میڈیا گردی، اسٹاک مارکیٹ اور اقتصادی ترقی کے مصنوعی اشاریے
دو روز سے کارپوریٹ میڈیا میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پوائنٹس کی بہتری کے چرچے ہیں، عام آدمی کو تاثر دیا جارہا ہے کہ شہباز شریف کے حلف اٹھاتے ہی قومی معیشت میں مثبت رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ غالباً یہ قومی یادداشت کے
ضعیف ہونے کی علامت ہے۔ کیا گزشتہ برس کی رپورٹ بھول گئے ہیں؟ جس میں انکشاف ہوا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج مارکیٹ پر 31 بااثر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے تیار کی تھی۔
اس رپورٹ میں اسٹڈی مارکیٹ میں کارپوریٹ گروپوں اور اسٹاک مارکیٹ
میں ان کی ملکیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کمپنی بورڈ کو کس طرح کمپنی کے ڈھانچے اور پیشہ ورانہ انتظام پر مالک اور اس کے کنبہ کے اثر و رسوخ کی جانچ پڑتال کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے اس پر نظر ڈال کر کارپوریٹ گورننس کو ہائی لائٹ کیا ہے.
اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ
کمپنیوں کے بورڈز میں ایک ہی خاندان کے افراد کو مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے، بیوروکریسی، ریٹائرڈ جرنیل ان بورڈز کے ممبران ہیں چنانچہ یہ ایسا ایلیٹ کلب ہے جو خاندان لمیٹیڈ کمپنیوں پر مشتمل ہے۔
ان کی سالانہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ڈائریکٹرز یا اہم حصص یافتگان کی کل مارکیٹ
کیپٹلائزیشن 6.8کھرب روپے میں سے 4.963ٹریلین روپے سے زائد کی ملکیت ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 374 رجسٹرڈ کمپنیوں پر ملک کے 31خاندانوں کا قبضہ۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی انھی خاندانوں کی کمپنیوں کے اشتراک سے 🇵🇰 میں اپنے حصص یافتگان کو #امپورٹڈ_حکومٹ_نامنظور
کنٹرول کرتیں۔ جو افراد اسٹاک ایکسچینج کی مارکیٹ کی نفسیات اور شیئرز کے پیچھے چھپے حقائق سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کیسے مصنوعی طور پر مارکیٹ کریش کی جاتی اور کیسے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا، یہ سب کچھ کمپیوٹر کے کھاتوں کے ذریعے سے کیا جارہا ہوتا ہے۔ #امپورٹڈ_حکومت_نامنظور
پاکستان کے بنیکار، اکاؤنٹنٹس انھی خاندانوں کی ملکیت پر مبنی ہیں۔
پاکستان کی 100 بڑی کمپنیوں میں 880 عہدوں میں سے 756 عہدوں پر انھی خاندان کے افراد تعینات ہیں۔ میڈیا مالکان کی کمپنیوں کے حصص یا سرمایہ کاری بھی انھی خاندانوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ بہت مربوط کارٹل ہے۔
پاکستان کی قومی معیشت دراصل خاندانی معیشت ہے۔ یہاں کو برقی میڈیا مارکیٹ اکانومی کے اس پہلو پر دانستہ طور پر آنکھیں بند کرتا ہے تاکہ عام آدمی کی رائے سازی اشرافیہ کے مفادات کے تابع رہ سکے۔ تعلیم یافتہ نوجوان کو یہ سوال اُٹھانا چاہیے کہ اسٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس میں بہتری میں
کن کمپنیوں کے شیئرز کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور شیئرز کے خریدار کون ہیں؟ اسٹاک مارکیٹ کا دھندا بہت خوفناک ہے، جب حکمران تاجر ہوں تو انھیں قوم کے ساتھ یہ دھندہ کرنے کا گُر بخوبی آتا ہے۔
فرینک شمیڈٹ ایک جرمن الیکٹریکل انجنئیر تھا جو جنرل مشرف دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئرمین بنایا گیا تھا.
بجلی چوری روکنے کے لئے اسکو ٹاسک دیا گیا کہ دیکھا جائے کہ کون کون بجلی چوری میں ملوث ھیں. چھ مہینے تک پوری کراچی اور اسکے مضافات کا سروے کر کے ایک رپورٹ
وفاقی حکومت کے پاس بھجوائی گئی کہ پچاس فیصد حکومتی ادارے خود بجلی چوری میں ملوث ھیں اور چالیس فیصد صنعت کار یعنی انڈسٹریل والے چوری کر رھے ھیں
اور دس فیصد کچی ابادیاں اور غریب طبقہ بجلی چوری میں ملوث ھیں.لیکن حکومت چاہتی ھے
کہ ابتداء غریب اور کچی آبادیوں سے شروع کی جائے. تو
فرینک شمیڈٹ نے کہا کہ یہ تو ظلم ھے کہ نوے فیصد بڑے چوروں کو چھوڑ کر دس فیصد غریب اور بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کے خلاف کاروائی کی جائے. کم از کم میں یہ آپریشن نہیں کر سکتا ھوں.
فرینک نے کہا کہ اگر نوے فیصد بجلی چوروں سے ریکوری کی جائے تو دس فیصد غریب لوگوں کو چھوڑ کر انکو مفت
مناسب لباس میں ملوث شخص ٹیکسی سے اترا اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف چل پڑا۔۔۔۔گیٹ سیکورٹی پر معمور عملے نے روکا تو بتایا۔! وزیراعظم کا بزنس پارٹنر اور خاص مہمان ہوں۔۔۔میری آمد کا انکو پتہ ہے پوچھ لیں۔۔۔گیٹ سیکورٹی نے حیرانی سے اس بزنس پارٹنر کو دیکھا جو انکے سامنے پیدل
وزیراعظم ہاؤس داخل ہوا۔۔۔
خیر ضروری معلومات لینے کے ضابطے طے کرنے کے بعد سیکورٹی کو خاص مہمان بھیجنے کے لیے کہا۔۔۔ سیکورٹی عملے نے حیران و پریشان اندر جانے کی اجازت دے دی۔۔۔
سیکورٹی پر معمور ایک اہلکار معاونت کے لیے ساتھ ہو لیا۔۔ وزیراعظم ہاؤس کی اندرونی سیکورٹی پر معمور
اہلکار حیران نظروں سے اس شخص کو دیکھتے جو دیکھنے میں ہی متوسط طبقے کی علامت لیکن پروٹوکول سے چلا آ رہا تھا۔۔۔ لانے والا اہلکار ہر حیران آنکھ کو بتاتا کہ وزیراعظم کے خاص مہمان ہیں۔۔۔یہ سن کر ہر شخص حیران لیکن مودب ہو جاتا۔۔وزیراعظم آفیس میں پہنچنے کے بعد سٹاف آفیسر کو
آئیں اپکو ایک قادیانی فتنے کی کہانی سناتے ہیں۔ اس فتنے نے ہمیشہ مسلمانوں کو نیچا دکھایا ۔ آج ایک اور قادیانی نے یہی سب کچھ کیا۔۔ اس قادیانی کا نام، اس قادیانی کی بات،اج سب کچھ کھل کھل کر بتانے کا دن ہے۔۔ پاکستان کے پورے سسٹم کو قادیانیوں کے ساتھ مل کر جام کیا گیا۔ اور
پرائم منسٹر کو نکالا گیا جس پرائم منسٹر نے حبِ رسول ﷺ میں وہ کر دکھایا جو طاقتور ترین ملک سعودیہ عرب تک نے بھی نہیں کیا۔ اپنے نبیﷺ کیلئے اسلام و فوبیا کا نام اٹھایا اور اس کا الم اٹھایا اور یو۔این سے بل پیش کروایا ۔۔۔ ایسے میں یہ قادیانی کیسے سکون سے بیٹھ سکتے تھے ؟؟؟ یہ تو
بھیڑیوں اور کتوں کیطرح بیٹھے رہے اور پھر اس شیر کو ہٹایا یہاں سے۔۔ فتنے اور شر ایسے ہی دنیا میں چلتے رہیں گے۔۔۔ لیکن جیت ہمیشہ سچ کی رہے گی۔۔۔قادیانی فتنہ ایک بار پھر جیت گیا، مگر بس تھوڑی دیر کیلئے۔۔۔
حامد میر کا واشنگٹن پوسٹ میں مضمون بہت ہی خطرناک ہے۔ بہت ہی ڈسٹربنگ ہے۔
حامد میر نے یہ کہے بغیر امریکہ سے التجا کی ہی ہے کہ عمران خان کو راستے سے ہٹا دیا جائے کیونکہ یہ امریکی مفادات کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ اور اس کام کے لئے بہترین وقت اب ہے۔
حامد میر نے زرداری اور نوازشریف کو
پاکستان میں جمہوریت کے چیمپئنز قرار دیا ہے۔ اور عمران خان کو مذہبی شدت پسندوں، دہشت گردوں، لبان کی حزب اللہ، ایران، روس، ولیدمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کا خطرناک ساتھی قرار دیا ہے۔
اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے پرزور اپیل کی ہے کہ جیسے اس نے ٹرمپ کو ہٹایا تھا اسی طرح پاکستان میں سازشی
قوتوں کی مدد کریں کہ عمران خان کو روکا جائے۔
لیکن پھر انہوں نے کہا کہ یہ شخص الیکشن ہارنے کے بعد بھی آرام سے نہیں بیٹھے گا اور مستقل امریکہ اور جمہوریت کے لئے خطرہ بنا رہے گا (اس لئے بہتر ہے اس کو ختم ہی کر دیا جائے)۔
اور ساتھ ہی حامد میر نے جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات
نوے برس کے ضعیف آدمی کے
پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا ۔ بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔
سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن ۔ پیرانہ
سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
دو ماہ میں اپنا پورا
کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھا ر پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہواکہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزر رہا تھا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔ اور پھر محلہ داروں نے بیچ