23 فروری 2022 کو پہلا خوف ناک ایشو پیدا ہوا‘ کولمبو پورٹ پرآئل کیریئر 40ہزار ٹن فیول (پٹرول) لے کر پہنچا‘بینک آف سیلون نے پٹرول کی پے منٹ کرنی تھی لیکن بینک کے پاس ڈالر ختم ہو گئے‘ وزیرخزانہ سے رابطہ کیا گیا۔
وزیرخزانہ نے اسٹیٹ بینک سے بات کی لیکن اس کے پاس صرف دو ارب اور
30کروڑ ڈالر تھے اور وہ بھی کرنسی کی شکل میں نہیں لہٰذا پٹرول نہ خرید سکااور جہاز پٹرول سمیت انڈیا روانہ ہوگیا‘ یہ سری لنکا کے دیوالیہ پن کا اسٹارٹ تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مہاتمابودھ کا پسندیدہ ملک 49دنوں میں مکمل دیوالیہ، سری لنکا نے 12اپریل کو خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کردیا۔
ہم نے دیوالیہ کا صرف لفظ سنا ہے‘ ہم اس کے نتائج اور ردعمل سے بالکل واقف نہیں ہیں‘ میں لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنتا ہوںہم اگر دیوالیہ ہو بھی گئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کی ایک تقریر آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ فرما رہے تھے ہم سے جو بھی ملک اپنے
پیسے واپس مانگے اسے کہو چل اوئے اور اگر وہ نہ مانے تو اسے کہو لو فیر آیا جے غوری‘ میں نے لوگوں کو اس تقریر پر واہ واہ اور سبحان اللہ‘ سبحان اللہ بھی کہتے سنا‘ یہ آوازیں بھی ثابت کرتی ہیں ہم حقائق کی دنیا سے غافل بے عقل لوگ ہیں۔
سری لنکا میں بھی ایسے لاکھوں لوگ تھے‘یہ بھی
حکومت کو کہتے تھے ’’ہم اگر دیوالیہ ہو بھی گئے تو کیا فرق پڑتا ہے‘‘ لیکن آج سب سے زیادہ یہی لوگ رو رہے ہیں‘ سڑکوں پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور سرکاری دفتروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر یہ اہلکار اور سرکاری محکمے اب کیا کر سکتے ہیں؟ پورا ملک اس وقت ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح
سمندر میں ہچکولے کھا رہا ہے اور پوری دنیا میں اسے بچانے اور سہارا دینے والا کوئی شخص موجود نہیں۔
آپ اگر دیوالیہ پن کو سمجھناچاہتے ہیں تو آپ چند مثالیں دیکھ لیں‘ سری لنکا کو تین ہزار میگا واٹ بجلی چاہیے ہوتی ہے جب کہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 4 ہزار میگاواٹ ہے لیکن 80فیصد بجلی
تھرمل پاورپلانٹس سے پیدا ہوتی ہے اور یہ پلانٹس ڈیزل‘ فرنس آئل اور کوئلے پر چلتے ہیں‘ ان کے لیے ڈالرز چاہئیں اور سری لنکا کے پاس ڈالرز نہیں ہیں لہٰذا پاورپلانٹس بندہیں اور نتیجے میں ملک میں روزانہ ساڑھے سات گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے‘ صبح آٹھ بجے سے ایک بجے اور شام چھ سے ساڑھے آٹھ بجے
تک پورے ملک میں بجلی نہیں ہوتی اورلوڈشیڈنگ کی وجہ سے ٹیلی ویژن‘ موبائل فون سروسز‘ دفتر‘ اسکول‘ اسپتال‘ ریستوران‘ چائے خانے اور ہوٹل بند ہو جاتے ہیں۔
یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں سوال آئے گا یہ ادارے اپنے جنریٹرزکیوں نہیں چلا لیتے؟ یہ چلا سکتے ہیں لیکن جنریٹرز ڈیزل‘ پٹرول‘ فرنس آئل‘
گیس اور کوئلے سے چلتے ہیں اور یہ سہولتیں اس وقت ملک میں موجود ہی نہیں ہیں‘ بجلی کی بندش سے ٹیوب ویل اور پانی کی موٹرز نہیں چل رہیں چناں چہ پورے ملک میں پانی اور سیوریج دونوں بڑے بحران بن چکے ہیں‘ پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہو چکی ہے اور ریل سروس بھی‘ ذاتی
گاڑیاں بھی گیراجوں میں کھڑی ہیں یا پھر پارکنگ لاٹس اور گلیوں میں‘ بچوں کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے ہیں کیوں کہ ایجوکیشن بورڈز کے پاس امتحان کی کاپیاں اور سوال چھاپنے کے لیے کاغذ ہی موجود نہیں ہیں۔
ڈرائیونگ لائسنس‘ شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بھی نہیں بن رہے کیوں کہ پلاسٹک شیٹس
امپورٹ نہیں ہو رہیں‘ سری لنکا کی ایکسپورٹس کا 52 فیصد ٹیکسٹائل اور گارمنٹس پر مشتمل تھا‘ جی ڈی پی میں چائے کی ایکسپورٹ کا والیم 17فیصد تھا جب کہ باقی 31 فیصد آمدنی مسالوں‘ قیمتی پتھروں‘ کوکونٹ‘ ربڑ‘ فش اور سیاحت سے آتی تھی‘ تیل کی بندش‘ لوڈشیڈنگ اور ڈیفالٹ کی وجہ سے ٹیکسٹائل
انڈسٹری اور چائے سمیت ساری ایکسپورٹس رک گئیں‘ فلائیٹس بند ہوئیں تو سیاحت کی انڈسٹری بھی دم توڑ گئی‘ مسافر نہیں آ رہے تو ہوٹل‘ ریستوران اور عجائب گھر بھی اجڑ گئے۔
پاکستان کی طرح سری لنکا کے مالیاتی ذخائر کا بڑا سورس بھی تارکین وطن ہیں‘ ملک کے معاشی حالات خراب ہوئے تو دوسرے ملکوں
میں مقیم سری لنکن نے بھی رقمیں بھجوانا بند کر دیں لہٰذا بحران بڑھتا چلا گیا اور آج سری لنکا پوری دنیا کو محتاج نظروں سے دیکھ رہا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے کے لیے تیار نہیں۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں آخر سری لنکا اس حالت کو کیسے پہنچا؟ ہم سردست سیاسی وجوہات کو سائیڈ پر رکھ
دیتے ہیں اور عملی چیزیں دیکھتے ہیں‘ سری لنکا قدرتی وسائل سے مالا مال خوب صورت ملک ہے‘ دنیا کی بہترین چائے پیدا کرتا ہے‘ گھنے جنگلوں کا مالک ہے‘ بودھ مت کا گڑھ ہے لہٰذا مدہبی سیاحت کے خزانے بھی ہیں‘ دنیا جہاں کے مسالے بھی پیدا ہوتے ہیں‘ سری لنکا کی دارچینی پوری دنیا میں مشہور ہے‘
یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آیا تو دنیا کے نامور برینڈز گاہک بن گئے۔
چار سائیڈز سے سمندر میں گھرا ہوا ہے لہٰذا ہر قسم کا ساحل بھی ہے اور ان ساحلوں پر سیکڑوں ریزارٹس اور ہوٹلز بھی‘ 92 اشاریہ تین فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں‘ بھکاری بھی روزانہ اخبار پڑھتے ہیں‘ برصغیر کی قدیم ترین لائبریری
گال شہر میں ہے‘ یہ ہالینڈ کے جہاز رانوں نے 1832میں بنائی تھی اور آج بھی چل رہی ہے‘ مہاتما بودھ کا ایک دانت کینڈی شہر میں رکھا ہوا ہے اور پوری دنیا سے بودھ بھکشو اس کی زیارت کے لیے کینڈی آتے ہیں۔
سری لنکا سائوتھ ایشیا کا پہلا ملک تھا جس نے 1970میں اپنی معیشت کو لبرل بنایا تھا اور
سری لنکن بہت صفائی پسند‘ ڈسپلنڈ اور نرم مزاج لوگ بھی ہیں‘ مہمان نوازی کے شعبے میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن پھر ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ ہو گیا؟ اس کی چھ وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ قرضے ہیں‘ سری لنکا کو بھی پاکستان کی طرح قرضوں کی لت لگ گئی تھی‘ یہ تازہ ہوا کے لیے
بھی قرضہ لے لیتا تھا‘ یہ قرضے بڑھتے بڑھتے جی ڈی پی کا 119 فیصد ہو گئے یعنی آپ جو کچھ کما رہے ہیں وہ اور اس کے ساتھ مزید 20 فیصد قرضوں کی قسطوں میں دے رہے ہیں لہٰذا ملک ہماری طرح قرضے کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور ہو گیا۔
دوسری وجہ پاکستان کی طرح سری لنکا کا بجٹ اور
تجارتی خسارہ بھی بڑھ گیا یعنی جتنا بجٹ بناتے تھے یہ اس سے زیادہ خرچ کر دیتے تھے اور انھیں جتنی آمدنی برآمدات سے ہوتی تھی یہ اس سے زیادہ رقم درآمدات پر خرچ کر دیتے تھے‘ یہ لوگ بھی ہماری طرح بیچتے کم اور خریدتے زیادہ تھے‘ تیسری وجہ سری لنکا میں ہماری پی آئی اے اور اسٹیل مل
کی طرح502 ایسے سفید ہاتھی تھے جن پر بجٹ کا 20فیصد حصہ خرچ ہو جاتا تھا‘ ان اداروں میں سیاسی بھرتیاں ہوتی تھیں‘ صرف دفتروں کے تالے کھولنے اور بند کرنے کے لیے بیس بیس لوگ تھے۔
یہ ہاتھی کھاتے بہت زیادہ تھے لیکن واپس کچھ نہیں کرتے تھے‘ چوتھی وجہ سری لنکا کی ٹریڈ پالیسی بنی‘
پالیسی بہت اچھی تھی‘ یہ سائوتھ ایشیا کا پہلا ملک تھا جس نے اپنی معیشت عالمی منڈی کے لیے اوپن کی لیکن پاکستان کی طرح ان کی انڈسٹری اور تجارت بھی بیوروکریسی کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی تھی‘ فیکٹریوں کے مالکان کا ایک پائوں فیکٹری میں ہوتا تھا اور دوسرا سرکاری دفتروں میں‘ ارب پتی لوگ بھی
عام سرکاری دفتروں کے برآمدوں میں بیٹھے ہوتے تھے۔
غیرملکی کمپنیاں بھی سری لنکا آئیں لیکن بیوروکریسی کے تاخیری حربوں‘ رشوت اور منفی رویے کی وجہ سے واپس چلی گئیں لہٰذا بیوروکریسی کی وجہ سے سری لنکن بزنس مین ترقی بھی نہ کر سکے اور یہ ہانگ کانگ‘ ملائیشیا اور تائیوان میں بھی بیٹھ گئے‘
پانچویں وجہ سری لنکا مسلسل 26سال خلفشار اور خانہ جنگی کا شکار رہا‘ تامل ٹائیگرز نے 1983 میں جنگ شروع کی، 2009 تک مسلسل لڑتے رہے‘ اس جنگ نے ملک‘ معیشت اور فوج تینوں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں‘ دنیا میں خودکش حملوں کے تازہ موجد بھی تامل ٹائیگرز تھے‘ خودکش جیکٹ ان لوگوں نے بنائی تھی۔
سری لنکا نے پاکستان کی مدد سے 2009 میں اس عفریت پر قابو پایا لیکن یہ جاتے جاتے ملک کا سب کچھ لے گیا اور چھٹی وجہ سری لنکا میں تعلیم بہت ہے لیکن پاکستان کی طرح عملی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے‘ لوگ ڈگری ہولڈرز ہیں مگر ان کے پاس ہنر کوئی نہیں لہٰذا پاکستان کی طرح سری لنکا میں بھی ہر
شخص نوکری کی درخواست جیب میں ڈال کر پھر رہا تھا اور اس کا نتیجہ ڈیفالٹ کی صورت میں نکلا۔
سری لنکا کی مثال دیکھ کر آپ یہ بات اب سمجھ لیں دنیا میں کوئی قوم قدرت کی فیورٹ نہیں ہوتی‘ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین قوم تھی لیکن اس نے بھی جب قدرت کے سسٹم کی خلاف ورزی کی تو وہ
بھی ہزاروں سال ذلیل و خوار ہوتی رہی‘ ہم مسلمان بھی کئی سو سال سے خوار ہو رہے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم بھی نیچر کے سسٹم سے الٹ چل رہے ہیں لہٰذا یہ یاد رکھیں اگر اللہ تعالیٰ نے 22ملین سری لنکن کی کوئی مدد نہیں کی تو نالائقی‘ سستی اور نااہلی کے مارے 220ملین پاکستانیوں کے لیے بھی کوئی
غیبی امداد نہیں آئے گی اور آپ یہ بھی یاد رکھیں ہم سری لنکا سے صرف پانچ ماہ پیچھے ہیں اور ہم نے اگر ان پانچ ماہ میں خود کو نہ بچایا تو سری لنکا کے بعد ہم اگلی دیوالیہ قوم ہوں گے اور ہم اگر خدانخواستہ اس گڑھے میں گر گئے تو
پھر ہمیں باہر نکلنے کے لیے پہلی قیمت گوادر اور ایٹمی پروگرام کی شکل میں ادا کرنی پڑے گی اور اس کے بعد دوسری‘ تیسری اور چوتھی قیمتیں بھی موجود ہیں لہٰذا سنبھل جائیں گنجائش نہیں ہے۔
(منقول)
*عمران خان آخر کیا بلاتھا* ۔
1۔احساس کفالت پروگرام
2۔لنگر خانے
3۔شیلٹر ہوم کا قیام
4۔راشن کارڈ
5۔کسان کارڈ
6۔صحت انصاف کارڈ
7۔احساس سکالر شپ پروگرام
8۔انصاف آفٹر نون سکول
9۔انصاف معذور و بزرگ کارڈ
10۔مزدور کارڈ
11۔روشن ڈیجیٹل پروگرام
12۔خدمت ای مراکز کا قیام
13۔نیب کو با اختیار بنانا
14۔راست پروگرام
15۔سیرت یونیورسٹی کا قیام
16۔ٹورازم کا فروغ
17۔بلین سونامی ٹری کا آغاز
18۔ ٹیکس ریفارمز
19۔کرکٹ سے ہی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین
20۔پاکستان میں کرکٹ کی بحالی
21۔ پی ایس ایل کی کامیابی
22۔ای ٹرانسفر و پنشن کا قیام
23۔بھاشا، ۔مہمند اور واسو
ڈیم پر کام کا آغاز
24۔اپنا گھر سکیم کا قیام
25۔بلا سود قرضے کی سکیم
26۔21 نئی یونیورسٹیوں پر کام کا آغاز
27۔اور 23 نئے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں پر کام ۔
28۔پاکستان سٹیزن پورٹل کا قیام
29۔رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کا قیام
30۔ہر فورم پر حرمت رسولؐ پر آواز اٹھانا
31۔پی آئی اے، پی ٹی وی اور
میانچنوں کے بزرگ باسیوں کو آج بھی یاد ہو گا کہ “پُھدو کمیٹی تے مَنٌا چئیرمین” کی بازگُشت میانچنوں شہر و متصل دیہات کی فضاؤں میں بڑے عرصے تک گونجتی رہی، اِس فقرے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ،
غالباً ساٹھ کی دہائی کی بات ہے کہ
کمشنر ملتان ڈویژن میانچنوں میونسپل کمیٹی کی تقریبِ حلف برداری کے لئے تشریف لائے، اُس وقت میانچنوں میونسپل کمیٹی کی دُھوم پورے ملتان ڈویژن میں مچی ہوئی تھی، وجۂ دُھوم تھی کہ ایک غیر معروف، اَن پڑھ اور پینڈو قسم کے شخص جو کہ اپنی عُرفیت "مَنٌ" سے مشہور تھا، نے غُلام حیدر وائیں
جیسے گھاگ، زیرک، تجربہ کار سیاستدان کو چئرمینی کے الیکشن میں شکست سے دوچار کر دیا تھا۔
عام روایت ہے کہ جب بھی کوئی شخصیت بطور مہمان کسی تقریب میں جاتی ہے تو پہلے مرحلے میں عموماً میزبان مہمان سے اپنے ساتھیوں اور رفقاء کا فرداً فرداً تعارف کرواتا ہے، یہاں بھی کمشنر صاحب پنڈال میں
اقبال احمد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے‘ والد زمین کے جھگڑے میں ان کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گئے‘ 1947میں اپنے بھائی کے ساتھ بہار سے پیدل لاہور پہنچے‘ ایف سی کالج میں داخلہ لیا‘ اکنامکس میں ڈگری لی اور اسکالرشپ پر کیلی فورنیا امریکا کے کالج میں داخل ہو گئے اور
سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری پڑھنا شروع کر دی، ابن خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لیے وقف کر دیا‘ نوم چومسکی‘ ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد سے متاثر ہوئے اور انھیں اپنا دوست بنا لیا‘ یہ ان کی محفل میں اٹھنے
بیٹھنے لگے‘ زندگی کی سختیوں اور عالمی دانشوروں کی صحبت نے انھیں جنگ کا دشمن اور عالمی نظام معیشت کا مخالف بنا دیا اور یہ کھل کر کمیونزم کا پرچار کرنے لگے‘یہ پوری دنیا میں لیکچر دیتے تھے اور لوگ ٹکٹ خرید کر ان کا لیکچر سنتے تھے‘ بڑے بڑے دانشور ان سے متاثر تھے‘
💢 *امریکی مصنف ڈینیل مارکے اپنی کتاب ”نوایگزٹ فرام پاکستان“ میں لکھتا ہے کہ ہم امریکن پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے، اسکی وہ تین وجوہات بتاتا ہے۔*
👈 پہلی وجہ۔۔۔پاکستان کا نیوکلیئر و میزائل پروگرام اتنا بڑا اور ایکسٹینسو ہے کہ اس پر نظر رکھنے کیلئے
ہمیں مسلسل پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا پڑے گا۔
👈 دوسری وجہ۔۔۔۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے چین کی سول ملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں چین پر نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔
👈 تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کو
بلکہ پوری دنیا کو ڈی سٹیبلائز کر سکتی ہے۔ پاک فوج پر نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔
⭕ وہ مزید لکھتا ہے کہ ہم نے 72سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو ڈویلپ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور پاکستان کو اسلامی دنیا کو بھی لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی
فرینک شمیڈٹ ایک جرمن الیکٹریکل انجنئیر تھا جو جنرل مشرف دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئرمین بنایا گیا تھا.
بجلی چوری روکنے کے لئے اسکو ٹاسک دیا گیا کہ دیکھا جائے کہ کون کون بجلی چوری میں ملوث ھیں. چھ مہینے تک پوری کراچی اور اسکے مضافات کا سروے کر کے ایک رپورٹ
وفاقی حکومت کے پاس بھجوائی گئی کہ پچاس فیصد حکومتی ادارے خود بجلی چوری میں ملوث ھیں اور چالیس فیصد صنعت کار یعنی انڈسٹریل والے چوری کر رھے ھیں
اور دس فیصد کچی ابادیاں اور غریب طبقہ بجلی چوری میں ملوث ھیں.لیکن حکومت چاہتی ھے
کہ ابتداء غریب اور کچی آبادیوں سے شروع کی جائے. تو
فرینک شمیڈٹ نے کہا کہ یہ تو ظلم ھے کہ نوے فیصد بڑے چوروں کو چھوڑ کر دس فیصد غریب اور بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کے خلاف کاروائی کی جائے. کم از کم میں یہ آپریشن نہیں کر سکتا ھوں.
فرینک نے کہا کہ اگر نوے فیصد بجلی چوروں سے ریکوری کی جائے تو دس فیصد غریب لوگوں کو چھوڑ کر انکو مفت
میڈیا گردی، اسٹاک مارکیٹ اور اقتصادی ترقی کے مصنوعی اشاریے
دو روز سے کارپوریٹ میڈیا میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پوائنٹس کی بہتری کے چرچے ہیں، عام آدمی کو تاثر دیا جارہا ہے کہ شہباز شریف کے حلف اٹھاتے ہی قومی معیشت میں مثبت رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ غالباً یہ قومی یادداشت کے
ضعیف ہونے کی علامت ہے۔ کیا گزشتہ برس کی رپورٹ بھول گئے ہیں؟ جس میں انکشاف ہوا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج مارکیٹ پر 31 بااثر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے تیار کی تھی۔
اس رپورٹ میں اسٹڈی مارکیٹ میں کارپوریٹ گروپوں اور اسٹاک مارکیٹ
میں ان کی ملکیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کمپنی بورڈ کو کس طرح کمپنی کے ڈھانچے اور پیشہ ورانہ انتظام پر مالک اور اس کے کنبہ کے اثر و رسوخ کی جانچ پڑتال کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے اس پر نظر ڈال کر کارپوریٹ گورننس کو ہائی لائٹ کیا ہے.