لندن کے ایک امام صاحب!
لندن میں ایک امام مسجد تھے۔ روزانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول تھا۔لندن میں لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ یہ امام بس پر سوار+
ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر نشست پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کےدیئے ہوئے بقایا کو جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھا تو پتہ چلا کہ بیس پینس (pence) زیادہ ہیں۔
پہلے امام صاحب نے سوچا کہ یہ 20p وہ اترتے ہوئےڈرائیور کو واپس کر دینگے۔
پھر ایک سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں
+
کی کون پرواہ کرتا ہے، ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے۔ ان تھوڑے سے پیسوں سے اُنکی کمائی میں کیا فرق پڑے گا؟
میں ان پیسوں کواللہ کیطرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔ اسی کشمکش میں کہ واپس کروں یا نہ کروں، امام صاحب کا سٹاپ
+
آگیا۔بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو 20p واپس کرتے ہوئے کہا؛
"یہ لیجیئے 20p لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے"
ڈرائیور نے 20p واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛
" کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟؟ میں بہت
+
عرصہ سے آپکی مسجد میں آکر اسلام کے بارے میں معلومات لیناچاہ رہا تھا۔
یہ 20p میں نے جان بوجھ کر آپکو زیادہ دیئے تھے تاکہ آپکا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں"
امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترے، اُنہیں ایسے لگاجیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے۔ گرنے سے بچنےکیلئے ایک
+
بجلی کے پول کا سہارا لیا۔
آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی،
" یا اللہ مُجھے معاف کر دینا،
میں ابھی اسلام کو 20p میں بیچنے لگا تھا۔۔۔"
+
یاد رکھئیے::
بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھکر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہیں۔کوشش کریں کہ کہیں کوئی ہمارے شخصی اور انفرادی رویے کو اسلام کی تصویر اور تمام مسلمانوں کی مثال نہ بنا لے.
اگر ہم کسی کو مسلمان نہیں کر سکتے تو
+
کم از کم اپنی کسی حرکت کی وجہ سے اسے اسلام سے متنفر بھی نہ کریں۔
ہم امت محمدیﷺ کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ
"سفید کپڑے پر داغ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔۔۔!"
ابراہم لنکن کا والد ایک کاریگر انسان تھا۔
وہ کسان بھی تھا،جولاہا بھی او ر موچی بھی۔جوانی میں کارڈین کاؤنٹی کے امراء کے گھروں میں جاتا تھا اورانکے خاندان کے جوتے سیتا تھا۔1861ء میں ابراہام لنکن امریکہ کا صدر بن گیا۔اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعتکاروں اور
1/16
اورسرمایہ کاروں کا قبضہ تھا۔یہ لوگ سینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ابراہم لنکن صدر بناتو اس نے امریکہ میں غلامی کاخاتمہ کر دیا۔ ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کرلیا۔امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہراست متاثر ہو رہی2/16
تھیں۔چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے۔ یہ ابراہم لنکن کی شہرت کو بھی نقصان پہنچاتے تھے اوراسکی کردار کشی کابھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتےتھے۔یہ لوگ سینٹ کے اجلاس میں بھی عموماً ابراہم لنکن کامذاق اڑاتے تھےلیکن لنکن کبھی اس مذاق پر دکھی نہیں ہوا۔وہ کہتا تھا
"میرے جیسے
3/16
تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک بدو کی دلہن کو جس گھوڑے پر بٹھا کر لوگ لائے تھے۔دلہن کے گھوڑے سے اترتے ہی اس بدو نے تلوار سے گھوڑے کی گردن الگ کردی.لوگوں نے اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ
"میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کے اترنے کے فورا بعد ہی1/6
کوئی اور اس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ جائے اوردلہن کی سواری کی وجہ سے تاحال گھوڑے کی پیٹھ گرم ہو اور کوئی غیر مرد اس حرارت کو محسوس کرئے"
اسی طرح ایک اور واقعہ ہےکہ
"ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا کہ اسکے ذمہ میرے حق مہر کے500 دینار ہیں. عدالت نے شوہر کوبلا2/6
کر پوچھا تو اس نے انکار کر دیا.عدالت نے گواہوں کو طلب کیا اور ان سے گواہی لیتے وقت عورت کاچہرہ پہچاننے کےلئے عورت کو نقاب اتارنے کا کہا.
اس پر اسکا شوہر جلدی سے کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ قاضی صاحب میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ پر میری بیوی کے 500 دینار لازم ہیں۔ بس آپ نقاب نہ اتروائیں3/6
پرانے زمانے میں مال برداری اور پبلک ٹرانسپورٹ کےلئے بیل گاڑیاں ھوا کرتی تھیں۔ ہر بیل گاڑی کےساتھ ایک کتا ضرور ھوتا تھا۔ جب کہیں سنسان بیابان میں مالک کو رکنا پڑتا تو اس وقت وہ کتا سامان کی رکھوالی کیا کرتاتھا۔
جس نے وہ بیل گاڑی چلتی دیکھی ھوگی تو اس کو ضرور یاد ہوگا کہ وہ کتا 1/6
بیل گاڑی کے نیچے نیچے ہی چلا کرتا تھا۔
اُسکی ایک خاص وجہ ہوتی تھی کہ جب کتا چھوٹا ہوتا تھا تو مالک سفر کے دوران اُس کتے کو گاڑی کے ایکسل کے ساتھ نیچے باندھ دیا کرتا تھا تو پھر وہ بڑا ھو کر بھی اپنی اسی جگہ پر چلتا رہتا تھا۔
ایک دن کتے نے سوچا کہ جب مالک گاڑی روکتا ہے تو سب سے2/6
پہلے بیل کو پانی پلاتا ہے اور چارا ڈالتا ہے پھر خود کھاتا ہے اور سب سے آخر میں مجھے کھلاتا ہے۔
حالانکہ
گڈھ تو ساری میں نے اپنے اوپر اُٹھائی ھوتی ہے۔ دراصل اس کتے کو گڈھ کے نیچے چلتے ہوئے یہ گمان ہو گیا تھا کہ یہ گڈھ اس نے اُٹھا رکھی ہے۔ وہ اندر ہی اندر کُڑھتا رہتا ہے۔
ایک دن 3/6
پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ سلامت نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنی تو صبح وزیروں سے پوچھا کہ
"رات کو یہ گیدڑ بہت شور کررہے تھے،
کیا وجہ ہے؟"
اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے۔انھوں نے کہا، "جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگی اس لیے فریاد کر رہے ہیں"
تو حاکم وقت نے 1/6
آرڈر کیا کہ ان کا بندوبست کیا جائے۔
اب وزیر صاحب نے اس میں سے کچھ مال گھر بھجوا دیا اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کر دیا۔
اگلی رات کو پھر وہیں آوازیں آئیں تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ
"کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا کیا؟
تو وزیر نے فوری جواب دیا کہ
2/6
جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔ اسپر بادشاہ نے فرمایا کہ "پھر شور کیوں؟
تو وزیر نے کہا
"جناب سردی کی وجہ سے شور کررہےہیں"
تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ
"بستروں کا انتظام کیا جائے"
صبح پھر موجیں لگ گئیں وزیر کی۔
حسب عادت کچھ بستریں گھر بھیج دیئے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں
3/6
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عمررسیدہ بزرگ اپنے بیٹے کے ہمراہ کسی دوسرے گاؤں میں کام کی غرض سے جانے کے لیے نکلا۔راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا۔دونوں نے شام ڈھلنے سے پہلے جنگل تو عبور کر لیا مگر ابھی بھی گاؤں کافی دور تھا اور درمیان میں ایک چھوٹا سا پہاڑی 👇
سلسلہ بھی حائل تھا۔اوپر سے ستم یہ کہ باپ بیٹا تھکن سے بھی چور چور ہو چکے تھے۔ یہی سوچتے کہ اب کیا کرنا چاہیے سفر جاری رکھا جائے جو کہ بظاہر ناممکن لگ رہا تھا یا پھر کہیں قیام کیا جائے ان دونوں نے سفر جاری رکھا۔سوچوں میں غرق باپ بیٹا کچھ ہی دور چلے ہونگے کہ حد نگاہ کے اختتام پر👇
انہیں ایک گھر کی موجودگی کاشائبہ ساہوا۔ گھرکی موجودگی کے اس احساس نے جیسے ان دونوں میں کوئی برق سی بھر دی اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔جب قریب پہنچے تودونوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ واقعی اس وسیع و عریض بظاہر ویران میدان میں ایک کچا گھر واقع تھا۔جسکے احاطے میں👇