#AzadiMarchPTI
حکومت کہتی ہے کہ ہم نے تیاری کرلی ہے، بلڈ شیڈ نہیں ہوگا، پانچ سو کمیرے وغیرہ لگائے ہیں۔ دوسری طرف لاء انفورسمنٹ کی رپورٹ ہے کہ اسلحہ جمع کر رہے ہیں، آنسو گیس شیلز وغیرہ ساتھ لا رہے ہیں۔سمجھ آرہی ہے کہ اسلام آباد کے اندر کیا ہونے جارہا ہے ۔کس کے کیا کیا منصوبے ہے؟۔
میدان میں گرما گرمی بڑھانے کے لئے اور آزادی مارچ کو سبوتاژ کرنے کیلئے کالا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔عدالتوں کو بیچ میں لایا جا رہا ہے۔آزادی مارچ کے ٹائیگرز فورس اور پی ٹی آئی ورکرز پر تشدد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قانون کے مطابق ہر شہری آزادی مارچ میں شرکت کا حق استعمال کرسکتا ہے۔
دراصل ہی اقتدار کی خواہش ہے جو انسان کو نابینا کردیتا ہے۔اس حکومت کو اسلئے وجود میں لایا گیا تھا کہ اپنے خواہش کے مطابق اقتدار کے مزے لوٹے، اور پاکستان کے اداروں کو غیر قانونی طور پر عوام کی خواہش کے برعکس اپنے حق میں کرکے ووٹ کو چوری کرکے دوبارہ اقتدار کے نشے لے سکے۔
اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ حکومت چھوڑنے اور نئے الیکشن کرانا ایک شوشہ تھا۔ عوام کو گمراہ کرنے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ حقیقت مگر اسکے برعکس نکلی ہے۔حکومت کو ای وی ایم پر قانون بنانا ہے، نیب کے چیئرمین کو ہٹانا اور قانون تبدیل کرنا ہےاور ایف آئی اے سے مقدمات ختم کرنے ہے۔
حکومت عوام کو گمراہ کرنے کیلئے جھوٹے پروپیگنڈے، معاشی ڈیفالٹ، قومی حکومت، میثاق معیشت کے غیر ضروری بحث میں الجھا کر درحقیقت اداروں کو اپنے زیر دست لانے کی مہم پر ہے۔ نیوٹرل کو جانبدار بنانے کیلئے پورا زور لگانے کے درپے ہیں۔
چاہئے ایف آئی اے ہو، نیب ہو، قومی سلامتی کونسل ہو، عدالتیں ہو، سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ وغیرہ جتنے بھی ادارے ہو ان کو سیاست زدہ کرتے ہوئے سیاست میں گندہ کرنے اور میدان میں لائے جانے کا پروگرام بن چکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ دراصل پاکستان کی تباہی اور تقسیم کا منصوبہ ہے۔
الیکشن پی ڈی ایم کا اہم مطالبہ تھا جو کہ عمران خان کی حکومت میں آتے ہی دیگر پارٹیاں زور اور شور سے کرتی آئی ہے۔ لیکن اس میں ناکام ہوئی اور جب امریکہ اور حکومت(پی ڈی ایم پارٹی) کے توسط سے تحریک انصاف کے منحرف پارٹی اراکین کو کروڑوں پر خریدے تو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔
عمران خان حکومت کے اتحادیوں کو نئی حکومت میں مراعات، وزارتوں اور آئیندہ سیٹ اپ پر قائل کرنے کی بعد پی ڈی ایم اپنے گھناؤنے منصوبے کے آخری فیز میں داخل ہوچکے ہے۔ پاکستان کے جڑیں کھوکھلی کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ترقی کو رول بیک اور پروگریسیو قانون سازی کے خلاف اقدامات ہوچکے ہے۔
پاکستان کے فیڈریشن، اداروں کو یرغمال بنانے کا اعلان کردیا گیا ہے، آزادی مارچ ایک بہانہ ہے، اصل ملک کا خزانہ ہے، جس پر پی ڈی ایم (حکومت)کی نظریں تادھیر رکی ہوئی ہے، حکومتی اراکین تدبیریں سوچ رہے ہیں۔ ایک شخص کے خلاف پورے وسائل بروئے کار لائے جارہے ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت آزادی مارچ کے حوالے سے ایک تیر سے دو شکار کھیلنا چاہتے ہے، ایک طرف ملک میں انتشار، بے چینی، بے یقینی اور خون بہانا اور عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو مسیحا ثابت کرنا چاہتے ہےاور دوسری طرف اداروں میں ٹکراؤ کی جیسی صورتحال پیدا کردینا چاہتے ہے۔ #AzadiMarchPTI
عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم، الیکٹرانک میڈیا، لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں، دیگر ادارے، سول اور ملثری اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر اس گیم میں حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ آزادی مارچ عمران خان کے بقول ایک قانونی اور آئینی عمل ہے۔ جو کہ عدم تشدد سے آگے بڑھایا جائیگا۔
حکومت اور تحریک انصاف کی اس سیاسی چپقلش کی ذمہ داران اگر ایک طرف میڈیا اور سوشل میڈیا جنگجو ہے تو دوسری طرف اس نازک صورتحال میں سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بھی برابر کی ذمہ داران ہے۔ سیاست دان سیاسیت عوام اور معاشرے کی ترقی کیلئے کرتے ہے۔
لہذا سیاست میں کمپرومائز کا عنصر ہر وقت موجود ہونا چاہئے، خون و کشت، الزامی سیاست سے نقصان صرف عوام اور پاکستان کا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کیلئے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔یہ کسی تیسرے فریق کا صوابدید نہیں۔ایسے لوگ ہمیشہ موجود ہوتے ہے جو بیچ کی راہ نکالنے کے ماہر ہوتے ہے۔
ایسے خیالات اس وقت ذہن میں آتے ہے جب ذہن خطرہ بھانپ لیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ حکومت ہی غلط ہو اور تحریک انصاف ہی ٹھیک ہو۔ بحث میں ایک جیت جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ لیکن جیت کسی کی نہیں ہوتی۔ عقلی دلائل اور نصیحت آموز مکالمہ سے دوسرے کے دل میں جگہ بنائی جاسکتی ہے۔
اب بھی وقت ہے، مذاکرات کرے، اتفاق بنانے کیلئے بیٹھنا چاہئے۔ سوچنا چاہئے پاکستان کس طرح ٹھیک ہوسکتا ہے۔ مرکزی نکتہ صرف پاکستان ہونا چاہئے، اسکی ترقی ہونی چاہئے، اسلئے ایک دوسرے کو موقع دینا چاہئے، حوس اقتدار، لالچ اور طمع خام سے پاکستان خراب ہوگا، عوام کا نقصان ہوگا۔
آئیے، ملکر بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں اور اس بے یقینی اور بے چینی کا حل نکالتے ہیں۔عالمی سماج کو جگ ہنسائی کو موقع نہیں دیتے۔پاکستانی عوام ایک خودار اور غیرت مند قوم ہے۔ اسلام اور پاکستان کا قانون ہمارے درمیان پیمانے ہے۔پاکستان کو آگے بڑھانے کیلئے سچی لگن اور خلوص دل سے عمل کرتے ہے۔
آئیے پاکستان کو اس معاشی ڈیفالٹ سے نکالنے کی تدابیر سوچتے ہے۔ قوم بننے کی صلاحیت اور خواہش پیدا کرنا ہے۔ ملک ہوگا تو سیاست ہوگی، جمہوریت ہوگی، رواداری ہوگی، عزت اور احترام ہوگا۔ خدارا ملک اور قوم کی خاطر رحم کرے، ملک خداد مزید انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
منحرف اراکین کو اپنی پارٹی کے علاؤہ دیگر پارٹی کو ووٹ کا حاصل نہیں۔ منحرف اراکین ووٹ جیت کر آئے تو ووٹ ڈالے،نا اہلی کیلئے پارلیمنٹ کو قانون پاس کرنا ہوگا۔ سپریم عدالت کا فیصلہ۔بغلیں نہ بجائے فیصلہ کے کئے ایک مضمرات ہے۔ الیکشن کی تیاری کرے۔ پی ٹی آئی کسی فیصلے کے ٹریپ میں نہ ائے۔
انصاف میں تاخیر کرنا انصاف اور فیصلہ کو بے وقعت اور اس کی اہمیت کو زائل کردیتا ہے۔ یہ ایک بے وقت فیصلہ ہے۔ بے وقت راگنی کے مثال۔
ایک ماہ میں پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لایا ہے یہ ایک فیصلہ۔حکومت کو بھی تباہی کا اندازہ ہوچکا ہے اور وہ اپنے آپ کو حکومت سے الگ کرنا چاہتے ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ وفاق میں انحراف کرنے والے اراکین کو بھی فارغ کرنا چاہئے تھا۔ فیصلہ میں قصداً عمدا تاخیر کیا جارہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ابھی تک نیوٹرل نہیں ہوا ہے۔
ڈور کو کہی سے کھینچا جا رہا ہے۔ حکومت چھوڑنے اور نہ چھوڑنے کی باتیں پی ٹی آئی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے
عمران خان نے حکومت میں پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دئیے رکھا، ٹیکنیںکل معاشی ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں تھا۔ اسٹاک ایکسچینج مستحکم تھا۔ ملک میں انارکی نہیں تھی۔ رجیم چینج سازش سے سٹاک ایکسچینج عدم استحکام کا شکار ہوا، معاشی عدم استحکام سے ملک ڈیفالٹ کی جانب گامزن ہے۔
اب پی ڈی ایم کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کرنا چاہئے۔ ملکی معاش کی مجموعی صورتحال سے پیدا ہونے والے عوامی الزامات کا جواب دینا چاہیے۔ معیشت کو مستحکم کرتا ہوئے۔ الیکشن میں بطور ہتھیار پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کرنا چاہئے۔ مگر نہیں پی ڈی ایم کیوں کوئی الزام لے۔
سارا الزام عمران خان کی حکومت کو کیوں دیتے ہو؟ پچھلے چار سال کی کارکردگی کیوجہ سے عوام حکومت کو فارغ کرتی، اور پہ ڈی ایم عوامی ووٹ سے اقتدار میں آکر معیشت، قومی حکومت اور میثاق حکومت کی داغ بیل ڈالتی۔ لیکن سلیکٹر نے شائد ڈبل گیم کھیلی ہے۔
عمران خان کو سیاسی کھیل کے لئے میدان حکومت، اعلی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ازخود دیا ہے۔ مقبول بیانیہ کے لئے چھے مہینے درکار ہونگی۔ تحریک انصاف کو اپنے ورکرز کو تیار کرنا، پولیٹیکل آرگنائزیشن کو ازسرنو منظم کرنا، سوشل میڈیا میں دو ٹیم ایک جو ایکسپوز کرے #امپورٹڈ_گورنمنٹ_نامنظور
دوسری وہ سوشل میڈیا ٹیم جو تحریک انصاف کی ڈیفنس کرےالیکٹبلز کے بجائے ایسے سیاسی کارکنان جس کو الیکشن لڑنے اور جیتنے کا سلیقہ ہو، کم از کم اچھی تعلیم حاصل کی ہو، حکومت کرنے کا قرینہ جانتا ہو، جوآزادی کے لئےحکومتی بیانیہ کا موثر جواب دے اور جو کہہ سکے #امپورٹڈ_گورنمنٹ_نامنظور
الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد حکومت سنبھالنے کے لئے تحریک انصاف کاہدف واضح ہونا چاہئے۔غلطیوں سے سیکھنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے۔اسٹوڈنٹ، ڈاکٹرز،ٹیچرز ایسوسی ایشن اور لائرز فورم بنائے۔ ان کو فعال کرنے کے لئے بار بار میٹنگز کئے جائےیک آواز ہوکر کہے #امپورٹڈ_گورنمنٹ_نامنظور