تازہ اپڈیٹ 5جوں2020
پاکستان میں ان دنوں اہم حکومتی عہدوں سرکاری اداروں میں کئی حاضر سروس اور سابق فوجی افسران تعینات ہیں جنکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاھے
جبکہ یہ عہدےسولین کاحق ھے
ہم سرکاری عہدوں پرحاضر اور ریٹائرڈ سروس فوجی افسران کی تعیناتی پرکئی حلقےتشویش کا اظہار
👇1/24
کر رہےہیں اور اس معاملےپر سوشل میڈیا پر بھی گاہےبگاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں
حال ہی میں وزیرِاعظم پاکستان کی معاونِ خصوصی برائےاطلاعات فردوس عاشق اعوان کی جگہ جب لیفٹینٹ جنرل(ر)عاصم سلیم باجوہ کو تعینات کیاگیا تو یہ بحث مزید زور پکڑ گئی
بعض تجزیہ کاروں کایہ خیال ہےفوج
👇2/24
کیونکہ ایک ڈسپلن فورس ہےلہذٰا سابق فوجی افسران کی مہارت سےاستفادہ کرنےمیں کوئی حرج نہیں
البتہ بعض تجزیہ کار اسےسیاسی حکومتوں کی کمزوری قرار دیتےہیں کہ وہ سول افسران کی صلاحیتوں سےفائدہ اُٹھانےمیں ناکام رہی ہیں
ناقدین یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ ماضی میں ایساصرف فوجی
👇3/24
دورِ حکومت میں ہوتاتھاایک سویلین حکومت کے ہوتے ہوئےریٹائر فوجی افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتیاں کیوں کیجا رہی ہیں؟
پاکستان میں سویلین حکومت کاحساس اداروں پر موثرکنٹرول نہیں
کن اہم عہدوں پرسابق فوجی افسران تعینات ہیں؟
پاکستانی کی وفاقی حکومت کے علاوہ ملک کی چاروں صوبائی
👇4/24
صوبائی حکومتوں اور محکموں میں بھی کئی اہم عہدوں پر ریٹائر اور حاضر سروس فوجی افسران تعینات ہیں۔
حکومتِ پاکستان کی اہم وزارتِ داخلہ کی باگ ڈور بھی ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ خفیہ ایجنسی(آئی ایس آئی) پنجاب کے سربراہ کے علاوہ سابق ڈائریکٹر
👇5/24
جنرل انٹیلی جنس بیورو بھی رہ چکےہیں
اسیطرح پاکستانی فوج کےسابق ترجمان اور سابق کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے علاوہ معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات بھی ہیں
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل بھی پاکستان فضائیہ کے
👇6/24
ریٹائرڈ اسکوارڈن لیڈر شاہ رخ نصرت ہیں جن کے ساتھ فضائیہ کے ہی کئی ریٹائرڈ افسران کام کر رہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کےمعاونِ خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ
وزیراعظم پاکستان کےمعاونِ خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ
لیفٹینٹ جنرل(ر)مزمل حسین اسوقت واپڈا کے چیئرمین
👇7/24
ہیں
اینٹی نارکوٹکس فورس کےڈائریکٹر جنرل کا عہدہ ایک عرصہ سے پاکستان فوج کےحاضر سروس میجرجنرل کےپاس ہےاور اسوقت میجرجنرل عارف ملک اس عہدے پر کام کر رہےہیں
ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کے سربراہ کا عہدہ بھی حاضر سروس ٹو اسٹار آرمی آفیسر میجر جنرل ظفر الحق کے پاس ہے۔
👇8/24
پنجاب پبلک سروس کمیشن کی سربراہی لیفٹینٹ جنرل (ر) مقصود احمد کر رہےہیں
انکےساتھ دو ریٹائرڈ افسران میجر جنرل اشرف تبسم اور کیپٹن خالد پرویز بھی اس کمیشن کے رکن ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی سربراہی تھری سٹار حاضر سروس جنرل لیفٹینٹ جنرل محمد افضل
👇9/24
کر رہے ہیں۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل (فائل فوٹو)
نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ لیفٹینٹ جنرل (ر) سید انور علی حیدر کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اسی ادارے میں مزید فوجی افسران کو بھی حالیہ دنوں میں تعینات کیا گیا ہے۔
اہم عہدوں پر فوج کے سابق افسران کی
👇10/24
تعیناتیوں کےسوال پر فوج کےہی سابق لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتےہیںکہ یہ تاثر درست نہیں کہ فوجی افسران ہر جگہ پر تعینات ہیں
اُنکا کہنا ہےکہ آرمی افسران کو اکثر انکی مہارت کی وجہ سے اداروں میں لایا جاتا ہے، بیشتر فوجی افسران کے آنے سے ان اداروں نے بہترین نتائج دیے ہیں
👇11/24
ریٹائرڈ افسران بھی اسی قوم کا حصہ ہیں
امجد شعیب کےمطابق اگرPIA کی مثال لیں تو وہاں ایئر مارشل نور خان نے اسکو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ لیکن ان کے بعد آنے والے سول افسران اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے
امجد شعیب کےبقول اب اگرPIA
👇12/24
ایئر مارشل چلا رہے ہیں
اسی لئے تباہی کے ڈھانے پر پہنچایا ھے
بہت سے ادارے ایسے ہیں جو براہِ راست سیکیورٹی سے منسلک ہیں لہذا اگر وہاں پر فوجی افسران تعینات ہوں تو وہ زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ یہ کون فیصلہ کرتا ھے کہ اس ادارے کا سربراہ فوج ہونا چاہئے
مثلاً ایئر پورٹ
👇13/24
سیکیورٹی فورس یا پھر اے این ایف کے ادارے ہیں۔
شبلی فراز یا عاصم سلیم باجوہ، وزارتِ اطلاعات چلائے گا کون؟
دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ حکومت ڈیلیور نہیں کر پا رہی، ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ لہذٰا اس حکومت کا بھرم رکھنے
👇14/24
کے لیے فوجی افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ عمران خان کی حکومت بھی چلتی رہے اور اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہو سکے۔
عائشہ صدیقہ کے بقول آرمی چیف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع لی، لہذٰا اب وہ فیصلہ سازی میں شراکت دار ہیں۔
👇15/24
کیا یہ سیاسی حکومت کی کمزوری ہے؟
اس پر تجزیہ کار مظہر عباس کہتےہیں یہ بات درست ہےکہ یہ سیاسی حکومت کی کمزوری ہےکہ وہ سول اداروں کو چلانے کیلئےقابل سول افسر تعینات نہیں کر سکی
انکے بقول اسکی اصل وجہ بیڈ گورنس ہےجو نہ صرف اس حکومت بلکہ ماضی کی حکومتوں کا بھی مسئلہ رہی ہے
👇16/24
اُن کا کہنا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں ریٹائرڈ نیول افسران کو لگایا جاتا رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت کئی ادارے ایسے تھے جہاں فوجی افسران کو لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں کہا گیا کہ ریٹائرڈ افسران کا فوج سے کوئی تعلق نہیں، لیکن پھر بھی
👇17/25
لیکن پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ فوج کا اثر و رسوخ دیکھا گیاھے
سویلین افسران کیوں کام نہیں کر رہے؟
فوجی افسران کے اداروں میں آنے سے سول افسران کے مورال پر کیا فرق پڑتا ہے اور سول افسران کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے یا نہیں؟
اس سوال پر سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے
👇18/25
کہ سول افسران کے مورال پر بلاشبہ فرق پڑتا ہےلیکن وقت گزرنےکےساتھساتھ سول افسران کےکام کرنےکی آزادی کم سےکم ہوتی جا رہی ہے۔ اُنہیں اینٹی کرپشن، قومی احتساب بیورو (نیب) اور میڈیا کا خوف رہتا ہےایسےمیں وہ بڑےفیصلے لینے سے کتراتے ہیں۔
تسنیم نورانی کے بقول حکومت بھی کئی
👇19/24
معاملات میں سول افسران کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ لہذٰا ایسے فیصلے جن میں بھاری رقوم خرچ کرنےکا معاملہ ہو یا جارحانہ فیصلےلینا مقصود ہو تو سول افسران اس سے گریز کرتے ہیں۔البتہ فوجی افسران کو اپنے ادارےکی حمایت حاصل ہوتی ہے،لہذٰا وہ بلا خوف و خطر کام کرتے ہیں اور بڑے فیصلے
👇20/24
لینےسے بھی گریز نہیں کرتے
اُنکے بقول فوجی افسران کے معاملے پر میڈیا بھی سوال نہیں اُٹھاتا۔
تسنیم نورانی نےسابق وزیرِاعظم نوازشریف کےپرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور پنجاب کے سینئر بیورو کریٹ احد چیمہ کا حوالہ دیا جنہیں کرپشن الزامات پر کئی ماہ تک جیل میں رہنا پڑاتھا
👇21/24
اُن کے بقول فوج کا اگر کوئی ریٹائر یا حاضر سروس افسر کسی محکمے کا سربراہ ہو تو اس کے خلاف کارروائی سے ادارے گریز کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مارشل لا اور فوجی مداخلت کے باعث فیصلہ سازی میں فوج کا کردار رہا ہے، لہذٰا اس حقیقت سے انکار
👇22/24
کیا جا سکتا۔
البتہ اس سے سول اداروں کے افسران میں بے چینی پائی جاتی ہے جو اہم عہدوں پر تعیناتیوں کی خواہش کے ساتھ ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں
درحقیقت فوجی افسران سیاہ و سفید کے مالک ہیں
غلط بھی کریں تو کوئی پوچھتا نہیں
End
فالو اور شیئر کر یں🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کمشن میں شامل جسٹس حمود الرحمنٰ، جسٹس انوار الحق اور جسٹس طفیل علی عبدالرحمٰن پر مشتمل کمیشن نے جنرل نیازی کے طرز کو شرمناک اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار قرار دیا۔
کمیشن نے کھا کہ جنرل نیازی کم از کم دو ہفتے تک ڈھاکا کا دفاع کر سکتےتھے
وہ سرنڈر
👇1/4
کی بجائے اپنی جان قربان کر دیتے تو آئندہ نسلیں انہیں ایک عظیم ہیرو کے طور پر یاد رکھتیں۔ حمود عبد الرحمٰن کمیشن کے مطابق انہوں نے ہندوستانی جنرل کو گارڈ آف آنر کا حکم دے کر ملک اور فوج کی عزت خاک میں ملا دی۔
کمیشن نے جنرل یحییٰ، جنرل عبدالحمید، جنرل پیر زادہ،
👇2/4
میجرجنرل غلام عمر،جنرل گل حسن اور جنرل مِٹھا کےخلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی۔کمیشن نےجنرل ارشاد احمد خان کےخلاف بھی کارروائی کی سفارش کی، جنہوں نےبغیر مقابلے کےمغربی محاذ پر شکرگڑھ کے پانچ سو گاؤں دشمن کےحوالے کر دیے
حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہےکہ
👇3/4
ھمیں بتایا گیا”مجیب الرحمان غدار تھا“
تاریخ پڑھی تو پتہ چلا ڈھاکہ سےلیکر کلکتہ تک جو شخص قیام پاکستان اور مسلم لیگ کیلئےسائیکل پر چندہ اکٹھا کرتا تھا اس کا نام تھا "شیخ مجیب الرحمان "
👇
ھمیں پڑھایا گیا ”حسین شہید سہروردی غدار تھا "
تاریخ میں لکھا ھے موجودہ پاکستان سے
👇1/3
بڑے صوبے متحدہ بنگال کی وزارت اعلی کو چھوڑ کر اسمبلی سے قیام پاکستان کا بل منظور کرانے والا شخص "حسین شہید سہروردی " تھا۔
👇👇
ھمیں بتایا گیا " سندھو دیش کا نعرہ لگانے والا " جی ایم سید غدار تھا "
تاریخ کہتی ھے 1946 میں سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پیش اور منظور
👇2/4
کروانےوالا شخص" جی ایم سید" ھی تھا۔
👇👇
ھمیں کہا گیا "اکبر بگٹی غدار تھا"
بلوچستان کی مٹی گواہ ھے12سال کی عمر میں بلوچستان کےجرگےسے پاکستان کےحق میں فیصلہ کروانے والا شخص تھا
" نوابزادہ محمد اکبر خان بگٹی".
👇👇👇👇
ہمیں بتایا گیا "نوازشریف پاکستان لوٹ کر کھا گیا
👇3/4
دلچسپ و عجیب وا قعات
پاک فوج کے افسران جب ریٹائر ہوتے ہیں تو انہیں عہدے کے لحاظ سے کتنی زمین ملتی ہے؟جانئے
کش قانون کے تحت؟؟
جبر اور طاقت کے قانون کے تحت
پڑھیں اور حیران ہوں
لاہور (ویب ڈیسک) مشہور جرمن ویب سائٹ ڈوئچے ویلے نے پاک فوج کے
1/14
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب سےکچھ سوالات کیےایک سوال تھا دیکھا جائےتو یہ کہنا درست ہوگا کہ آج کل جب آپ فوج
سے بطور کور کمانڈر ریٹائر ہوتےہیں تو آپکے پاس لگ بھگ ایک ارب کےاثاثے ہوسکتے ہیں؟
جنرل شعیب: دیکھیں، جس زمانے میں بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہوا تھا، اُس وقت آپ
👇2/14
کو DHA میں ایک کمرشل، ایک ریزیڈنشل اور ایک پلاٹ لیز پر ملتا تھا آرمی کی کنٹونمٹ کی زمینوں میں۔ کنٹونمنٹ پلاٹ کو آپ بیچ نہیں سکتےتھےاور وہ گھر بنانےکیلئے تھا۔لیکن بعد میں ہمارے آرمی افسران نے اس پر اعتراض کیا کہ گھر تو مل جاتا ہے لیکن انہیں دیگر گھریلو خرچوں کے لیے مالی
👇3/14
موبائل فونز پر یکساں 17% ٹیکس عائد ہوگا،
سونے چاندی پر ٹیکس 1 % سے 17 فیصد کیا جائیگا،
آئل سیڈ کی درآمد پر ٹیکس 5 % سے 17 % لاگو ہوگا،
مائننگ کیلئے درآمدی مشینری پر 17 فیصد نیا ٹیکس لگے گا
پرچون فروشوں کا ٹیکس 10% سے بڑھا کر 17 فیصد کیا جائیگا
👇1/7
ساشے میں فروخت ہونے والی اشیاء کا ٹیکس 8% سے بڑھا کر 17% لاگو ہوگا،
غیر ملکی سرکاری تحفوں اور عطیات پر
17% ٹیکس لاگو ہوگا
قدرتی آفات کیلئے موصولہ مال پر بھی ٹیکس لاگو ہوگا
پوسٹ کےذریعے پیکٹ ارسال کرنے پر
17% سیلز ٹیکس لگے گا،
درآمدی جانوروں اور مرغیوں پر 17% ٹیکس ہوگا،
👇2/6
زرعی بیج، پودوں، آلات اور کیمیکل پر ٹیکس 5 فیصد سے 17 ہوجائے گا،
پولٹری سیکٹر کی مشینری پر ٹیکس 7 فیصد سے 17 فیصد کردیا جائے گا،
ملٹی میڈیا ٹیکس بھی 10 سے بڑھا کر 17 فیصد کیا جائیگا،
بیٹری پر 12% سے بڑھا کر 17% ٹیکس لاگو ہوگا،
ڈیوٹی فری شاپس پر 17 % سیلز ٹیکس لگے گا
👇3/6
1995 میں حکیم سعید شہید صاحب نے اپنی کتاب جاپان کہانی میں جو لکھا آج وہ حرف بحرف سچ ثابت ہو رہا ہے انہوں نے بتایا تھا کہ عمران خان کو ملک پاکستان میں 4 کاموں کے لیے مہرہ بنا کر تیار کیا جا رہا ہے اور 20 یا 25 سال کے دروان
👇1/15
انکو پاکستان کا وزیر اعظم بنا کر 4کام ان سے لیے جائیں گےپہلے وہ 4 کام آپکو بتاتا ہوں پھر اس نے وزیر اعظم بننےکےبعد کس طرح اور کتنےکام مکمل کر لیےہیں اور کونسا رہ گیا ہے
1)پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا
2)ملکی اداروں کو کفار کے زیر تسلط کرنا
*3)295 سی توہین رسالت قانون
👇2/15
کو ختم کرنا
*4)* قادیانیوں کو مسلم قرار دلوانا اور ان کو پاکستان کے مرکزی اداروں میں جگہ دینا۔
1️⃣پاکستان کی معیشت آپ سب کےسامنے ہےاس پر تبصرہ کرنےکی ضرورت نہیں پاکستان کیGDP جو انڈیا سے 3 جنگوں اور پھر پریسلر ترمیم جو 1992 سے 2002 تک رہی پاکستان کی جی ڈی پی منفی میں
👇3/15
آپ سب کی اطلاع کیلئےعرض ھےکہ ایشیا کا بڑا کینسر ہسپتال جس کا نام
Cancer care hospital
کینسر کئیرھاسپیٹل ہےلاھور کےنزدیک رائے ونڈ تبلیغی جماعت کے مرکز کےقریب وسیع رقبہ پر تعمیر کیا گیا ہے
یہ شوکت خانم ہسپتال @realrazidada
👇1/10
سےبھی زیادہ جدید مشینری سےآراستہ ہے
اس ہسپتال نےکام شروع کر دیا ھے
ہسپتال میں دور دراز سے آئے لوگوں کیلئے قیام گاہ بھی تعمیر کی لگئی ہے
یہاں پر غریب لوگوں کا علاج قیام وطعام بالکل مفت ھےصرف صاحب حیثیت لوگوں سےعلاج کےمناسب پیسے لئیےجاتےہیں
یہاں پر افغانستان، خیبر پختون خواہ
👇2/10
اور گلگت بلتستان وغیرہ سےمریض آ رھےہیں جنکا علاج مفت کیا جا رہاھے
شوکت خانم ہسپتال میں لاعلاج مریضوں کو گھر بھیج دیاجاتا ھے جہاں وہ بہت تکلیف دہ حالت میں موت کا انتظار کرتےہیں لیکن یہاں پر الحمد للہ250 بیڈ کا علیحدہ بلاک قائم کیاگیاہےجہاں پر لاعلاج مریضوں کو ڈیتھ (موت) تک
👇3/10