ایک ںچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر
⬇️
میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا:”مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟“
کہنے لگے: بچوں کیلئےکیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع
⬇️
نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس
⬇️
روپے لے کر نہیں آتے یہ غریب بچے ہوتے ہیں“
یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔ یہ محبت کا خالص جذبہ، یہ بچوں سے محبت، یہ غریبوں کا احساس, مجھے سمجھ آ گئی کہ اس چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر روحانیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔
⬇️
ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ ہر انویسٹمنٹ اگر دنیاوی فائدے کیلئے کرتے رہیں گے تو آخرت میں ہمارے پلے کیا ہوگا؟ یہاں کچھ ایسی انویسٹمنٹ ضرور کیجیے جس کا منافع وہاں ملے گا جہاں کوئی کسی کا نہیں۔۔سلامت رہیں
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب
کالکی اوتار نے دنیا بھر ہلچل مچادی ہے جسمیں بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس کالکی اوتار کا تذکرہ ملتا ہے وہ کوئی اور نہیں آخری رسول محمدﷺ بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا
⬇️
اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگر اس کے مصنف ”پنڈت وید پرکاش“ برہمن ہندو ہیں وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ اور سنسکرت زبان کے ماہر، معروف محقق اسکالر ہیں۔
پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور و معروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا۔
⬇️
جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں
برہمن پنڈت ویدپرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ ہندووں کی اہم مذہبی کتب
⬇️
جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کا چمٹنا کہا جاتا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کیلئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے
جہاں ابن سینا ”القانون فی الطب“ کو تحریر کررہا تھا جسے آگے جاکر
⬇️
ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا تھا، وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے اگلے سات سو سال تک کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا، وہ اس وقت ایسا تیزاب (Salphuric acid) بنا رہا تھا، جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی تھی،
⬇️
وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے، مسلمان ماہر فلکیات (Astrologist) اپنا حصہ ڈال رہے تھے، کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے تھے، تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنا رہے تھے، تو کہیں نئے علاقے فتح ہورہے تھے،اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی ⬇️
دھوبی کی بیوی جس کا نام مَنُوں تھا، ملکہ سلطنت نے پوچھا کہ آج تم اتنی خوش کیوں ہو؟
دھوبن نے کہا کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔ ملکہ نے اسکی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے اسے مٹھائی پیش کرتے ہو کہا، ما شاء اللہ
دَھنُوں کی پیدائش کی خوشی میں کھاؤ۔ اتنے میں بادشاہ بھی کمرے
⬇️
میں داخل ہوا، ملکہ کو خوش دیکھ کر پوچھا: آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں کوئی خاص وجہ ہے؟
ملکہ نے کہا: سلطان یہ لیں مٹھائی کھائیں, آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے اس لیئے خوشی کے موقع پہ خوش ہونا چاہیے۔بادشاہ کو بیوی سے بڑی محبت تھی, بادشاہ نے دربان کو کہا کہ مٹھائی ہمارے پیچھے پیچھے لے آؤ۔
⬇️
بادشاہ باہر دربار میں آیا تو بہت خوش تھا۔ وزیروں نے جب بادشاہ کو خوش دیکھا تو واہ واہ کی آوازیں گونجنے لگی، ظلِ الہٰی مزید خوش ہوئے اور کہا سبکو مٹھائی بانٹ دو
مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے وزیر نے پوچھا! بادشاہ سلامت! یہ مٹھائی آج کس خوشی میں آئی ہے؟
بادشاہ نے کہا: کہ آج دھنوں
⬇️
جوبائیڈن نے فون اٹھایا، دوسری طرف سے آواز آئی: میں بوریوالہ ضلع وہاڑی صوبہ پنجاب سے خدابخش بول رہا ہوں ہم تم پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔
بائیڈن نے کہا: حملہ تو کر لو لیکن تمہارے پاس فوج کتنی ہے ..؟
⬇️
خدا بخش بولا: آٹھ لوگ ہیں، میں، میرا بیٹا اللہ بخش، ہمارا ہمسایہ نذیر اور پانچ کھلاڑی ہماری کبڈی ٹیم کے
بائیڈن بولا: سوچ لو میرے پاس دس لاکھ فوج ہے۔
خدا بخش: اچھا ..! چلو میں کل فون کرتا ہوں تمہیں۔
اگلے دن اللہ بخش نے کہا: ہم نے مشورہ کیا ہے حملہ تو ہم کریں گے
⬇️
کیونکہ ہم نےتو جنگ کا سامان اسلحہ وغیرہ سب اکھٹا کر لیا ہے۔
بائیڈن: کیا سامان ہے تمہارے پاس ..؟
خدا بخش: میرے پاس دو نالی بندوق، نذیر کے پاس بارہ بور اور میرے بیٹے کا گدھا اور ہم نے ٹریکٹر مانگ لیا ساتھ والوں سے۔
بائیڈن نے: میرے پاس سولہ ہزار ٹینک ہیں چوبیس ہزار بکتر بند ہیں
⬇️
ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اُس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں۔ چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے، خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوہے دانی تھی، خطرہ بھانپنے
⬇️
پر اس نے گھر کے بچھواڑے میں جاکر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہے دانی آگئی ہے۔
کبوتر نےمذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس سے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا مرغ نے بھی مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔
⬇️
بالآخر چوہے نے جاکر بکرے کو یہ بات بتائی جسے سن کر بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا اور یہی کہا کہ جاؤ میاں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے
اسی رات چوہے دانی میں كھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا
اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی جب اسے
⬇️
یوکرائن کی پہلے روس سے منگنی ہوئی تھی جو1991میں ٹوٹ گئی کہ لڑکا کماتا نہیں
اب محلے میں مشہور ہوگیا کہ یوکرائن کا امریکہ نام کے ایک مالدار لڑکےکیساتھ چکر ہے اور وہ جلد ہی نیٹو نام کی رسم کرنے لگے ہیں امریکہ روس کی کالج کےوقت کی دشمنی
⬇️
بھی تھی۔روس نے سمجھایا کے دیکھ یوکرائن تو میری عزت تو میری محبت ہے امریکہ صرف مجھے تنگ کرنےکیلئے یہ سب کررہا ہےوہ تجھ سے پیار نہیں کرتاپر یوکرائن کی آنکھیں تو امریکہ کی دولت دیکھکر خیرہ ہوچکی تھیں تو اس نےجواب دیا”جا پکھڑ جیا نہ ہوۓ تےمیرا امریکہ تیرے دند پن دیگا“ امریکہ بھی
⬇️
یوکرائن کو دلاسے دیتا رہا کہ میں اپنے برگر دوستوں کو کہوں گا روس سے گیس نہ لیں یہ بھوکا مر جائے گا روس کی گیس کی ایجنسی ہے نا پر امریکہ یہ بھول گیا کہ روس کا ماما چین ولایت جا کر کافی امیر ہوگیا تھا اس نےکہا”پت پیسے دی پرواہ نہ کر بس نیواں نہ یوئیں“
یوکرائن روس کے چچا کی بیٹی
⬇️