رعنا ایوب کون ہے؟

رعنا ایوب بہادری، بے خوفی، بے باکی اور سچائی کا دوسرا نام ہے. 1/مئی/1984 کو ممبئی میں پیدا ہونے والی رعنا ایوب نے صحافت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد "تہلکہ" میگزین سے جڑ کر عملی صحافت میں قدم رکھا اور اس وقت سے لے کر آج تک بے باک اور بے خوف
صحافت کی مثال قائم کرتی چلی آرہی ہیں. ان کا پہلا بڑا کارنامہ اپنی رپورٹنگ اور صحافتی تحقیقات کے ذریعہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث امت شاہ کو جیل پہنچانا تھا جو اِس وقت مودی کے بعد ملک کا دوسرا سب سے طاقت ور شخص ہے. ان کے اِس کارنامہ نے انہیں ملک بھر میں ایک بے
خوف جرنلسٹ کے طور متعارف کروایا.
اس کے کچھ سالوں بعد رعنا ایوب نے "گجرات فائلس" نامی ایک ایسی کتاب لکھی جس میں انہوں نے گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے فرضی انکاونٹر اور مسلمانوں کے قتل عام پر اپنی تفتیش پیش کی، اس کتاب نے گجرات مسلم کش فساد کے مجرموں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا. اور
"گجرات فائلس" نامی کتاب لکھ کر رعنا ایوب لازوال ہوگئیں.

اس کتاب کو لکھنے کی کہانی پڑھ کر آپ حیرت کے سمندر میں غرق ہو جائیں گے کہ کس بہادری اور بے خوفی سے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اور انسانوں کی شکل میں موجود خونخوار بھیڑیوں کے جھنڈ میں گھس کر رعنا ایوب نے گجرات مسلم کش فساد
اور مسلمانوں کے فرضی انکاونٹرز کا سچ حاصل کیا ہے.
رعنا ایوب کو چونکہ قاتلوں، ظالموں، اور زانیوں سے ان کی حقیقت اگلوانی تھی تو اس مقصد کے لیے رعنا ایوب نے اپنی شناخت تبدیل کی اور رعنا ایوب سے "میتھلی تیاگی" بن گئیں، اپنے آپ کو امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ کا اسٹوڈنٹ ظاہر کیا، خود کو
آر ایس ایس کی حامی اور اپنے والد کو آر ایس ایس کا پرچارک (مبلغ) بتایا. رعنا ایوب یہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد ایسے لوگوں میں گھس گئیں جو ہزاروں مسلمانوں کے قاتل تھے، جن کا دل بھیڑیوں کا تھا، جو انسانیت سے عاری تھے، جنہوں نے حاملہ ماؤں کے پیٹ چیر کر ان کے بچوں کو آگ میں پھینک
دیا تھا، ہزاروں مسلمان مرد و عورت کو زندہ جلادیا تھا، کئی مسلم مرد و عورت کا فرضی انکاؤنٹر کردیا تھا. جو سرکاری و سیاسی لیڈر اور پولیس آفیسرز براہ راست اس ظلم میں شامل تھے رعنا ایوب کو براہ راست ان سے معلومات حاصل کرنی تھی، اس کام میں پکڑے جانے پر رعنا ایوب کو جان سے مار دیے
نے کا بھی امکان تھا. ایک عورت ہو کر سچائی کو سامنے لانے کے لیے، ظالموں کو بے نقاب کرنے لیے اور انصاف کے حصول کے لیے رعنا ایوب اپنی اس انتہائی خطرناک اور کامیاب مہم سے صحافت کی تاریخ میں لازوال ہوگئی ہیں اور جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے بے باکی و بے خوفی کی مثال بھی بن گئی ہیں
ان کی یہ ایک ایسی کامیاب مہم ہے جس کے صرف تصور سے ہی اچھے اچھوں کا پسینہ چھوٹ جاتا ہے.

رعنا ایوب نے فرنٹ لائن نامی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کئی بار ایسا ہوا کہ جب لگا کہ اب میرا راز فاش ہوجائے گا لیکن میں بچ گئی. کہتی ہیں کہ ایک بار وہ سابق ڈی جی پی گجرات کے گھر
پر تھیں، ڈی جی پی انہیں میتھلی تیاگی کی حیثیت سے ہی جانتا تھا، اچانک ڈی جی پی نے اپنے ایک مسلم وکیل دوست کو کافی پر مدعو کرلیا، اور وہ مسلم وکیل رعنا ایوب کو پہچانتا تھا، رعنا ایوب کہتی ہیں کہ اس وقت میرے پاس اپنے آپ کو بچانے کا کوئی آپشن نہیں تھا، میں نے پیٹ درد کا بہانہ کیا اور
باتھ روم میں ایک گھنٹہ خود کو بند رکھا، اس کے بعد طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے ڈی جی پی سے اسی کے گھر کے ایک روم میں آرام کرنا چاہا اور اس وقت تک کمرہ میں بند رہی جب تک وہ میرا جاننے والا وکیل وہاں سے چلا نہیں گیا.

اسی طرح دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے رعنا ایوب بتاتی ہیں کہ ایک
بار ایک سینیر پولیس آفیسر نے انہیں سنیما ہال چلنے کی پیشکش کی، اور وہ آفیسر کے ساتھ چل پڑیں، لیکن جب سنیما ہال پہنچیں تو وہاں میٹل ڈیٹیکٹر لگا دیکھ کر رعنا ایوب کے پسینے چھوٹ گئے کیونکہ رعنا ایوب کے کرتہ میں ایک خفیہ کیمرہ چھپا ہوا تھا جو میٹل ڈیٹیکٹر کی پکڑ میں آسانی سے آجاتا
جس سے رعنا ایوب کا راز فاش ہوجاتا. لیکن پھر پولیس آفیسر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ وہ دونوں Security Process سے بچ گئے اور بغیر کسی جانچ کے اندر چلے گئے.
اس طرح رعنا ایوب ان قاتلوں کے بیچ 10/ مہینے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر معلومات اور ان کے راز حاصل کرتی رہیں.
اتنی خطرناک تفتیش مکمل کرنے کے بعد رعنا ایوب نے سارے ریکارڈ اور مواد جب "تہلکہ" میگزین کو دیے تو تہلکہ والوں نے اس کی خطرناکی کے پیش نظر اسے شائع کرنے سے صاف انکار کردیا، حالانکہ خود رعنا ایوب تہلکہ میگزین کی ایک سینیر کالمسٹ اور رپورٹر تھیں. اس کے بعد انہوں نے اپنی تفتیش اور
تحقیقات کو شائع کرانے کے لیے ہندوستان بھر کے مشہور پبلشرز سے بھی رابطے کیے لیکن سب نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے اسے شائع کرنے سے انکار کردیا. آخر رعنا ایوب نے خود ہی اپنی ان تحقیقات کو "گجرات فائلس" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا. کتاب کا منظر عام پر آنا تھا کہ صحافت کی دنیا
سے لے کر سیاست و بیوروکریسی کی دنیا میں کھلبلی مچ گئی، کتاب میں اتنے خطرناک حقائق سامنے لائے گئے تھے کہ ممبئی اور احمد آباد کے بک اسٹورز نے کتاب کو اپنے اسٹال پر رکھنے سے ہی منع کردیا، لیکن یہ کتاب آن لائن اتنی بڑی تعداد میں فروخت ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے "گجرات فائلس
" Best-seller بن گئی، اب تک سترہ زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد لوگوں نے بھی اعتراف کیا کہ ایسی انوکھی، خطرناک، مبنی بر حقیقت اور جرأتمندانہ تحقیق گنے چنے صحافیوں نے بھی پیش نہیں کی ہے، Outlook نامی میگزین نے ان کی اس تحقیق کو
20/ بڑی عالمی تحقیقات میں شمار کیا. اس پر انہیں ایوارڈز ملے، دنیا کے مشہور ترین عالمی مجلہ Time Magazine نے رعنا ایوب کو دس سب سے بڑے صحافیوں میں شامل کیا، اس طرح رعنا ایوب کا شمار اس وقت عالمی سطح پر بڑے اور مستند صحافیوں میں ہونے لگا ہے، لیکن اس کتاب نے جس ہندوتوا انتہا پسندوں
اور مسلمانوں کے سنگ دل قاتلوں کے طبقہ کی پول کھولی تھی وہ طبقہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد رعنا ایوب کے پیچھے پڑ گیا، انہیں جان سے مارنے کی اور ان کی عزت تار تار کرنے کی دھمکیاں کھلے عام دی جانے لگیں، انہیں مسلسل سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا، لیکن رعنا ایوب ان سب دھمکیوں سے ذرا بھی
نہیں ڈریں اور آج بھی محاذ پر مضبوطی سے ڈٹی ہوئی ہیں اور مسلسل سچ لکھ کر ظالموں کو عالمی سطح پر بے نقاب کررہی ہیں.

رعنا ایوب دیگر ہندوستانی نام نہاد سیکولر صحافیوں کی طرح مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی لیپاپوتی نہیں کرتی ہیں، وہ مسلمانوں پر ہونے والے یکطرفہ ظلم کو اور مسلمانوں کے
یکطرفہ قتل عام کو ہندو مسلم فساد کا نام نہیں دیتی ہیں، بلکہ اسے مسلم کش فساد اور مسلمانوں کا قتل عام ہی کہتی ہیں، وہ یہ کہہ کر مسلمانوں کا مقدمہ کمزور نہیں کرتی ہیں کہ دونوں طرف کے طبقہ کا برابر نقصان ہوا، وہ یہ جھوٹ بھی نہیں بولتی ہیں کہ یہ قتل مسلمان یا ہندو کا قتل نہیں بلکہ
Sketch by Chahat Hussain

[End ]

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Mr. Faceless

Mr. Faceless Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Faceless9455

19 Jul 20
A thread on beef export & how corona is affecting it in India

• India exported 2.4 million tonnes of beef and veal in FY2015, compared to 2 million tonnes by Brazil and 1.5 million by Australia.

•These three countries account for 58.7 % of the world's export.

[1]
• Data from the Centre for Monitoring Indian Economy (CMIE) shows that most of India’s buffalo meat exports go to Asian countries — Asia receives more than 80 per cent, while Africa takes around 15 per cent. Within Asia, Vietnam is the largest recipient, at 45 per cent.

[2]
• India’s buffalo meat exports have been growing at an average of nearly 14 per cent each year since 2011, and fetching India as much as $4.8 billion in 2014. Last year, India for the first time earned more from the export of buffalo meat than it did from Basmati rice.

[3]
Read 11 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(