۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کا غیر سیاسی لیکن ریاستی موضوع۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تھر کوئلہ کی بابت نئ ڈیولپمنٹ پر لکھنے کی تیاری کر رہا تھا کہ
پاکستان کے ایک معروف صحافی اور تجزیہ نگار محمد عمران ریاض خان کا پاکستان کے اندر پیدا ہونے والی نئ صورتحال پر خبر اور تجزیہ سنا۔ جو ہر
شہری کیلئے باعث تشویش ہے۔ انہوں نے چونکہ خبر پر ٹبصرہ کیا ہے۔ لیکن اس سے متعلق دیگر پہلو زیر بحث کو نہیں لایا گیا۔ تو میں نے ضروری سمجھا۔ کہ اپنے علم اور تجربی کی بنیاد پر پاکستان میں امریکی کردار آپ کے سامنے پیش کروں۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور عظیم لیڈر، لیاقت علی
خان کو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اس لئیے قتل ( شہید ) کروایا۔ کہ انہوں نے ایران کو امریکی ریاست کو تیل کی رائیلٹی جاری رکھنے جانے کے " حکم " کی تعمیل نہیں کی۔
عوام کے دوسرے منتخب وزیر اعظم اور پاپولر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے کیلے خط لکھا۔اگر بھٹو اپنے نیو کلئیر
پروگرام کو بند نہ کیا۔ جس کا ذکر بھٹو شہید نے کھلے عام , خط دکھا کر کیا۔018( 2 تک پاکستانی حکمران امریکی اشاروں پر اکثرو بیشتر چلتے رہے۔
2018 کے الیکشن میں عمران خان وزیر اعظم بنے۔ ان کی پارٹی کا منشور ، آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی تھا۔ جس پر قوم کی بھاری اکثریت کا اتفاق
افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ، امریکی پاکستان کے اندر فوجی اڈے مانگ رہے تھے۔ عمران خان کے انکار اور 15 اگست 2021 کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ملک میں شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی ساری زمہ داری
پاکستانی ریاست پر ڈالی گئ۔
پاکستان کے اندر سابق حکمرانوں کو کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے۔ جو سخت پریشانی میں مبتلا ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ امریکہ کو پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کے ساتھ چند بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی سپورٹ حاصل ہے۔ چند غیر ملکی NGOs بھی امریکی
کھیل میں ، ریاست پاکستان کے خلاف سر گرم ہیں۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ منصوبہ میں میڈیا ہاؤسز مالکان اور سابقہ سیاسی حکمران خاندان شامل ہیں۔
دوسری طرف ریاست پاکستان اور عوام کی بھاری اکثریت ہے۔ تیسرے عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ پہلے جیسا نہیں رہا۔ اور آخری بات کہ دنیاوی منصوبہ سازوں کے
علاؤہ ، بہت بڑا منصوبہ ساز اللہ تعالیٰ ہے۔ جو دنیاوی منصوبہ پہ بھاری اور حاوی ہے۔
پاکستانی عوام کسی طور 1950 اور 1970 کی دہائی کے واقعات دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کہ 50 سالوں میں بہت کچھ دیکھ اور جان چکے ہیں۔ اس معرکہ میں فتح پاکستانی ریاست اور عوام کی ہو گی۔ ان شا اللہ۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پالیسی کی منظوری ۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت نے نئ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پالیسی کی منظوری دی ہے۔ جس کا مقصد ٹیکسٹائل مصنوعات کی راہ میں حائل مشکلات کو کم کرنا ہے۔ سب سے بڑا مسلہ تھا۔ کہ ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی قیمتوں کا مقابلہ کیا جو۔ جو اخراجات کم کر کے
ہی ہو سکتا تھا۔ جو کہ گیس/ بجلی کی قیمتوں اور درآمدات خام مال پر امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکسز سے متعلق تھا۔ حکومت نے 1- ایکسپورٹ کرنے والی کارخانوں / کمپنیوں میں گیس / بجلی کے نرخ انٹرنیشنل مارکیٹ ریٹ کے برابر کرنے کی منظوری دی ہے! 2- ٹیکسٹائل مصنوعات میں استعمال کئے جانے والے خام مال
پر ٹیکس اور درآمدہ ڈیوٹی کم کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں اور حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس پالیسی سے ایکسپورٹ دو سالوں یعنی 2023 اور 2024 کے سال میں 42 ارب ڈالر ہو جائیگی ان شا اللہ !
کہ ملک میں نئ مشینری لگ رہی ہے اور کچھ امپورٹڈ
گیس کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ترکمنستان ، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان گیس پائپ لائن بچھانے کے 2016 میں شروع کئے گئے منصوبہ پر دربارہ مذاکرات اور نیگوشی ایشن کے بعد ، کام شروع کئے جانے کے امکانات روشن ہو گئے۔
یاد رہے کہ 2016 میں اس گیس پائپ لائن بچھانے کا عمل شروع ہوا ، جس کے
مطابق ترکمستان میں گیس کے وسیع ذخائر کو پائپ لائن کے ذریعے افغانستا،پاکستان اور ہندوستان تک پہچایا جانا تھا۔ معاہدے کی شرائط طے کرنے کے بعد ، 2016 میں ترکمستان میں 214 کلو میٹر پائپ لائن بچھا نے کے بعد ، افغانستان میں 816 کلومیٹر پائپ لائن بچھا دی گئی۔کہ قندھار کے قریب حملہ میں
5. افراد مار دئیے گئے اور 1 کو اغوا کر لیا گیا۔ جس کے بعد پائپ لائن بچھانے کا کام رک گیا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے کے بعد ، طالبان نے پائپ لائن کی سیکیورٹی کی ضمانت دی۔اور 36,000 فوجی تعینات کرنے کی ضمانت کے بعد، ترکمستان ، افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں دوبار
امریکی ریاست کیلی فورنیا اسمبلی میں ریزولیوشن 104 منظور ۔۔۔۔۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو میڈم سپیکر نے ، اسمبلی ممبر میڈم ہولڈن کو ریزولیوشن اے ڈی آر 104 پیش کرنے کی دعوت دی۔
اسمبلی ممبر نے ریزولیوشن 104 کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ کہ ہماری ریاست اور
پنجاب میں بہت سی مماثلت پائی جاتی ہے۔ پنجاب کا شہر ، ہمارے پاس اینجلس کی طرح فلم انڈسٹری اور سینما گھروں کی طرح مشہور ہے۔ کیلی فورنیا اور پنجاب کی ثقافت ملتی جلتی ہے۔ پنجاب اور کیلیفورنیا زراعت کیلے مشہور ہیں۔ زرعی پیداوار سے دیگر علاقوں کو خوراک مہیا کرتے ہیں۔
ہم زراعت ، تجارت ، تعلیم اور ثقافت میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ پنجاب سے لاکھوں افراد کیلی فورنیا میں مقیم ہیں۔ جو ان شعبوں میں تعاون کیلئے کوشاں ہیں۔
میڈم سپیکر نے ریزولیوشن پر فردا فردا ووٹ کا پوچھا۔ تمام 36 ووٹ ریزولیوشن کے حق میں أئے۔ اس طرح پنجاب اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاؤسنگ سیکٹر کے متعلق چوشخبریاں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاؤسنگ سیکٹر میں اب تک 70 ہزار ہاؤسنگ پروڈکٹس کی ، وفاقی حکومت منظورہ دے چکی ہے۔ جس سے 12,لاکھ افراد کو روزگار مہیا یوگا۔ اس سکیم کیلئے ایک ہزار چار سو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں!
وزیر اعظم کے # میرا گھر میرا پاکستان # پروگرام کے تحت ، عام آدمی کو اپنا گھر بنانے یا بنا بنایا خریدنے کیلئے دس لاکھ گھروں کیلے درخواستیں طلب کی تھیں۔ جس میں سے 80 ہزار درخواستوں 35420 افراد کی درخواستیں منظور ہو چکی ہیں۔ ان درخواستوں کی مالیت 130 ارب روپے بنی ہے۔ اس سکیم کیلے
300 ارب روپے کی منظورہ دی گئی تھی۔
13700 گھروں کیلے قرض کی پہلی قسط دی جا چکی ہے۔ یاد رہے کہ مکان بنانے کیلے قرض 3/4 اقساط میں ملتا ہے۔ پہلی قسط تعمیر شروع کرتے وقت ، دوسری دیواروں کے کھڑے ہونے کے بعد اور تیسری چھت ڈالتے وقت۔ ( یہ بین الاقوامی بنکنگ کا مکان بنانے کیلے قرض
افغانی وزیر دفاع ، ملا محمد یعقوب مجاہد کا ٹی وی انٹرویؤ ۔۔۔۔
امارات اسلامی افغانستان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب مجاہد نے افغان قومی ٹی وی کو پشتو زبان میں انٹرویو دیا۔ ملا ۔ انٹرویو افغانستان میں طالبان حکومت کے 6 ماہ مکمل ہونے پر دیا گیا۔ انٹرویو کے خاص خاص نقاط۔۔۔۔
1- ہم نے دوحہ ایگری منٹ کی تمام شرائط پوری کر دیں۔ اب امریکہ کو شرائط کے مطابق افغان حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اور افغانی عوام کے منجمند فنڈز ریلیز کرنا چاہئیں۔ 2- چالیس سال بعد افغانی عوام کو حکومت ملی ہے۔ جس نے ملک میں امن و امان قائم کر دیا ہے۔ 3- ہم پہ الزام کہ ہم نے امریکی
اسلحہ پاکستان کے ہاتھوں فروخت کر دیا ، درست نہیں ہے۔ ہم اپنے اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ 4- ہم نے 40 ہیلی کاپٹرز کو مرمت کر کے استعمال کے قابل بنایا۔ 10 مزید ہیلی کاپٹرز شیر مرمت ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت کے بعض وزراء کچھ جہاز نزدیکی ممالک کے پاس لے گئے۔ ہم ان جہازوں کی
گزشتہ بائیس سالوں سے نیب کی کارکردگی کی تفصیلات۔۔۔۔۔۔
گزشتہ ،22 سالوں جب سے موجودہ نیب معرض وجود میں أئ اس کی ریکوری کی تفصیلات سے پیشتر ، یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ حکمران طبقہ کی سیاسی مصلحت ، بیوروکریسی کی ملی بھگت، عدلیہ کے بعض ارکان اور اگر حکمران خود قومی وسائل کی خرد برد
میں ملوث ہوں، تو اجاونٹیبلٹی کی راہ میں آڑے آتے ہیں۔ جیسا کہ نواز شریف اور زرداری خاندان حکمرانوں کے وقت ہوا۔ کہ اپنے پیچھے تمام کاغذات اور ریکارڈ جلا دئیے۔ یا رقم اپنے نام کی بجاے بے نامی اکاؤنٹ !یں رکھوالی جاتی رہی ۔ دنیا بھر میں سفید کالر کرائم کی ریکوری مشکل کا ہے
نیب کی 22 سالوں میں کل ریکوری 820 ارب روپے ہے۔
جبکہ موجودہ حکومتی عرصہ دسمبر 2021 تک 539 ارب روپے ہے
جو کل رقم کا 65٪ سے زیادہ بنتا ہے۔
وجہ صاف ظاہر ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا گیا۔ تمام تر حکومتی توجہ لوٹی گئی دولت کی ریکوری پر رہی۔ جبکہ دوسری تمام