ہمارے گھر کے قریب ایک بیکری ہے.
اکثر شام کے وقت کام سے واپسی پر میں وہاں سے صبح ناشتے کےلئے کچھ سامان لیکر گھر جاتا ہوں.آج جب سامان لیکر بیکری سے باہر نکل رہا تھاکہ ہمارے پڑوسی عرفان بھائی مل گئے. وہ بھی بیکری سے باہر آرہے تھے.
میں نے سلام دعا کی اور پوچھا
"کیا لیا عرفان بھائی؟+
کہنے لگے
"کچھ نہیں ثاقب بھائی کچھ چکن پیٹس اور جلیبیاں لی بیگم اور بچوں کےلئے"
میں نے ہنستےہوئے کہا
"کیوں؟آج کیابھابھی نے کھانا نہیں پکایا"
کہنے لگے
"نہیں نہیں ثاقب بھائی! یہ بات نہیں ہے دراصل آج دفتر میں شام کے وقت کچھ بھوک لگی تھی تو ساتھیوں نے چکن پیٹس اور جلیبیاں منگوائیں۔
+
میں نے وہاں کھائے تو سوچا بیچاری گھر میں جو بیٹھی ہے وہ کہاں کھانے جائیگی، اسکےلئے بھی لے لوں. یہ تو مناسب نہ ہوا نہ کہ میں خود تو آفس میں جس چیز کا دل چاہے وہ کھالوں اور بیوی بچوں سے کہوں کہ وہ جو گھر میں پکے صرف وہی کھائیں"
میں حیرت سے انکا منہ تکنے لگا کیونکہ میں نے آج تک اس
+
انداز سے نہ سوچا تھا.
میں نے کہا
"اس میں حرج ہی کیا ہے عرفان بھائی! آپ اگر دفتر میں کچھ کھاتے ہیں تو بھابھی اور بچے گھر میں جس چیز کا دل ہوگا کھاتے ہوں گے"
وہ کہنے لگے
"نہیں نہیں ثاقب بھائی!وہ بیچاری تو اتنی سی چیز بھی ہوتی ہے میرے لئے الگ رکھتی ہے. یہاں تک کہ اڑوس پڑوس سے بھی
+
اگرکسی کے گھر سے کوئی چیز آتی ہے تواس میں سے پہلے میراحصّہ رکھتی ہے بعد میں بچوں کو دیتی ہے اب یہ تو خود غرضی ہوئی نہ کہ میں وہاں دوستوں میں گل چھڑے اڑاؤں"
میں نے حیرت سے کہا
"گلچھڑے اڑاؤں.؟ یہ چکن پیٹس؟ جلیبیاں؟
یہ گل چھڑے اڑانا ہے عرفان بھائی؟ اتنی معمولی سی چیزیں.."
وہ کہنے
+
لگے
"کچھ بھی ہےثاقب بھائی!! مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ آخرت میں کہیں میری اسی بات پر پکڑ نہ ہوکہ کسی کی بہن بیٹی بیاہ کے لائے تھے. خود دوستوں میں مزے کررہے تھے اور وہ بیچاری گھر میں بیٹھی دال کھا رہی تھی"
میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہا اور وہ بولے جارہے تھے
"دیکھئے...ہم جو کسی کی بہن
+
بیٹی بیاہ کرلاتے ہیں نا..وہ بھی ہماری طرح انسان ہوتی ہے. اسکی بھی خواہشات ہوتی ہیں. اسکابھی دل کرتا ہے طرح طرح کی چیزیں کھانے کا، پہنے اوڑھنے کا، گھومنے پھرنے کا، اسے گھر میں پرندوں کی طرح بند کردینا اور دو وقت کی روٹی دیکر اترانا کہ بڑا تیر مارا...یہ انسانیت نہیں...یہ خود غرضی
+
ہےاور پھر ہم جیسا دوسرے کی بہن اور بیٹی کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہی ہماری بہن اور بیٹی کیساتھ ہوتا ہے"
انکے آخری جملے نےمجھے ہلا کررکھ دیا۔ میں نے تو آج تک اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا.
میں نے کہا
"آفرین ہے عرفان بھائی! آپ نے مجھے سوچنے کا ایک نیا زاویہ دیا"
میں واپس پلٹا تو وہ بولے
+
آپ کہاں چلے؟
میں نے کہا
" آئسکریم لینے، وہ آج دوپہر آفس میں آئسکریم کھائی تھی"
("کتاب چہرہ" سےاقتباس)
ابو مسعود البدری رضى اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ جناب رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب آدمی اپنے اہل و عیال پرثواب کی نیت سے خرچ کرے تو یہ اس کےلیے صدقہ بن جاتا ہے"
اسی طرح
+
ایک اور حدیث میں جناب رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"ایک دینار وہ ہے جس کو تم نے راہ خدا عزوجل میں خرچ کیا، اور ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی کو آزاد کرانے میں خرچ کیا، اور ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی مسکین پر خیرات کر دیا اورایک دینار وہ ہے جو تم نے اپنے بیوی بچوں پر
+
خرچ کیا۔ ان میں سب سے افضل دینار وہ ہے جو تم نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا۔۔۔!!!
"صحیح مسلم"
العزبن عبدالسلام،
عالموں کے سلطان"جن کا ایک فتویٰ جو تاریخ میں امر ہو گیا۔
ملک المظفر بادشاہ سیف الدین قتوز،اس وقت کے اپنے ملک کے حاکم، تاتاریوں کے حملے کے پیش نظرفوج تیار کرنے کےلیے عوام پر ٹیکس لگانے کاسوچتے ہیں۔
متوقع شدید جنگ، حملے اور تباہی کا خطرہ ہے، اس نازک صورتحال
+
کیوجہ سے ٹیکس لگانے کافیصلہ کیاگیا۔
بادشاہ نے شیخ العزبن عبدالسلام سے رائے لی تو انہوں نے کہا:
"دو شرائط ہیں"
پہلی شرط::
اگر دشمن، ملک پرحملہ کرتا ہےتو پوری دنیا کو اسکا مقابلہ کرناچاہیے(یعنی عالم اسلام) اور دفاعی ضرورت پوری کرنےکےلئے رعایا سے وہ چیز لینا جائز ہے جو انکے زیر
+
استعمال ہو (یعنی زکوٰۃ سے اوپر)
لیکن
بشرطیکہ خزانے میں کوئی چیز باقی نہ رہے۔
دوسری شرط زیادہ مشکل تھی،
شیخ نے کہا:
"اورجو کچھ تمہارے پاس جائیداد اور آلات ہیں انہیں بیچ دو۔(یعنی حکمران،شہزادے اور وزراء اپنی ملکیت کوبیچ دیں)
اور تم خواص میں سے ہرایک صرف اپنے گھوڑے اور ہتھیار
+
ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ پر آ گیا اور ﮐﮩﺎ کہ"ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ"
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ نے جواب دیا کہ"
یہ مرغی میری نہیں بلکہ کسی اور کی ہے اور میرے پاس ابھی کوئی اور مرغی بھی نہیں جو آپکو دے سکوں"
قاضی نے کہا کہ"کوئی بات نہیں یہی مرغی مجھے دے دو +
مالک آئے تو کہنا کہ مرغی اڑ گئ ہے"
دوکاندار نے کہا"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے مجھے ذبح شدہ مرغی دی تھی وہ بھلا کیسے اڑ سکتی؟
قاضی نے کہا "میری بات غور سے سنو! بس یہ مرغی مجھے دے دو اسکے مالک سے یہی کہو کہ تیری مرغی اڑ گی ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ تمہارے خلاف مقدمہ لیکر میرے پاس +
لندن کے ایک امام صاحب!
لندن میں ایک امام مسجد تھے۔ روزانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول تھا۔لندن میں لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ یہ امام بس پر سوار+
ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر نشست پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کےدیئے ہوئے بقایا کو جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھا تو پتہ چلا کہ بیس پینس (pence) زیادہ ہیں۔
پہلے امام صاحب نے سوچا کہ یہ 20p وہ اترتے ہوئےڈرائیور کو واپس کر دینگے۔
پھر ایک سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں
+
کی کون پرواہ کرتا ہے، ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے۔ ان تھوڑے سے پیسوں سے اُنکی کمائی میں کیا فرق پڑے گا؟
میں ان پیسوں کواللہ کیطرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔ اسی کشمکش میں کہ واپس کروں یا نہ کروں، امام صاحب کا سٹاپ
+
ابراہم لنکن کا والد ایک کاریگر انسان تھا۔
وہ کسان بھی تھا،جولاہا بھی او ر موچی بھی۔جوانی میں کارڈین کاؤنٹی کے امراء کے گھروں میں جاتا تھا اورانکے خاندان کے جوتے سیتا تھا۔1861ء میں ابراہام لنکن امریکہ کا صدر بن گیا۔اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعتکاروں اور
1/16
اورسرمایہ کاروں کا قبضہ تھا۔یہ لوگ سینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ابراہم لنکن صدر بناتو اس نے امریکہ میں غلامی کاخاتمہ کر دیا۔ ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کرلیا۔امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہراست متاثر ہو رہی2/16
تھیں۔چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے۔ یہ ابراہم لنکن کی شہرت کو بھی نقصان پہنچاتے تھے اوراسکی کردار کشی کابھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتےتھے۔یہ لوگ سینٹ کے اجلاس میں بھی عموماً ابراہم لنکن کامذاق اڑاتے تھےلیکن لنکن کبھی اس مذاق پر دکھی نہیں ہوا۔وہ کہتا تھا
"میرے جیسے
3/16
تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک بدو کی دلہن کو جس گھوڑے پر بٹھا کر لوگ لائے تھے۔دلہن کے گھوڑے سے اترتے ہی اس بدو نے تلوار سے گھوڑے کی گردن الگ کردی.لوگوں نے اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ
"میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کے اترنے کے فورا بعد ہی1/6
کوئی اور اس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ جائے اوردلہن کی سواری کی وجہ سے تاحال گھوڑے کی پیٹھ گرم ہو اور کوئی غیر مرد اس حرارت کو محسوس کرئے"
اسی طرح ایک اور واقعہ ہےکہ
"ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا کہ اسکے ذمہ میرے حق مہر کے500 دینار ہیں. عدالت نے شوہر کوبلا2/6
کر پوچھا تو اس نے انکار کر دیا.عدالت نے گواہوں کو طلب کیا اور ان سے گواہی لیتے وقت عورت کاچہرہ پہچاننے کےلئے عورت کو نقاب اتارنے کا کہا.
اس پر اسکا شوہر جلدی سے کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ قاضی صاحب میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ پر میری بیوی کے 500 دینار لازم ہیں۔ بس آپ نقاب نہ اتروائیں3/6
پرانے زمانے میں مال برداری اور پبلک ٹرانسپورٹ کےلئے بیل گاڑیاں ھوا کرتی تھیں۔ ہر بیل گاڑی کےساتھ ایک کتا ضرور ھوتا تھا۔ جب کہیں سنسان بیابان میں مالک کو رکنا پڑتا تو اس وقت وہ کتا سامان کی رکھوالی کیا کرتاتھا۔
جس نے وہ بیل گاڑی چلتی دیکھی ھوگی تو اس کو ضرور یاد ہوگا کہ وہ کتا 1/6
بیل گاڑی کے نیچے نیچے ہی چلا کرتا تھا۔
اُسکی ایک خاص وجہ ہوتی تھی کہ جب کتا چھوٹا ہوتا تھا تو مالک سفر کے دوران اُس کتے کو گاڑی کے ایکسل کے ساتھ نیچے باندھ دیا کرتا تھا تو پھر وہ بڑا ھو کر بھی اپنی اسی جگہ پر چلتا رہتا تھا۔
ایک دن کتے نے سوچا کہ جب مالک گاڑی روکتا ہے تو سب سے2/6
پہلے بیل کو پانی پلاتا ہے اور چارا ڈالتا ہے پھر خود کھاتا ہے اور سب سے آخر میں مجھے کھلاتا ہے۔
حالانکہ
گڈھ تو ساری میں نے اپنے اوپر اُٹھائی ھوتی ہے۔ دراصل اس کتے کو گڈھ کے نیچے چلتے ہوئے یہ گمان ہو گیا تھا کہ یہ گڈھ اس نے اُٹھا رکھی ہے۔ وہ اندر ہی اندر کُڑھتا رہتا ہے۔
ایک دن 3/6