انڈے سے بہتر تھا اذان پر مرتا:
ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا۔ ایک بار اس نے مرغا ذبح کرنا چاہا۔ مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا کوئی بہانا سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے آذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔ مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی! صبح جونہی مرغے کی آذان کا وقت
1/5
ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے آذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پھڑپھڑایا۔ مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔ اگلے دن صبح آذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت
2/5
گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔ مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے، اگلے دن آذان کے وقت مرغا بلکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔ مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔ اب کے بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی بس کی بات نہیں تھی۔
3/5
مالک نے کہا کہ کل سے تم نے صبح انڈا دینا ہے ورنہ ذبح کردوں گا۔ اب مرغے کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی اور وہ بہت زار و قطار رویا۔ مالک نے پوچھا کیا بات ہے؟ موت کے ڈر سے رورہے ہو؟ مرغے کا جواب بڑا باکمال اور بامعنی تھا۔
4/5
مرغا کہنے لگا:
*"نہیں، رو اس بات پہ رہا ہوں کہ انڈے سے بہتر تھا آذان پر مرجاتا"*
م ن ق و ل
(اخلاقی سبق خود اپنے ذوق کے مطابق حاصل کریں،سمجھدارکو اشارہ کافی) 5/5
غیبی مدد نہ اسپین کے وقت آئی, نہ خلافت عثمانیہ کو بچانے آئی, نہ اسرائیل کا قیام روکنے کے لئے آئی, نہ بابری مسجد کے وقت آئی, نہ عراق اور شام کے وقت آئی, نہ میانمار کے وقت آئی, نہ گجرات کے وقت آئی، نہ کشمیر کے لئے آئی۔
پھر بھی گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کر غیبی مدد کی صدا؟
1/5
غیبی مدد جنگ بدر میں آئی۔ جب 1000 کے مقابلے میں 313 میدانِ جنگ میں اُترے۔
غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پّیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھودی اور میدانِ جنگ میں اُترے۔
2/5
دنیا کا قیمتی لباس پہن کر, مال و زر جمع کر کے, لگژری ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر, جُھک جُھک کر لوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر, لوگوں کی واہ واہ کی ہنکار کی خواہشات لئے مسجدوں کے ممبروں پر بیٹھ کر بددعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر؟
3/5
بادشاہ نے ایک درویش سے کہا, "مانگو کیا مانگتے ہو؟" درویش نے اپنا کشکول آگے بڑھا دیا اور عاجزی سے بولا حضور! "صرف میرا کشکول بھردیں". بادشاہ نے فوراً اپنے گلے سے ہار اتارے, انگوٹھیاں اتاریں, جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈالدیں, لیکن کشکول بڑا تھا
1/4
اور مال ومتاع کم لھذا بادشاہ نے فوراً خزانے کے منتظم کو بلایا,نےظم ہیرے جواہرات کی بوری لیکر حاضر ہؤا, بادشاہ نے پوری بوری اُلٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا چلا گیا یہاں تک کے جواہرات غائب ہوگئے. بادشاہ کو بیعزّتی کا احساس ہؤا تو اس نے خزانوں کے
2/4
منہ کھول دیئے, لیکن کشکول بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. خزانے کے بعد وزراء اور درباریوں کی تجوریوں کی باری آئی لیکن کشکول نہ بھر سکا. ایک ایک کرکے سارے شہر کا مال ومتاع ڈال دیا گیا لیکن کشکول خالی کا خالی ہی رہا. آخر بادشاہ ہار گیا اور درویش جیت گیا. درویش نے بادشاہ کے
3/4
مرحوم کی آخری نشانی:
تم اپنی بیوی سے پہلی بار کیسے ملے؟ میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔
کتے کی وجہ سے۔
کتے کی وجہ سے؟ میں نے حیران ہو کر کہا
ہاں! کتے کی وجہ سے۔ میں اپنے کتے کو لے کر عصر کے بعد پارک میں سیر کیلئے جا رہا تھا۔ وہ راستے میں ملی، مجھ سے پوچھا کتا بیچو گے؟
1/4
میں نے کہا نہیں۔ تھوڑی دیر ہم میں گفتگو ہوئی، ایک دوسرے کے موبائل نمبر ہم نے لیے اور اپنے اپنے راستے چل دیے۔
شاواشے... پھر؟
پھر ہم روزانہ فون پر گفتگو کرتے، وہ مجھ سے کتے کے بارے میں پوچھتی. اُسے وہ بہت پسند تھا۔
ایک دن ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم شادی کر لیتے ہیں،
2/4
اس طرح کتا ہم دونوں کا ہو جائے گا۔ چنانچہ ہم نے شادی کر لی۔ چند سال گزر گئے۔ اس دوران ہمارے ہاں ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے۔
ارے واہ... پھر؟
پھر ایک دن کتا مر گیا۔
میں نے بیگم سے کہا کہ کتے کی وجہ سے تم نے مجھ سے شادی کی تھی۔ وہ مر چکا ہے۔ کیا مجھے چھوڑ دو گی؟
3/4
جس طرح ہمارا دولت مند طبقہ مذہبی رسوم پر جی کھول کر خرچ کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ خدا اس سے خوش ہو جائے گا، اسی طرح یہودیوں کا دولت مند طبقہ بھی اسی گھمنڈ میں تھا کہ یہوواہ (خدا) اس کی قربانیوں سے خوش ہو گا لیکن یہ ان کی بھول تھی.
1/4
"اے سدوم کے حاکمو ! خداوند فرماتا ہے کہ تمہارے ذبیحوں کی کثرت سے مجھے کیا کام. میں مینڈھوں کی سوختی قربانیوں اور فربہ بچھڑوں کی چربی سے بے زار ہوں اور بیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خون میں میری خوشنودی نہیں. بخور سے مجھے نفرت ہے. نئے چاند اور سبت اور عیدی سے بھی
2/4
کیونکہ بد کرداری کے ساتھ عید برداشت نہیں. میرے دل کو تمہارے نئے چاندوں اور تمہاری مقرر کردہ عیدوں سے نفرت ہے. وہ مجھ پر بار ہیں. تمہارے ہاتھ تو خون آلودہ ہیں. اپنے برے کاموں کو میری آنکھوں سے دور کر دو. بد فعلی سے باز آؤ، نیکو کاری سیکھو. انصاف کے طالب ہو مظلوموں کی مدد کرو.
3/4
مشتری ہوشیار باش
سب اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔
اپنے ارد گرد نظر رکھیں۔ شہر کراچی میں ایک نئی کہانی شروع ہوگئی ہے۔ اسکا شکار آپ اور آپ کے حلقہ احباب اہل و عیال کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
تو بات یہ ہے کہ میرے ایک دوست کیساتھ عید موقع پر ایک واقعہ ہوا ۔
1/5
ایک موٹر سائیکل سوار جس کے ساتھ ایک عورت اور ایک بچہ آگے بیٹھا تھا اسکی ٹھیک گاڑی کے آگے آکر اپنی موٹر سائیکل روکتا ہے اور اتر کر کہنے لگتا ہے کہ آپ نے میری موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی میرے ساتھ فیملی بیٹھی ہے جان جا سکتی تھی حرجانہ دو وغیرہ وغیرہ۔
2/5
وہاں موجود کچھ لوگوں نے یہ معاملہ حل کروایا ۔ یہ بات اتفاقیہ ہوسکتی تھی ۔لیکن پھر میرے ایک اور دوست کیساتھ بھی بالکل اسی طرح کا واقعہ ہوا ۔بلکہ دوچار لوگ بھی آگئے اور کہنے لگ گئے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اسنے ٹکر ماری ہے ۔ بڑی مشکل سے دو تین ہزار دیکر اسے اپنی
3/5