سیرت النبیﷺ اور ہماری زندگی
تحریر : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ من کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)
آپ ﷺ کا تذکرہ باعث سعادت
۱۲؍ ربیع الاوّل ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور خاص کر برصغیر میں 👇
باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ آتا ہے تو سارے ملک میں سیرت النبی اور میلاد النبی کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل👇
یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ بلکہ صرف ۱۲؍ ربیع الاوّل کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے اور یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ ۱۲ ربیع الاوّل کو حضور نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی۔ اس لئے آپ کا یومِ ولادت منایا جائے گا اور 👇
اس میں آپ کی سیرت اور ولادت کا بیان ہوگا۔
👇
لیکن یہ سب کچھ کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ذاتِ اقدس کی سیرت کا یہ بیان ہورہا ہے اور جس ذات اقدس کی ولادت کا یہ جشن منایا جارہا ہے، خود اس ذاتِ اقدس کی تعلیم کیا ہے؟ اور اس تعلیم کے اندر اس قسم کا تصور موجود ہے یا نہیں؟
تاریخ انسانیت کا عظیم واقعہ
👇
اس میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا، تاریخ انسانیت کا اتنا عظیم واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم، اس سے زیادہ پُرمسرت، اس سے زیادہ مبارک اور مقدس واقعہ اس روئے زمین پر پیش نہیں آیا، انسانیت کو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا نور ملا،👇
آپ کی مقدس شخصیت کی برکات نصیب ہوئیں، یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ تاریخ کا اور کوئی وقعہ اتنا بڑا نہیں ہوسکتا اور اگر اسلام میں کسی کی یومِ پیدائش منانے کا کوئی تصور ہوتا تو سرکارِ دوعالمﷺ کی یومِ پیدائش سے زیادہ کوئی دن اس بات کا مستحق نہیں تھا کہ اس کو منایا جائے اور 👇
اس کو عید قرار دیا جائے۔ لیکن نبوت کے بعد آپ ۲۳ سال اس دنیا میں تشریف فرما رہے اور ہر سال ربیع الاوّل کا مہینہ آتا تھا، لیکن نہ صرف یہ کہ آپ نے ۱۲ ربیع الاوّل کو یومِ پیدائش نہیں منایا، بلکہ آپ کے کسی صحابی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہیں گزرا کہ چونکہ ۱۲👇
ربیع الاوّل آپﷺ کی پیدائش کا دن ہے اس لئے اس کو کسی خاص طریقے سے منانا چاہئے۔
۱۲؍ ربیع الاوّل اور صحابہ کرام
اس کے بعد سرکارِ دوعالم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور تقریباً سوا لاکھ صحابہ کرام کو اس دنیا میں چھوڑ گئے وہ صحابہ کرام ایسے تھے کہ 👇
سرکارِ دوعالم ﷺ ایک سانس کے بدلے اپنی پوری جان نچھاور کرنے کیلئے تیار تھے۔ آپﷺ کے جانثار، آپﷺ پر فداکار، آپﷺ کے عاشق زار تھے۔ لیکن کوئی ایک صحابی ایسا نہیں ملے گا جس نے اہتمام کرکے یہ دن منایا ہو یا اس دن کوئی جلسہ منعقد کیا ہو۔ یا کوئی جلوس نکالا ہو، یا 👇
کوئی چراغاں کیا ہو، یا کوئی جھنڈیاں سجائی ہوں،صحابہ کرام نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اسلام کوئی رسموں کادین نہیں ہے۔
👇
عورت اگر بیوی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ اگر تم میری جلد بھی مانگتی تو میں اتار کر دے دیتا جب یہی عورت بیٹی کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا بلکہ فرمایا میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے
اور 👇
جب یہ عورت بہن کے روپ میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی تم پیغام بھجوا دیتی میں سارے قیدی چھوڑا دیتا
اور جب یہ عورت ماں کے روپ میں آئی تو قدموں میں جنت ڈال دی گئی اور حسرت بھری صدا بھی تاریخ نے محفوظ کی فرمایا گیا 👇
اے صحابہ کرام کاش! میری ماں زندہ ہوتی میں نماز عشاء پڑھا رہا ہوتا
میری ماں ابھی محمد پکارتی میں نماز توڑ کر اپنی ماں کی بات سنتا
عورت کی تکلیف کا اتنا احساس فرمایا گیا کہ دوران جماعت بچوں کے رونے کی آواز سنتے ہی قرأت مختصر کردی
اے امت محمدیہ کی بیٹیوں آپ بہت عظمت والی ہو ۔
مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’جن ایام کو اسلام نے تہوار کے لیے مقرر فرمایا،ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکر ختم ہو چکا ہو،بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قرار دیا،جو ہر سال پیش آتے ہیں اور 👇
ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں عیدیں ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں ،جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں ، چنانچہ عیدالفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میرے بندے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے، اس کی خوشی اور انعام میں 👇
یہ عیدالفطر مقرر فرمائی اور عیدالاضحی ایسے موقع پر مقرر فرمائی جب مسلمان ایک دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے کہ حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ ۹؍ذوالحجہ کو ادا کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہو کر
اُس وقت لفظ کے معنی بے معنی ہوجاتے ہیں جب کسی ذات سے منسوب تاریخ میں کوئی ایک نام اپنی شخصیت و کردار سے اہم ہو جاتا ہے۔
مذکورہ جملے کا شعور ایک سات سالہ بچے نے بڑی عمر کے ایک شخص کو عطا کیا۔ ہوا یوں کہ مذکورہ بچے سے ایک صاحب نے پوچھا بچے آپ کا کیا نام ہے تو 👇
بچے نے عرض کیا "محمد یعسوب"۔
سائلِ محترم نے کہا یعسوب کے کیا معنی ہیں تو بچے نے ادب سے کہا میرا نام میرے والدِ محترم نے اچھے معنی کی وجہ سے میرا یہ نام نہیں رکھا بلکہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مبارک لقب عنایت فرمایا تھا اس طرح 👇
اس ایک نام میں ایک کی محبت اور دوسرے کے اوصاف کے لئے دعا و اطمنان ہے
مذکورہ شخص نے کہا میں اس کا معنی بتاکر آ پ کے علم میں اضافہ کئے دیتا ہوں، یعسوب اس شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو پھولوں سے رس چنتی ہے، اس کا مطلب راہ نما کے بھی ہیں۔ بچے نے مودبانہ عرض کیا 👇
صبح کے اذکار کے لیے سب سے اچھا وقت صبح صادق سے لے کر اشراق تک کا ہے، البتہ اگر اس وقت میں کسی سے رہ جائے تو زوال سے پہلے پہلے تک بھی کرسکتے ہیں۔ شام کے اذکار کا بہترین وقت عصر سے مغرب کے درمیان ہے، لیکن اگر اس وقت میں نہ ہوسکیں تو پوری رات میں کسی بھی وقت شام والے اذکار کیے 👇
جاسکتے ہیں۔ البتہ جن اذکار یا دعاؤں کے ساتھ حدیث شریف میں مثلاً مغرب کی نماز کے بعد پڑھنے کا ذکر ہو تو ان اذکار یا دعاؤں کو مغرب کی نماز کے بعد ہی پڑھنا چاہیے۔
اللہ رب العزت نے اس دنیا میں سب سے پہلے ’’میاں بیوی‘‘ کے تعلق سے انسانی عالم کی ابتدا فرمائی، اس تعلق کے مقاصد اور پختگی کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟
اس حوالے سے اللہ رب العزت کلامِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
👇
’’وَمِنْ اٰیٰتِہِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَا جًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمۃً۔‘‘ (الروم:۲۱)
ترجمہ:’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یہ ہے کہ 👇
اس نے تمہارے ہی وجود سے جوڑے پیدا فرمائے، تاکہ تم اس جوڑی کے ذریعے سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان اپنی قدرت سے محبت اور رحمت کا بیج بودیا۔‘‘
واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے تعلق کو سکون کے خزانے کی چابی قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ 👇
ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے رہتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟!
خطبۂ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن مشہور تین مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے، ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ 👇
تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’’تقویٰ۔‘‘
تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا مؤثر عنوان ہے، جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔اللہ رب ا لعزت نے خطبۂ نکاح میں تقویٰ وپرہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی کہ 👇
میاں بیوی ایک خوشگوار ازدواجی زندگی اور ایک پرسکون گھر اس وقت بنا سکیںگے، جب دونوں ’’تقویٰ وپرہیزگاری‘‘ کے زیور سے آراستہ ہوں، ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے، جس سے سچائی اور امانت کی انتہا ناپی جاسکتی ہے
اگر👇