غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو وہاں کس طرح رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی معروضات کو درج ذیل دائروں میں پیش کریں گے۔👇
امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے جو وہاں ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں جس کے ذریعے انہیں وہاں کا ویزا اور رہنے کی اجازت ملی ہے، انہیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔
👇
غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے اپنے عقیدہ و ایمان، شرعی فرائض و واجبات کی ادائیگی اور اپنی اگلی نسل کے ایمان و اعمال کی حفاظت کا اہتمام کرنا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر کسی غیر مسلم ماحول میں وہ اپنے دینی فرائض و احکام پر عمل نہیں کر سکتے یا 👇
اپنی نئی نسل کے ایمان و عقیدہ اور دین سے وابستگی برقرار رہنے سے مطمئن نہیں ہیں تو ان کا اس ماحول میں رہنے کا شرعی جواز باقی نہیں رہے گا۔
مسلمانوں کو وہاں کے اجتماعی نظام میں شرکت کے مواقع کو استعمال کرنا چاہیے بلکہ ایسے مواقع تلاش کر کے ان سے استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ 👇
وہ اسی صورت میں وہاں کے نظام و ماحول میں مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے باوقار زندگی کی صورتیں مہیا کر سکتے ہیں۔
ان غیر مسلم ممالک کے قانون و دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے اگر 👇
اپنے شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے کوئی قانونی سہولت میسر ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امریکہ، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک کے دستور و قانون میں مسلمانوں کے لیے نکاح و طلاق اور دیگر خاندانی معاملات میں باہمی تنازعات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے 👇
شرعی عدالتوں کے قیام کی گنجائش موجود ہے اور وہاں کے مسلمان اس سے کسی حد تک استفادہ بھی کر رہے ہیں۔
اور آخری بات یہ عرض ہے کہ کسی غیر مسلم معاشرہ میں رہنے والے مسلمان وہاں اسلام کے سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں، انہیں 👇
وہاں کے ماحول کے مطابق اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کوئی مؤثر طریق کار ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات کار کی نوعیت
دوسری بات ہم نے آپ سے عرض کی تھی، ذکر اللہ ، ذکر اللہ کا اہتمام کریں ، ذکر اللہ کے حوالے سے آپ علماء کے بڑے قیمتی بیانات سنیں گے، بڑی بڑی قیمتی باتیں آپ کو سننے میں ملیں گی، میں بھی کئی کئی مرتبہ اس عنوان پر کئی اعتبار سے بیان کیا کرتاہوں ، لیکن 👇
آج میں آپ سے ایک اور عنوان سے بات کرتا ہوں۔ قرآن نے کہا ہے۔
ولذکر اللہ اکبر (العنکبوت:45)
اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل کائنات، یہ پوری کی پوری دنیا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کے میدان، اس کے کوہسار، اس کے درخت، اس کے کھیت،👇
اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے،ایک میں نہیں کر رہااور آپ نہیں کر رہے اور جب تک یہ ذکر رہے گا یہ دنیا رہے گی اور جب یہ ذکر نہیں رہے گا یہ دنیا نہیں رہے گی۔
کوئی بھی دل کے احوال کی طرف متوجہ نہیں ہے ، جب کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دل ٹھیک سب ٹھیک، دل خراب سب خراب“۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس مسئلہ کا ”کہ دل ٹھیک ہو جائے، حالات ٹھیک ہو جائیں“، دل کا اعراض ختم ہو جائے، اور دل کا بگاڑ ختم ہو جائے۔
👇
دل کی اصلاح کے لیے دو کام
اس کے لیے دو کام ہیں:
ایک صحبتِ اہل اللہ
اور
دوسرا کثرتِ ذکر اللہ۔
آپ کو معلوم ہو گا، آپ خوب جانتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، اور عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، اصحاب بیعت رضوان، 👇
فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے، فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے ،رضی اللہ عنہم اجمعین یہ سب کون ہیں؟ صحابی ہیں ، ہیں نا؟ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے مرید تھے یا نہیں ؟یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے شاگرد تھے یا نہیں؟لیکن نہیں کہا گیا کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ارادت مند ہیں۔ 👇
مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال مرحوم اس لحاظ سے تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت ہیں کہ ہر باطل گروہ نے ان کے متنوع کلام میں سے اپنے مطلب کی باتیں نکال کر انہیں اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے:
جیسے
اشتراکیت کے پرچار میں ان کا کلام پیش کیا جاتا ہے
👇
حدیثِ رسولؐ کے منکرین نے انکارِ حدیث کے لیے علامہ اقبالؒ کے کلام کا سہارا لیا ہے،
اور تو اور قرآن و سنت کو چودہ سو سالہ اجماعی تعامل اور تشریح سے الگ کر کے منتخب پارلیمنٹ کے حوالہ کر دینے کی فتنہ انگیز فکر کی بنیاد بھی علامہ اقبال کے بعض خطبات کو بنایا گیا تھا
👇
پھر الزام لگایا جاتا ہے
علماء نے اجتہاد کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور وہ مختلف فرقوں اور فقہوں میں بٹ گئے ہیں اس لیے ان میں اجتہاد کی اہلیت نہیں رہی۔
جدید دور میں شریعت کی تعبیر اور اجتہاد کا حق منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
دین کی اجماعی تعبیر جو حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کے چودہ سو سالہ تعامل کی صورت میں چلی آرہی ہے اس تعبیر و تشریح سے ملت اسلامیہ کو ہٹانے اور قرآن و سنت کو جدید تعبیر و تشریح کی سان پر چڑھانے کے لیے استعماری قوتیں اپنے آلۂ کار عناصر کے ذریعے 👇
ایک عرصہ سے مسلم معاشرہ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ نصف صدی قبل تک بیشتر مسلم ممالک پر سامراجی قوتوں کے غلبہ و استعلاء کے دور میں سامراجی آقاؤں نے مسلسل سازشوں اور محنت کے باوجود جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کو دین کی بنیاد قرآن و سنت سے برگشتہ کرنا ممکن نہیں ہے تو 👇
انہوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی اور صریح کفر کی بجائے الحاد و زندقہ کے راستہ سے مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانے کے لیے فکری فتنوں کا دروازہ کھول دیا۔ ان تمام فتنوں کا بنیادی ہدف قرآن و سنت کی چودہ سو سالہ اجماعی تعبیر و تشریح اور امتِ مسلمہ کا اجماعی تعامل راہ ہے 👇
ہمارے ہاں جب پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما سمیت یہ خطہ، جو برصغیر کہلاتا ہے، متحد تھا اور مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہی بحث و مباحثہ اس قسم کے عنوانات سے ہوتا تھا کہ یہاں رہنے والے ذمی ہیں یا معاہد ہیں اور یہاں کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی ہیں👇
۔ اس علاقہ میں اسلام مجاہدین کی جنگوں کے ذریعے بھی آیا ہے، صوفیاء کرام کی دعوت و اصلاح کی محنت سے بھی آیا ہے اور تاجروں کی آمد ورفت بھی فروغِ اسلام کا ذریعہ بنی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاد کے ذریعے مغلوب ہونے والے لوگوں اور علاقوں کی حیثیت از خود مسلمان ہوجانے والے لوگوں اور 👇
علاقوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے یہاں ہمارے فقہی مباحث کا ایک وسیع دائرہ ماضی کے علمی ذخیرہ میں ملتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دور میں ہمیں اس سلسلہ میں مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں:
جیسا کہ اللہ نے فرمایا
"وَاَحسِنُوا اِنَّ اللّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ"
احسان کرو بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اہم نکتہ: الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (سورۃ الملک:2)
👇
آج کل مسلمانوں کا زور اعمال کی کثرت اورطوالت پر ہے۔جب کہیں بات نکلتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نے سترہ حج کرلئے، وہ اتنے روزے رکھتا ہے، اس نے اتنا چندہ دیا۔ حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن میں کہیں بھی اَکثرُ عملاً نہیں فرمایا۔ قرآن مجید میں اعمال وافعال کے لئے 👇
جہاں بھی ذکر آیا ہے " احسن عملا"آیا ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت کو اعمال کی کثرت اور طوالت مطلوب نہیں ہے دوسرے الفاظ میں اسلام Qurality مانگتا ہے Quantity نہیں اور اس حُسن کے ساتھ دوسری اہم چیز جو مطلوب ہے وہ مداومت ہے اگرچہ 👇