کچھ دن پہلے میں ایک شاپنگ مال کے باہر کھڑا اپنی بیگم کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک بہت خوش پوش اور شستہ زبان بولنے والے صاحب نے میری گاڑی کی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا اور ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ انھوں نے بہت محبت سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور
اپنا تعارف کروایا، I am Tayyab. کیا ہم آپ سے بات کر سکتے ہیں؟ میں گاڑی سے اترا اور ان کی جانب متوجہ ہوا اور کہا" جی فرمائیے".
طیب خان ہے میرا نام، میں 78 سال کا ہوں۔ میری کچھ خواہشیں ہیں۔ کیا آپ پوری کر دیں گے؟میں نے بھی کچھ ویسا ہی سوچا جیسے آپ سب نے لکھا ہے۔
میں بھی ان کو لیکچر دینے کے موڈ میں تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگیں وغیرہ۔ مگر میں نے سوچا کہ یہ جو بھی ہے۔ سچا ہے یا مکار، اسے میرے پاس اللہ پاک نے ہی بھیجا ہے۔ تو کیوں نہ پہلے اس سے اس کی بات سن لوں۔ میں نے کہا جی میں کوشش کروں گا، آپ حکم فرمائیں۔ ان کے چہرے پر ایک حیرت اور
خوشی کے ملے جلے اثرات ابھرے۔ انھوں نے کہا، کیا واقعی آپ کوشش کریں گے؟ میں نے انھیں یقین دلایا اور تحمل سے ان کی بات سننے کے لیے ان کی جانب متوجہ ہوا۔
میں ایک ٹیکسٹائل مل کا مالک تھا۔ پچھلے سیاسی دور میں بھتہ نہ دینے پر مجھے قتل کی دھمکیاں ملیں تو سب کچھ چھوڑ کر بنگلہ دیش چلا گیا
اور وہاں گارمنٹس فیکٹری لگا لی۔ کچھ عرصہ تو سسٹم ٹھیک چلا مگر پھر مجھے میرے بنگالی پارٹنر نے دھوکہ دیا اور مجھے نہ صرف وہاں سے بھگا دیا بلکہ میرا سب کچھ کھا گیا۔ پاکستان واپس آیا تو میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا مل بند پڑی تھی اور سرمایہ کاری کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔
بڑے بیٹے نے مل اپنے نام کروائی اور مجھے گھر سے نکال دیا۔ مل کی جگہ اس نے کالونی بنا دی۔ میں کچھ عرصہ تو اپنی بہن کے ساتھ رہا مگر ان کے شوہر کو اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے میں وہاں سے بھی نکل آیا۔ بیٹے سے ملا مگر اس نے ذلیل کرکے نکال دیا۔ پھر میں ایک مسجد میں گیا اور
وہاں کے امام صاحب سے مسجد کی خدمت اور بچوں کو پڑھانے کی درخواست کی اور رہنے کے لیے جگہ مانگی تو وہ مان گئے۔ چار سال سے وہیں ہوں۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ بن ٹھن کر نکلوں اور کافی پی لوں۔ میں دن میں تین کپ کافی پیتا تھا۔ کافی کا مجھے جنون تھا۔ اب جب بھی کبھی ایک دو ماہ بعد
دل کرتا ہے تو اپنی واحد پوشاک یہ کپڑے پہن کر یہاں آتا ہوں اور کسی ایک شخص کو جو مجھے اللہ والا دکھتا ہے میں کافی پلانے کی درخواست کرتا ہوں۔ مان جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور نہ مانے تو واپس چلا جاتا ہوں۔ کیا آپ مجھے کافی پلا سکتے ہیں؟
میں زمین سے جیسے چپک کر رہ گیا تھا۔
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ آنکھیں نم تھیں۔ میں نے ان کا ہاتھ تھاما اور بیگم کو فون کیا کہ وہ میرے فون پر ہی لوٹے کیونکہ میں ایک دوست کے ساتھ کافی پینے جا رہا ہوں۔ پاس ہی گلوریا جینز کے کیفے پر لے جا کر میں نے طیب صاحب کو ان کی پسند کی کافی اور کیک کھلایا۔ انھوں نے دو مگ پیئے۔
ہم نے مزید باتیں نہیں کی اور خاموشی سے کافی پینے کے بعد باہر نکل آئے۔ میں نے ان کو مسجد تک چھوڑنے اور ان کی کچھ مالی امداد کرنے کی اجازت چاہی تو بولے، تاثیر صاحب اب اور کوئی خواہش باقی نہیں رہی۔ اللہ پاک آپ کو بہت زیادہ عطاء فرمائے آمین۔ مجھ سے مصافحہ کیا اور چلے گئے۔
میں کھڑا ان کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور وہ بغیر پیچھے مڑے بہت شان سے چلتے ہوئے میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔
کسی کی خواہش کی تکمیل کے لیے سوچا نہ کریں اور لیکچر نہ دیا کریں۔ یہ جو آپ کے در پر دستک دیتے ہیں اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔
دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔۔
ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں
اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟
پاکستان اس وقت دنیا میں ترقی کے سب سے زیادہ امکانات رلھنے والا ملک ہے افغانستان سے امریکیوں کی رخصتی کے بعد بننے والے منظر نامے میں پاکستان کو براستہ افغُانستان وسط ایشیا اور اس سے آگے روس اور مشرقی یورپ تک رسائی حاصل ہورہی ہے اس امر سے ہر خاص و عام واقف ہے کہ وسط
ایشیائی ریاستیوں کو سمندر تک رسائی حاصل نہیں ہے اس کمی کی وجہ سے وہ اپنی تجارت سمندری راستے سے کرنے سے قاصر ہیں ان کے لیے اس گمبھیر مسئلے کا سب سے آسان حل گوادر کی پاکستانی بندرگاہ ہے جہاں سے وہ باآسانی پوری دنیا تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں یہی کیفیت روس کی بھی ہے جسے اپنی
تجارت کے لیے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی درکار ہے
یہ ساری کیفیت بڑی خوش کن ہے خبریں یہ بھی ہیں کہ گوادر پورٹ مکمل فعال ہونے کو ہے گوادر کا بین الاقوامی ائیرپورٹ مکمل ہوتے ہی یہاں تمام تر سرگرمیاں بھرپور چور پر شروع ہوجائیں گی اور بتایا یہ جارہا ہے کہ 2023 تک یہ ائیرپورٹ
بغداد کے بازار میں ایک حلوائی صبح صبح اپنی دکان سجا رہا تھا کہ ایک فقیر آنکلا تو دکاندار نے کہا کہ باباجی آؤ بیٹھو
فقیر بیٹھ گیا تو حلوائی نے گرم گرم دودھ فقیر کو پیش کیا. فقیر نے دودھ پی کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس
حلوائی کو کہا کہ بھائی تیرا شکریہ اور یہ کہہ کرفقیرچل پڑا۔
بازار میں ایک فاحشہ عورت اپنے دوست کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ کر موسم کا لطف لے رہی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی، بازار میں کیچڑ تھا، فقیر اپنی موج میں بازار سے گزر رہا تھا کہ فقیر کے چلنے سے ایک چھینٹا اڑا اور
فاحشہ عورت کے لباس پر گر گیا۔ جب یہ منظر فاحشہ عورت کے دوست نے دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا۔ وہ اٹھا اور فقیر کے منہ پرتھپڑ مارا اور کہا کہ فقیر بنے پھرتے ہو، چلنے پھرنے کی تمیز نہیں؟
فقیر نے ہنس کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا
مالک تو بھی بڑا بے نیاز ہے، کہیں سے دودھ پلواتا ہے اور
نواز شریف آپنے دور حکومت میں اس وقت کی آپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے منع کرنے کے باوجود کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت کی jurisdiction قبول کر گیا تھا باوجود اسکے وہ انکار کر دیتا تو عالمی عدالت یہ کیس سن نہیں سکتی تھی اور آپنا وکیل بھی نہیں بھیجا تھا پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں
عالمی عدالت میں آپنا وکیل بھیجا اور ہمارے وکیل اور گورنمنٹ نے ثابت کیا ثبوتوں کیساتھ کہ کلبھوشن انڈین جاسوس ھے اور اسکا پاسپورٹ بیان وغیرہ سب وہاں دکھائے عالمی عدالت نے کیس کا پاکستانی موقف مانتے ہوئے جاسوس ڈکلیئر کیا اور پاکستانی موقف کی تائید کی بیشک پاکستان اسکو رہا نا کرے مگر
آرڈر میں ایک چیز کہی کہ اسے عالمی قوانین کے مطابق اپیل کا ایک حق دیا جائے کیونکہ کلبھوشن کو آرمی عدالت سے پھانسی کی سزا دی گئی ھے اس لیئے اگر پاکستان حکومت اس وقت عالمی عدالت کی بات نہیں مانتی تو انڈیا اس کیس کو دوبارہ عالمی عدالت لے جائے گا اور پھر عالمی عدالت اسکو رہا کرنے کا
🔥 کیا یہ ایک اتفاق ہی ھے کہ *چھ ممالک , جرمنی ،کنیڈا ، امریکہ، فرانس ، انڈیا* ،
*برطانیہ,* کے جو *سفیر* عراق کی تباھی کے وقت بغداد میں تعینات تھے ، وھی لیبیا کی تباھی کے وقت طرابلس میں اور شام کی تباھی کے وقت دمشق میں تعینات تھے ، ان پانچ ممالک کے وھی *سفیر* آج *
اسلامی جمہوریہ پاکستان* کے دارالخلافے اسلام آباد میں تعینات ہیں ؟؟؟
*امید ھے کہ پاکستانی کسی قسم کی ،شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی، لسانی یا صوبائی تعصب کی واردات کا شکار نہیں ھونگے*، یہی وہ جال لے کر شکاری آ پہنچے ہیں *جنہوں نے شام میں شیعہ سنی فساد کا کھیل رچایا ،
عراق میں بھی شیعہ سنی کا دانہ ڈالا ، لیبیا میں قبائلی تعصب کو بھڑکایا گیا*ـ یہ چھ کے چھ مسلم دنیا کی کمزوریوں سے خوب آگاہ ہیں اور اپنے پتے کھیلنا خوب جانتے ہیں ـ ھم میں سے ہی کچھ میر صادق چنے جائیں گے اور گھناونا کھیل کھیلا جائے گا ، *کسی بھی واقعے میں ملزمان کے مذھب کو لے کر
ڈاکٹر مالا علی کردستانی کون؟
فریب کا قریب سے جائزہ
فیس بک کی بڑی سی پیالی میں چند روز سے طوفان اٹھا ہوا ہے کہ ایک مسیحا نازل ہوئے ہیں
اور وہ اندھوں ،گونگوں ،بہروں ، معذوروں کا علاج پلک جھپکتے کرتے ہیں۔ اب ایسے آدمی کو میری لغت میں تو شعبدہ باز کہیں گے۔کیوں کہ ایسا جادو
یا معجزے سے ہی ممکن ہے فی زمانہ۔
مگر کچھ لوگ وقت کی رفتار کے ساتھ علم و عمل میں
ترقی نہیں کرتے۔
میڈیکل سائنس نے کتنی ترقی کر لی ہے ، کورونا کی ویکسین بن کر آگئی ہے مگر پھونکوں کا کوئی متبادل نہیں۔
معصوم بلکہ جاہل لوگوں کو راغب کرنے والے ایسے ڈھونگی معالج
ہر اس قوم میں پائے جاتے ہیں جنھوں نے زمانے سے پیچھے رہنے اور جہالت میں زندہ رہنے کی قسم کھائی ہو۔
عراق جیسا ملک جو کبھی علم و فن کا مرکز بلکہ استعارہ ہوا کرتا تھا۔ بغداد کی علمی درسگاہوں کے شکوہ و شان سے کس کافر کو انکار ہے؟
وہی بغداد ،وہی عراق جہاں بو علی سینا جیسے