1. انکی والدہ ہر مہینے جناح ہسپتال کے سامنے کلینکس میں دل کی دوائیاں خرید کر رکھ دیتی ہیں کہ جو ضرورت مند آئے اُسے فری میں دے دیں۔ راشن والا کام ہمارے گھر میں اور دو لوگ کرتے ہیں۔ جنہوں نے تین سے چار لوگوں کے گھر کا خرچ اُٹھایا ہوا ہے
2. میں ایک کلرک ہوں۔ میری تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ میں ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے محلے کے قصاب سے چھ سو روپے کا آدھا کلو چھوٹا گوشت لے کر اپنے کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھیج دیتا ہوں۔ یہ گوشت ہماری طرف سے صدقہ ہو جاتا ہے۔
3. میرا ایک چھوٹا سا کریانہ سٹور ہے۔ میں روزانہ پچاس روپے
کاروبار سے نکال کر گولک میں ڈال دیتا ہوں۔ میں ہر ماہ پندرہ سو روپے اپنے محلے کی ڈسپینسری میں دے آتا ہوں۔ وہاں معائنہ فیس پچاس روپے کے عوض مریضوں کو ادویات دی جاتی ہے۔ میری طرف سے ایک مہینے میں تیس مریضوں کا علاج ہو جاتا ہے۔
4. میں اپنے کاروبار سے روزانہ سو روپے الگ کر کے اپنی بیوی کے پاس جمع کرواتا ہوں۔ مہینے کے بعد ہم تین ہزار روپے کا راشن بیگ ایک غریب گھرانے کو بھجوا دیتے ہیں۔
5. میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوں۔ سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ ہوں۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ میں سے پانچ ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ ہم ہر سال ماہ رمضان میں اپنے شہر کے یتیم خانے میں قیام پذیر بچوں کو عید کے نئے کپڑے لے کر دیتے ہیں۔ ہمارے بجٹ سے ساٹھ پینسٹھ بچوں کے لیے تین دن کے
دیدہ زیب کپڑوں کا انتظام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
6. میری کپڑے کی دکان ہے۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی آمدنی میں سے دس ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ یہ سال کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ میں ہر سال ایک یتیم بچی کی شادی و رخصتی کا بند و بست کرتا ہوں۔
7. میں ڈاکٹر ہوں۔ میرا معمول ہے کہ میں اپنی آمدنی میں سے کینسنر سوسائیٹی کے ذریعے روزانہ ایک غریب مریض کے لیے کیمو تھراپی کا انجیکشن ڈونیٹ کرتا ہوں۔
8. ہم دونوں میاں بیوی سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ ہم ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول حصہ الگ کرتے ہیں۔ اور ہر ماہ کے پہلے سنڈے
کو اپنے محلے کے دینی مدرسے میں پڑھنے والے ہاسٹلائز بچوں کو مدرسے میں جا کر کھانا پیش کرتے ہیں۔
9. میری پوش علاقے میں ایک بیکری ہے۔ میں نے اپنے علاقے کے دونوں گرلز اینڈ بوائز سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو کہہ رکھا ہے کہ یتیم طلبا و طالبات کی یونیفارم اور جوتے میرے ذمہ ہیں۔
یہ کام کئی سال سے جاری ہے۔ الحمد للہ اس مقصد کے لیے دو سو روپے روزانہ الگ کر دیتا ہوں۔
10. میرا ریسٹورینٹ ہے۔ میں روزانہ پچاس لوگوں کو اپنے ریسٹورینٹ سے رات کا معیاری کھانا پارسل صورت میں دیتا ہوں۔ تاکہ وہ غریب لوگ گھر جا کر اپنی فیملی کے ساتھ سیر ہو کر کھائیں۔
11. میں انجنیئر ہوں۔ میں ایک نجی کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ میری بیوی بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ ہم دونوں اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ باقاعدگی سے ایک مخصوص رقم الگ کرتے ہیں۔ ہم معذور افراد کے لیے قائم ایک ادارے کو ہر ماہ ایک وہیل چیئر عطیہ کرتے ہیں
جو کسی مستحق معذور کو دے دی جاتی ہے۔
آئیں آج سے ہم بھی عزم کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے دیے ہوئے رزق سے مستحق لوگوں کا حصہ نکالیں گے ...!!
#قلمکار
آج کے معاشرے کو دیکھتے ہوئے نہایت ہی غور طلب تحریر👇😭
میں پیریڈ پڑھانے کے بعد اپنے کمرے داخل ہوا تو وہاں برقعے میں ملبوس ایک عورت کو اپنا منتظر پایا۔ پوچھنے پر اس نے مختصراً اپنا تعارف کرایا اور وقت ضائع کئے بغیر اس نے کہا؛ "میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ "
جی فرمائیے!
میں نے نہایت شائستگی سے کہا۔
میرے پاس وقت بہت کم ہے، وہ لوگ مجھے مار دینا چاہتے ہیں، اس نے اپنا ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
کون لوگ آپ کو مار دینا چاہتے ہیں؟ میں نے نہایت نرمی سے پوچھا۔
اب اس کا وقت گزر چکا، وہ بہت جلد مجھ تک پہنچ جائیں گے، میں آپ کو کچھ اہم باتیں بتانا چاہتی ہوں،
براہ مہربانی ان باتوں کو غور سے سنیں اور اسے امانت سمجھ کر آگے بڑھا دیجئے گا۔
جی فرمائیے ! میں نے اُن سے کہا ۔۔۔
اس نے کہنا شروع کیا۔۔۔
یہ میری زندگی کی داستان ہے، میں نے صوم و صلوۃ کے پابند ایک خاندان میں آنکھ کھولی تھی، میری تربیت مکمل ایک مشرقی ماحول میں ہوئی، میٹرک کے امتحان
آج میں نماز فجر کے بعد واک پر تھا تو مجھے سعودی عرب کے ایک نمبر سے فون آیا اور ایک خاتون نے کہا کہ انکل بشیر میں خانہ کعبہ کے بالکل سامنے بیٹھی ہوں اور آپکے لیے دعا کر رہی ہوں ۔ میں نے خوشی سے کہا بیٹا شکریہ مگر آپ ہو کون ؟ جب اس بچی نے مجھے ایک
واقعہ یاد کروایا تو مجھے اپنی 4 سال پرانی Tuesday Stories یاد آ گٸیں ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریٹاٸرمنٹ کے بعد میں Syed Iqbal Haider Zaidi ڈی جی EOBI کے کہنے پر انکے Disability Pension System کو دیکھنے پر راضی ہوگیا کیونکہ اس میں بھی خلق خدا کی خدمت کا ایک پہلو نکلتا تھا ۔
میں ہر منگل کو یہ کام کرنے عوامی مرکز EOBI کے آفس جاتا تھا ۔ 24 جنوری 2017 بروز منگل EBOI عوامی مرکز کراچی کے دفتر میں فرسٹ فلور پر بیٹھا میں معذوری پینشن بورڈ کے پریزیڈنٹ کی حیثیت سے معذوروں کو چیک کر رہا تھا کہ دو بچیاں نقاب لگاٸے کالے عبایوں میں میرے آفس میں داخل ہوٸیں اور کہا
*اپنے بچوں سے لاتعلق مت رہیں*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے جسمانی طور پر بڑھ رہے ہوتے ہیں،اوردینی اعتبار سے چھوٹے رہ جاتے ہیں۔
وہ کھانا تو پیٹ بھر کر کھارہے ہوتے ہیں۔مگر محبت تعلق اورساتھ کے بھوکے رہ جاتے ہیں۔
زمانہ پہلے جیسا نہیں رہا۔
جو دن آپ اپنے بچے سے لاتعلق ہوکر گذارتے ہیں اس دن اسکی عقل پہ دسیوں برے خیالات کا حملہ ہوتا ہے۔اسکی نگاہ برے مناظر پر پڑتی ہے اور اسکے اوقات قسم ہا قسم کی برائیوں کے نرغے میں ہوتے ہیں
تو زرا سوچیں کہ جس بچے کو مہینوں تک کسی نصیحت اور تربیتی نشست کا موقع ہی ناملتا ہو اسکا کیاہوگا؟
اے ماں اور اے باپ!!
آپکے بچے کو نت نئے کپڑوں کی ایسی ضرورت نہیں ہے، نا ہی بڑے جیب خرچ کی، نا ہی لمبی چوڑی میراث کی۔
جتنی ضرورت انکو اس چیز کی ہے کہ *آپ انہیں اپنی نگرانی میں اللہ کی محبت کو اور اس عقیدہ کو کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے انکی شخصیت کے خمیر میں ڈال دیں۔
بیوی کو شادی کے چند سال بعد خیال آیا
کہ اگر وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کے چلی جائے
تو شوہر کیسا محسوس کرے گا
یہ خیال اس نے کاغذ پر لکھا
"اب میں تمہارے ساتھ اور نہیں رہ سکتی
میں اب بور ہو گئی ہوں تمہارے ساتھ
میں گھر چھوڑ کے جا رہی ہوں ہمیشہ کے لئے"
اس کاغذ کو اس نے میز پر رکھا
اور جب شوہر کے آنے کا ٹائم ہوا تو
اس کے رد عمل دیکھنے کے لئے بستر کے نیچے چھپ گئی
شوہر آیا اور اس نے میز پر رکھا کاغذ پڑھا
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اس کاغذ پر کچھ لکھا
پھر وہ خوشی کے مارے جھومنے لگا
گیت گانے لگا، رقص کرنے لگا اور کپڑے بدلنے لگا
پھر اس نے اپنے فون سے کسی کو
فون لگایا اور کہا
"آج میں آزاد ہو گیا
شاید میری بیوقوف بیوی کو سمجھ آ گیا
کہ وہ میرے لائق ہی نہیں تھی
لہذا آج وہ گھر سے ہمیشہ کے لئے چلی گئی
اس لئے اب میں آزاد ہوں
اور تم سے ملنے کے لئے میں آ رہا ہوں
کپڑے بدل کر تم بھی تیار ہو کے
میرے گھر کے سامنے والے پارک میں ابھی آ جاؤ"
عائشہ ممتاز ایک بہت نیک خاتون ہیں جن کی کوششوں کے طفیل آج باہر کھانا کھانے کی فرمائشوں میں ستر فیصد تک کمی آ چکی ہے اور باقی تیس فیصد تو شوہر ہینڈل کر ہی لیتے ہیں ! 😃
🔮آج کل لوگوں کو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی عادت ہو گئی ہے ،
ہمارے ایک جاننے والے ہیں آج کل ہسپتال میں ہیں انکی عیادت کرنے گئے تو پوچھا کہ یہ حالت کیسے بنی؟
تو کہنے لگے کہ ایک دن صبح صبح میری گھر والی نے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا کہ دیکھو دیکھو تمھارے ہمسائے نے نئی گاڑی لی ہے اور تم یہاں گھوڑے بیچ کر سو رہے ہو ہماری محلے میں ناک کٹ جائے گی
اور میں اپنی ناک بچانے کیلئے اسی دن دو گاڑیاں خرید کرلے آیا ایک اپنے لئےاور اور ایک بیگم کیلئے،
کچھ دن بعد میری زوجہ محترمہ نے پھر صبح صبح ہلا کر رکھ دیا کہ تمھارا ہمسایہ بقر عید کیلئے آسٹریلین بیل لےکر آیا ہے پورے محلے میں اس کی واہ واہ ہو رہی ہے
میں اسی دن جا کر دو آسٹریلین