پہلا رخ
7 نبوی، عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا۔ پہلی بار سرعام آذان بھی دلوائی اور نماز بھی پڑھی۔
دوسرا رخ
بقول مودودی 12 نبوی کو واقعہ معراج پیش آیا جہاں 50 نمازوں کا تحفہ ملا جو موسی رسول اللہ کے کہنے پر گھٹتے گھٹتے 5 رہ گئیں
بالو بتیاں وے ماھی سانوں مارو سنگلاں نال 😜😜
ایک اور رخ
جب مسجد نبوی بنائی گئی تو ایک مجلس شوری بلائی گئی کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے بلایا جائے؟
مخلف آراء سامنے آئیں، جن میں نقارہ بجانا آگ جلانا وغیرہ شامل تھیں۔ پھر ایک صحابی نے کہا کہ مجھے کچھ الفاظ خواب میں سکھائے گئے ہیں۔
جب وہ سنے گئے تو فائنل ہوا کہ یہی آذان دی جائے
دوسرا رخ
معراج کے موقع پر یروشلم میں آذان بھی ہوئی۔ تکبیر بھی کہی گئی اور محمد رسول اللہ نے مرحوم انبیاء کرام کو باجماعت نماز بھی پڑھائی جبکہ نماز نامی عذاب تو ابھی ملا ھی نہیں
بس جو یہ ملاٹے ہمیں بتائیں اسے جانوروں کی طرح مانتے جاؤ۔ سوال نہ اُٹھاؤ۔ان عقل کے اندھوں کو اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ جس چیز پہ لوگوں کو سوال اُٹھانے سے روک دیا جائے تو پھر وہ چیز عقیدہ بن جاتی ہے اور جب اس عقیدے پہ اہل علم سوال اُٹھائیں تو پھر گردنیں اترتی ہیں علمی بحث نہیں ہوتی
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الـدُّنْيَا وَزِيْنَتَـهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَـمِيْلًا (28)
اے نبی اپنے ساتھیوں (لِّاَزْوَاجِكَ) سے کہہ دو کہ
اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کے عیش و آرام چاہتے ہو تو آؤ میں تمہیں مالا مال کر دوں اور تمہیں الوداع کہہ کر خوبصورتی سے علیحدہ کر دوں
وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۔۔۔۔۔اَجْرًا عَظِيْمًا (29)
لیکن اگر تم اللہ اور پیغام رساں کی رضاء کی خواہش کرتے ہو اور
مستقبل میں مقام حاصل کرنےکی تو پھر اس کا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے خوبیاں پھیلانے اور معاشرے کو توازن بدوش رکھنے والوں کے لیے بڑا عظیم اجر تیار کیا ہوا ہے۔
يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضَاعَفْ لَـهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ
مسلمانوں کے مذھبی افکار کی تاریخ میں "احمدیوں" نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی موجودہ غلامی کے لیے وحی کی سند مہیا کی جائے
سر ڈاکٹر محمد اقبال
"احمدیت اور اسلام"
انگریزی ایڈیشن صفحہ 127
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جہاد کو حرام قرار دیا جائے چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ "جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔
حضرت موسیٰ کے وقت اس قدر شدت تھی کہ
ایمان لانا بھی قتل سے نہیں بچا سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے پھر ہمارے نبی ص کے وقت میں بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذے سے نجات پانا قبول کیا گیا اور
اگر ہم پاکستان کے جمود، اخلاقی و عملی تنزل کے اسباب دریافت کرنا چاہیں تو جو وجہ سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جاہل، متعصب اور فرقہ پرست مولویوں، پیروں، فقیروں اور صوفیوں نے اس سلطنت کی قوت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ صرف لاہور میں مختلف فرقوں کی اتنی مساجد و مدارس ہیں کہ
شمار ممکن نہیں۔ ہر دس قدم پہ فرقہ پرستوں کی مسجد، مدرسہ، دارالعلوم، مزار، پیر خانہ، گنج بخش، جھولے لعل، داتا، میاں میر نظر آئے گا، جنکے گرد معتقدین کا ہجوم قدم بوسی و ماتھا ٹیکنے کے لیے حلقہ بنائے رہتے ہیں۔
ہر شریف آدمی، تاجر، سیاستدان کوئی نہ کوئی مسجد مدرسہ بناتا یا انکے اخراجات میں حصہ ڈال کر جنت میں بنے بنائے محل کی بکنگ کرواتے اور اپنے کھاتوں سے گناہ ختم کرواتے نظر آئیں گے۔
ان مذہبی بہروپیوں کا عوام اذہان پہ بہت گہرا تسلط ہے۔ یہ یا انکے چیلے چانٹے اور
درج ذیل آیات مبارکہ کی روشنی میں آذان سے لے کر سلام پھیرنے تک پانچوں نمازوں کی تفصیل، عیدین، نماز جنازہ، ختنہ، چھ کلمے، مروجہ حج، عمرہ، زکوٰۃ و صدقات اور اپنے اپنے فرقوں کے عقائد و تعلیمات قرآن سے ثابت کریں کیونکہ جو قرآن میں نہیں وہ اسلام نہیں بلکہ کفر ہے
اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّـهٝ عِوَجًا ۜ (18/1)
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر الکتاب یعنی قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّـٰهِ ۖ (6/57)
اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلے گا