"جو آج تک مجھے دیکھ نہیں سکا، وہ عشق کیا کرے گا مجھ سے."
گھر لوٹنے کے بعد سورج ڈھلنے تک وہ کھڑکی کا پردہ ہٹا کے رکھتی تھی.
اس کی پیدائش سے پہلے پردہ اس کی زندگی کا ایک حصہ تھا، اس کے ارد گرد ایک دیوار، جس کے اندر اس کی دنیا اس قدر حسین تھی کہ باہر کی دنیا کی کمی ہی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی. زندگی تو مگر کبھی ایک سی نہیں رہتی چاہے دیوار کے اِس پار ہو یا اُس پار.
دیوار کے اِس پار رنگ ماند پڑنے لگے تھے. چراغ جیسے لوگ بجھتے چلے گئے. سر پر سے جوانی کی گھٹا چھٹنے لگی اور وجود پر عمر کے ستارے ٹمٹمانے لگے. وہ تنہا رہ گئی تھی.
باہر کی دنیا تو باہر کی ہی دنیا رہی. جب سے اُس نے آنکھ کھولی تھی وہ اور اُس کی دنیا کی ہر عورت سر تا پا برقعے میں گھر سے نکلی تھی. بچپن میں سہیلیوں کے ساتھ کبھی کہیں آنا جانا ہوتا تو برقعے کی دیوار کے پیچھے وہ ساری اپنی دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہوتی تھیں.
ہنستی کھیلتی جاتی تھیں اور شرارت کر کے محفوظ بھی رہتی تھیں کہ کون بتائے کون تھی! کیا پیارے دن تھے. بس پھر ایک ایک کر کے سب کی سب کسی نہ کسی گھر کی دیوار کے پیچھے رنگین دنیا بسانے لگیں. اب قسمت پہ کس کا زور ہے؟
اب تو وہ کم ہی کبھی گھر سے نکلتی تھی. بچپن کی کوئی امنگ دل میں انگڑائی لیتی تو وہ برقعے کی دیوار کھڑی کر کے کبھی سبزی لینے، کبھی کسی کو سلام کرنے نکل جایا کرتی کہ اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہے، تاکہ تنہائی کاٹا نہ کرے.
مرنا تو سب نے ہی ایک دن ہوتا ہے. سفر ہی آسان کرنا ہے. وہ نکل آیا کرتی تھی.
بس پرچون کی دکان پر جو آدمی بیٹھتا تھا، وہ عجیب شے تھا راستے میں ویسے ہی.
مطلب اس کو یاد تھا جب وہ پہلی بار دکان پر آ کے بیٹھا تھا. یہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کچی خوبانیاں چرا کے ہنستی ہوئی بھاگ رہی تھی کہ اسی دکان کے سامنے پھسل کے گر گئی. گرتے ہوئے ایک لمحے کو اس کا نقاب اُلٹ کر آنکھوں پہ پڑ گیا.
اُس نے جب تک نقاب سنبھالا وہ دھڑام سے گِر چُکی تھی. شدید دہشت اور شرمندگی سے اپنا نقاب پکڑے وہ اپنی بے نقاب آنکھوں سے دکان میں بیٹھے نوجوان کو دیکھ رہی تھی، جو خاموش بیٹھا، ہکا بکا اُسے تک رہا تھا.
چند لمحے تو اُسے لگا آسمان زمین سب رُک گیا. وہ سوچنے لگی زمین پھٹ جائے یا یہ بندہ پھٹ جائے! دیکھتے ہی دیکھتے اُس نوجوان کی حیرت جیسے مسرت میں تبدیل ہونے لگی. یہ دیکھ کر وہ ایسی شرمائی کہ سوچنے لگی زمین پھٹ ہی جائے!
اس نے نظر جھکائی تو اس کو سہیلیوں کے قہقہے سنائی دیئے. اُس وقت تو اُس نے ہاتھ میں کچھ پتھر اُٹھائے اور بھاگی اُن کے پیچھے. بعد میں رات بھر بہت مشکل میں رہی کہ آج کیا ہوا اور کتنی شرم کی بات ہے کہ وہ گِر گئی ایک لڑکے کے سامنے.
وہ اُس کے چہرے کے تاثرات کا سوچتی تو سخت الجھن کا شکار ہو جاتی کہ وہ مسکرانا چاہ رہا تھا یا مسکرا رہا تھا، مگر کیوں؟
"میری تو اُس نے شکل بھی دیکھ لی قسطوں میں ہی سہی، اُف خدایا! اس قدر شرم. اُف اللہ جی عزت رکھ لیں قسم سے میں آئندہ چوری نہیں کروں گی کبھی.."
اب تو اُس دن کو کئ راتیں بیت چکی تھیں. دیوار کے اِس پار جیسے اُمید کا کوئی دیا سا جل اُٹھا تھا. وہ یہی دیکھ رہی تھی کہ کب اس دئیے کی لو دیوار کے اُس پار، اُس دکان کی دہلیز کو پار کرے.