یہ ایک یہودی تھا جو سکائی ویز ہوٹل میں رکا ہوا تھا شام کا وقت تھا شور مچا اور میں وہاں چلا گیا تب تک اس کا ہوٹل والے اسے چھڑوا گئے تھے اور وہ بازار کی طرف بھاگ گیا میں اور میرے ایک دوست نے اس کا پیچھا کیا اسے خور بازار میں پکڑ لیا میں نے اسے پکڑا میں نے اس کا بیگ ⬇️
کھینچا لیکن اس نے مزاحمت کی میں نے اسے چپیڑے ماری لوگوں نے اسے پھر مجھ سے چھڑوا لیا یہ رکشے میں وہاں سے چلا گیا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے بازار کے پرلے کنارے پر پھر پکڑ لیا ہم نے تو پھر مارنا شروع کیا تو لوگوں نے پھر چھڑوا لیا لوگ مجھ سے ثبوت مانگ رہے تھے میں نے ⬇️
کہا ثبوت میرے پاس ہے لیکن لوگ نہ مانیں اور اس سے انہوں نے اسے چھڑوا لیا اور پھر میں نے ایس ایچ او کو فون کیا ایس ایچ او صاحب آئے اور موبائل میں ڈال کے اسے تھانے لے گئے ہم بھی ساتھ ساتھ تھانے پہنچ گئے اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس نے 25 دن⬇️
خواتین پر تہمت و بہتان جیسی غلاظت پھینکنا غلیظ منافقین کا پرانا ہتھکنڈا ہےجو رٸیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے لیکر جنرل ایوب خان ،فرزند جنرل ضیاالحق(نواش ریف) سے ہوتا ہوا موجودہ جنرل تک تقریباً ایک طرز پر جاری ہے۔عبداللہ بن ابی نے پاک بی بی ام المومنین حضرت عاٸشہؓ پر بہتان (1/4)
(2/4)
درازی کی۔ جنرل ایوب نے بانی پاکستان قاٸداعظم رح کی سگی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر الیکشن لڑنے کی وجہ سے غلیظ ترین الزامات کی بوچھاڑ کرواٸی۔ جنرل ضیا کے سیاسی تخم نواش ریف نے ذوالفقار بھٹو کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو کے الیکشن لڑنے پر ایڈٹ شدہ ننگی تصاویر بذریعہ ہیلی کاپٹر
(3/4)
جگہ جگہ پھینکواٸی۔ جب عمران خان سیاسی میدان میں اترا تو اسکی بیوی جماٸمہ کے خلاف اسقدر پروپیگنڈے کیےگٸے کہ انکی طلاق تک ہوگٸی۔ اور اب عمران خان کو جُھکانےکیلیے موجودہ غلیظ جنرل ٹولا اسکی بیوی #BushraBibi پر ن لیکی سوشل میڈیا کو قابو میں کرکے اسقدر بہتان اور غلیظ پروپیگنڈے
آٸی ایس پی آر نے انتہاٸی پیشہ وارانہ انداز میں میڈیا ٹاک کرتے ہوۓ فرمایا کہ
” پاک فوج کا بٹگرام میں انتہاٸی پیچیدہ اور مشکل ریسکیو آپریشن مکمل“
اب زرا یہ اصل حقاٸق پڑھیے اور کمپنی کے ان دلالوں پر لعنت بھیجنا ہرگز نہ بھولیے
”میرا تعلق چونکہ بٹگرام سے ہے اس لیے آج کے واقعے ⬇️
کا اصل منظرنامہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں, الائی ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے جس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے, یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن سہولیات زندگی خاص کر سڑکیں اور پل نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے باشندے دو پہاڑوں کے درمیان ⬇️
اس طرح کے چیئر لفٹ لگا کر اس کے زریعے سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں سپلائی کرتے ہیں, اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں کٹ جاتا ہے دوسرا جب بارش کے وقت ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں تو لوگ انہی چیئر لفٹ کے زریعے ⬇️
سلطنت بنو امیہ اور سلطنت پاکستان کے وساٸل ، جگہ اور وقت مختلف ضرور ہیں لیکن تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی رہتی ہے۔
جس وقت عبد الملک بن مروان کی خلافت کی بیعت ہوئی تھی اسی وقت اس کے دو بیٹوں ولید اور سلیمان کی ولی عہدی کی بیعت بھی ہوئی تھی ۔جس کا سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ (1)
(2) عبدالملک کی خلافت کے بعد ولید خلیفہ بنے گا اور اس کے بعد سلیمان بنے گا ۔
ولید نے اپنے دور خلافت میں چاہا کہ اپنے بھائی سلیمان کو معزول کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد نامزد کر دے ۔ جس پر حجاج بن یوسف نے ولید کے اس منصوبے میں اس کی حمایت کی ۔حجاج کی حمایت بہت معنی
(3) رکھتی تھی کیونکہ وہ عراق اور مشرقی اضلاع کا گورنر تھا اور جتنا رقبہ اس کے زیر انتظام تھا، وہ کم و بیش نصف مملکت تھی ۔ گویا اس حمائت کا مطلب یہ تھا کہ حجاج اپنے زیر انتظام علاقوں میں عبدالعزیز کی ولی عہدی کی بیعت کی حمائت کرے گا ۔یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اس کی
کیا ہم سب بھی کوفی ہیں؟؟؟
”کوفہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ظلم ہے اور اس پر چپ رہنے والے موجود ہیں، وہ جگہ کوفہ ہے“ یہ الفاظ واقعہ کربلا کے شاہد اور مظلوم حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ہیں۔
اہل کوفہ وہ بے حس ٹولہ تھا جو ایمان کی
(1/5)
(2/5)
کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کوفی کہلایا۔
اپنے تمام تر تنوع کے باوجود کوفہ اپنے بہادروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بزدلوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔ یہ ظالموں کے گروہ کا نام نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر چپ رہنے والے
(3/5)
مجمعے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم گروہ کو ایک ظالم گروہ مسلسل ظلم کا نشانہ بناتا ہے، لیکن اس ظلم سے نفرت کے باوجود لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عافیت گاہوں میں دبکے رہتے ہیں۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخاطَب بھی یہی لوگ تھے،